جون 4، 2024
تحریر: ممتاز ہاشمی ٹورنٹو کینیڈا
گزشتہ چند
برسوں سے جس طرح سے عدلیہ کے معاملات چلاے جا رہیں ہیں اور خاص طور پر نئے آرمی
چیف جنرل عاصم منیر اور چیف جسٹس قاضی فائر عیسٰی کے عہدوں پر تعیناتی کے بعد
دیکھنے کو ملے ہیں وہ اس بات کے ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ اس وقت عدلیہ
کی اکثریت ملک میں بحران پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
عدلیہ کے اس
رویے کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی کی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا
پاکستان کی
تخلیق میں ہماری سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا کوئی حصہ نہیں تھا
بلکہ یہ عناصر اپنے برطانوی آقاؤں کی سرپرستی میں ان کے ایجنڈے پر کام کرتے رہے
تھے۔
اس میں کوئی
شک نہیں کہ پاکستان کے قیام کے آغاز سے ہی سول اور ملٹری
دونوں ادارے سیاسی قوتوں اور جمہوریت کے خلاف سازشوں میں مصروف رہیں تاکہ اس نئے
ملک میں اپنی بالادستی کو یقینی بنایا جا سکے ۔ ان مقاصد کے حصول کے
لیے ان کو عدلیہ کی حمایت لازمی تھی جس کو انہوں نے ملک کر اس طرف راغب
کیا اور وہ اپنے اصل مقصد انصاف کی فراہمی سے انحراف کرنا شروع کر
دیا اس سلسلے کا آغاز مشہور مولوی تمیز الدین کیس سے ہوتا ہے جب عدلیہ
نے پہلی مرتبہ مارشل لاء کو قانونی تحفظ فراہم کیا جو کہ آئینی طور پر مکمل طور پر
ان کے اپنے حلف اور مقاصد سے انحراف تھا
اس
کے بعد ہر آنے والے دور میں عدلیہ کا کردار کوئی قابل رشک نہیں رہا اور ہر اہم
قومی اہمیت کے مواقع پر عدلیہ نے ہمیشہ اپنے حلف سے غداری کرتے ہوئے غیر آئینی
فوجی آمریتوں کو تحفظ دینے کا کام کیا ہے اس وجہ سے دنیا میں پاکستان کی عدلیہ کی
کوئی وقعت نہیں اور دنیا پاکستان کو اسی وجہ سے " ڈیپ سٹیٹ" کے نام سے
جانا جاتا ہے
کچھ حلقوں
کا خیال ہے کہ عدلیہ مجبوری کے تحت ایسا کرتی رہی ہے کیونکہ اس کے سامنے جو منظر
نامہ ہے اسمیں ایک سرکاری اہلکار اپنے کھچ جوانوں کو چند ٹرکوں میں اسلحہ کے ساتھ
منتخب وزیراعظم کو گرفتار کرکے اور ٹی وی اسٹیشن پر قبضہ کر کے آئین
اور جمہوری حکومت کے خاتمے کا اعلان کر دیتا ہے تو ان کے لیے اس پر مزاحمت کرنے کی
حمت نہیں ہو سکتی۔ اس بات میں کچھ صداقت ہے لیکن اگر ان میں اپنے حلف
کی پاسداری کی حمت نہیں ہوتی تو ان کو اس شعبہ کا انتخاب ہی نہیں کرنا چاہیے اور
اگر کوئی اس منصب پر فائز ہو جائے تو بجائے غیر آئینی مارشل لاء کو جواز مہیا کرنے
کے باعزت طور پر استفئ دے کر گھر بیٹھ جانا چاہیے جس کی مثالیں تاریخ میں بہت سے
بےباک اور دیانتدار ججوں نے قائم کی ہیں لیکن اکثریت نے ہر موقع پر اپنے حلف سے
غداری کرتے ہوئے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
اس سلسلے
میں عدلیہ کے گھناؤنے کردار کی چند جھلکیاں ہماری حالیہ تاریخ میں دیکھنے میں ملتی
ہے جس میں کرپٹ عدلیہ نے سیاست میں ملوث ہوی اور اس طرح ان کے گھناؤنے
کردار کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔
عمران
خان کے اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر کئے گئے دھرنے دوران چیف جسٹس کا کوئی
نوٹس نہیں لینا اور اسلام آباد کو 126 دنوں تک مفلوج کر کے سیاسی مقاصد کی تکمیل
کی کوشش میں مکمل طور پر سہولت کاری فراہم کی۔
پاناما پپر
کے اجراء کے بعد دوبارہ عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ملک میں احتجاجی
مظاہرے دوران چیف جسٹس کا
اس
کو فون کر کے کہنا کہ وہ ہمارے پاس درخواست لے کر آئے اور ہم
تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے ہیں۔ یہ واضح طور پر عدلیہ کے سیاسی معاملات میں
مداخلت تھی اس نے اس کے لیے واٹس اہپ پر جی آئی ٹی تشکیل دی جس میں غیر
قانونی طور پرملٹری اسٹیبلشمنٹ کو شامل کیا گیا اس کے باوجود جب اس کو کوئی جواز
نہیں ملا تو منتخب وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر ھو کہ وہ لے سکتے تھے
کی بنیاد پر نااہل کر دیا۔ جو کہ آئین کی صریحاً خلاف ورزی
تھا آئین کے تحت وزیراعظم کو صرف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہی عہدے سے
ہٹایا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد
کے حالات مکمل طور پر عدلیہ کے غیر قانونی فیصلوں سے بھرپور ہے۔
یہ بات
ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب عمران خان کو غیر قانونی طور پر اقتدار دلانے کے لئے
انتخابات میں آر ٹی ایس سسٹم کو بند کر کے نتائج بدلے گئے تو عدلیہ خاموش تماشائی
کی طرح اس میں شامل رہی
عمران خاں
کے چار سالہ اقتدار میں اس کے تمام غیر قانونی اقدامات پر خاموشی اور اس کے
انتقامی اقدامات میں ریاستی اداروں کے غیر قانونی استعمال پر کوئی کارروائی نہیں
کی گئی
اس دور کے
بڑے بڑے کرپشن کے الزامات پر عدلیہ کی طرف سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا
ریاستی
اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا واضح ثبوت سابقہ ڈی جی ایف آئی اے
بشیر میمن نے مکمل طور پر فراہم کئے تھے لیکن عدلیہ اس موقع پر مکمل طور پر خاموش
تماشائی بنی رہی اس طرح وہ ان جرائم میں برابر کی حصہ دار قرار دی جا سکتی ہے
ریاض ملک کے
بڑے کرپشن کے اسکینڈل میں عدلیہ کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت سب کے سامنے
ہیں
اس دور میں
جو آزاد اور خودمختار جج تھے ان کو اہم نوعیت کے کیسز سے دور رکھا گیا بلکہ ان کی
کردار کشی اور ان س جان چھڑانے کی بھرپور کوشش کی گئی جسٹس قاضی فائز عیسی کی مثال
اس کا زندہ ثبوت ہے۔
اس ایم موقع
پر جب ملک انتہائی مسائل کا شکار ہو گیا ملک کے معاشی بحران نے سب خو
متاثر کیا اور دنیا بھر سے پاکستان کے تعلقات کو نقصان پہنچایا گیا جس سے پاکستان
اپنے دوستوں سے دور اور تنہائی کا شکار ہو گیا۔
اس اہم
مرحلے پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اکثریت رائے سے سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا اور
نتیجے کے طور پر عمران خان کی کٹھ پتلی حکومت زمین بوس ہو گئی۔
نئی متحدہ
حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانےمیں انتہائی محنت سے کام کیا اور جس کے لیے
سخت ترین اقدامات کرنے پڑے جس سے عوام کو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑا مگر آہستہ
آہستہ ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر نکل آیا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا وقت
قریب آنے لگا۔
اسوقت وہی تمام
افراد جو کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ، سول بیوروکریسی،
عدلیہ، کاروباری افراد وغیرہ وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے
آمریت کے ہر ادوار میں ناجائز مفادات حاصل کیے اور اج تک ان سے مستفید
ہوتے رہے ہیں اور آج بھی انکی اولادیں اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں تاکہ
اپنے کاروباری اور دیگر مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور اس طرح بلا روک
ٹوک اس کرپشن کے استحصالی نظام کو جاری رکھا جا سکے۔ ان تمام عناصر نے ملکر
پاکستان کو ناکام بنانے کے ایجنڈے پر عملدرآمد کرنا شروع کر دیا اور ملک میں مئی
9، کو ناکام بغاوت کرنے کی کوشش کی جو کہ اللہ سبحان تعالٰی نے اپنی رحمت سے ناکام
بنا دی۔
اس ناکام بغاوت کے بعد اس میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی شروع کی گئی تو ان
باغیوں کی مدد کے لیے دوبارہ سے عدلیہ میدان میں آ گئی۔ آج ایک برس سے زائد عرصہ
گزرنے کے باوجود ان باغیوں کو کسی قسم کی سزائیں نہیں دی جا سکیں بلکہ اس عدلیہ نے
ان ملزمان کو ضمانتیں دیں اور مفرور افراد کو انتخابات میں حصہ لینے تک کی اجازت
دی گئی۔
یہ تمام اقدامات استحصالی طبقات کو عدلیہ کی پشت پناہی کا واضح
ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
آج جبکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کے ساتھ ملکر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے
میں کامیاب ہو چکے ہیں اور عوام کو مہنگائی کے بحران سے نمٹنے میں کامیابیاں نظر
آنے لگی ہیں تو یہ دوبارہ سے استحصالی طبقات اپنی آخری کوششوں میں سرگرم عمل ہیں
تاکہ ملک کو انتشار اور افراتفری کا شکار کیا جائے اور اس ایجنڈے پر عدلیہ ان
پاکستان دشمن ایجنڈے پر کام کرنے والے عناصر کو مکمل تحفظ فراہم کر رہی ہے۔
اس نازک اور اہم مرحلے پر اب فیصلہ کن گھڑی آ پہنچی ہے۔ اب ان
باغیوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے ٹھوس اور غیر معمولی اقدامات کرنے لازمی ہی۔
ان اقدامات میں ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ اور عدلیہ کے اختیارات پر کچھ
پابندیاں لگانا لازمی ہے تاکہ پاکستان کے خلاف سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے۔
اس کے علاوہ کوئی اور حل ان حالات میں ممکن نہیں ہے اور اگر اس عمل میں
رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی تو آخرکار نا چاہتے ہوئے بھی ملک میں محدود مدت
کے لیے مارشل لاء کا نفاذ لازمی ئو جائے گا۔
اللہ سبحان تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ اس نازک موقع پر پاکستان دشمن ایجنڈے پر
عملدرآمد کرنے والوں کو عبرتناک شکست دے اور پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی جانب
گامزن کر دے۔ آمین

0 Comments