اگست 2، 2024
تحریر: ممتاز ہاشمی
مخصوص نشستوں کے کیس کا اقلیتی فیصلہ
آج سپریم کورٹ کے دو ججز نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر اپنا اقلیتی نوٹ جاری کر دیا ہے
یہ اختلافی نوٹ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ دونوں ججز کا اختلافی فیصلہ 29 صفحات پر مشتمل ہے۔
اس فیصلے نے اکثریتی فیصلے پر انتہائی اہم آئینی اور قانونی سوالات کھڑے کرتا دئیے ہیں اور اب اس اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد کرنا آئینی طور تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔
اس فیصلے میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ : اکثریتی فیصلے آئین کے آرٹیکل 51، 63 اور 106 کو معطل کرنے کے مترادف ہے جس کا سپریم کورٹ کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
اس فیصلے میں اکثریتی فیصلے کے 15 روز میں جاری نہ کرنے عمل پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور اس کو آئینی طور پر حاصل نظرثانی کی اپیل پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔ اسلئے اس وقت اختلافی نوٹ میں مختصر فیصلے پر انحصار کیا گیا ہے۔ اس اختلافی نوٹ میں یہ بات واضح طور بیان کر دی گئی ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کیلئے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کیلئے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہوگا۔
مزید یہ بات بھی ریکارڈ پر لائی گئی ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ بلکہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔
اس اقلیتی فیصلہے کے مطابق آزاد امیدواروں کو الیکشن کمیشن، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد تسلیم کیا، 39 یا 41 اراکین اسمبلی جس کا مختصر اکثریتی فیصلے میں حوالہ دیا گیا ہے یہ معاملہ کبھی متنازع ہی نہیں تھا، کسی عدالتی کارروائی میں یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی، تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہائیکورٹ میں فریق تھی۔
ان اراکین کا سنی اتحاد کونسل میں جانا متنازع تھا ہی نہیں، آزاد اراکین جنہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی انہیں سنے بغیر سنی اتحاد کونسل سے چھینا گیا۔
اقلیتی فیصلے میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک پی ٹی آئی فریق نہیں تھی۔ اس بارے میں یہ بات بھی ریکارڈ پر لائی گئی ہے کہ 13 رکنی فل کورٹ کی آٹھ ساعتوں میں سب سے زیادہ وقت کا استعمال ججز کے سوالات پر ہوا۔ اور دوران سماعت کچھ ججز نے یہ سوال بھی پوچھا کہ کیا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے جا سکتی ہیں اور اس پر کوئی بھی وکیل حتیٰ کہ خود پی ٹی آئی سے وابستہ وکلاء نے بھی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے پر کوہی بات نہیں کی۔
اقلیتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ خود کنول شوذب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بھی دلائل میں واضح کہا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے سے اتفاق نہیں کرتا۔ 80 اراکین کی قسمت کا فیصلہ سپریم کورٹ نےانہیں سنے بغیر کر دیا۔
اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ جب سپریم کورٹ کوئی اپیل سنتی ہے تو اختیار سماعت مختصر ہوتا ہے جس کی اکثریتی فیصلے میں خلاف ورزی کی گئی ہے اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔ تو یہ یہ عدالت کا اپنی جانب سے خود سے تخلیق کردہ ریلیف ہوگا جو آئین سے انحراف ہو گا۔ اس اقلیتی فیصلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں اس آئینی مسئلے کا حل بھی پیش کر دیا ہے جس کے تحت کسی بھی آئینی ادارے کو یہ نہیں کہا جا سکتا وہ ایسے فیصلے پر عمل کرے جو آئین کے مطابق ہی نہ ہو۔ اور کیونکہ اکثریتی فیصلے آہین کے خلاف ہے اس لیے اب اس پر عملدرآمد کرنے سے الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ پابند نہیں ہیں۔
اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں پہلے ہی قانون سازی شروع ہو گئی ہے اور وہ اس اکثریتی فیصلے کو مکمل طور پر ناکام بناتے ہوئے آئین کی بالادستی خو بحال کرنے میں کامیاب ہو گی۔
اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ اکثریتی فیصلے جاری نہ کرنے کی کیا وجوہات ہیں تو اب اس بات کی مکمل نشاندہی ہو جاتی ہے کہ اس اکثریتی فیصلے کا کوئی آہینی اوع قانونی جواز نہیں ہے اسلئے اس کو جاری نہیں کیا گیا ہے۔ دراصل اس فیصلے کے پیچھے کچھ دیگر محرکات دکھائی دیتے ہیں جو ملک کو آہینی بحران میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنانے کیلئے کیا گیا ہے۔
اب پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے عدلیہ کے ان غیر آئینی اقدامات کو روکنے کے لیے قانون سازی کرے تاکہ مستقبل میں اداروں کو اپنی حدود و قیود میں رہ کر اپنے فرائض انجام دینے پر مجبور کیا جا سکے۔

0 Comments