تحریر: ممتاز ہاشمی . ستمبر 11، 2024
آج قائداعظم کے یوم وفات پر دوبارہ سے چند لبرل عناصر جن کا پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں کوئی کردار نہیں تھا قائداعظم اور نظریہ پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں اور اس سلسلے میں وہ ہمیشہ قائداعظم کی 11 ستمبر 1947 کو تقریر کے ایک حصے کو بغیر کسی سیاق و سباق اور پس منظر کےپیش کرتے ہیں اس لیے اس کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں قیام پاکستان کی تاریخ کے پس منظر پر غور کرنا ہوگا
ہندوستان میں مسلم لیگ کا قیام ایک نئی جماعت کے طور پر آیا تھا جو کہ مسلمان نوابوں اور مراعات یافتہ طبقات کے لیے ایک ڈبیٹنگ کلب کی حیثیت رکھتا تھا جبکہ کانگریس اس وقت پورے ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ہندوستان کی برطانوی راج سے آزادی کے لیے کام کر رہی تھی اور قائداعظم اور دیگر مسلمان بھی کانگریس کا حصہ تھے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی گئی اور اخرکار قائداعظم کانگریس سے مایوس ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے مگر یہاں پر بھی مسلم لیگ کی لیڈروں کے رویے سے مایوس ہو کر انگلینڈ چلے گئے۔
اس دوران مفکر قرآن علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے 1937 کے اجلاس میں تاریخی خطبہ دیا جس میں پاکستان کے قیام کی وجہ، بنیاد اور دین اسلام کے احیاء سے اس کے تعلق کو مکمل طور پر اجاگر کیا گیا یہ پیغام تاریخ کا رخ بدلنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اخرکار مارچ 1940 میں پاکستان کے قیام کے تصور کو عملی شکل میں قرارداد پاکستان کی صورت میں منظور کیا گیا۔
اس کے بعد قائداعظم نے اس نئی مملکت کے قیام کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور ایک تحریک کی صورت میں دین اسلام کے نفاذ کے لئے پاکستان کے قیام کے تصور کو ہر مقام پر نمایاں کیا۔ بلکہ بقول ڈاکٹر اسرار احمد رحمتہ اللہ علیہ کے یہ کہنا ہے جا نہ ہو گا کہ قائداعظم نے دین اسلام کی قوالی کی۔ قائداعظم کی اس تحریک کا نتیجہ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں میں مکمل کامیابی کی صورت میں نظر آیا جس کی وجہ سے برطانوی راج کے پاس مجبوراً پاکستان کے قیام کے مطالبے کو منظور کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔
اللہ نے اس کام کو سرانجام دینے کے لیے قائداعظم کو منتخب کیا جنہوں نے قرآن کے عظیم مفکر علامہ محمد اقبال کے نظریہ اور فلسفہ کو اپنا کر کامیابی حاصل کی۔
اس جدوجہد میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں، عزت اور مال
کی قربانی دی تھیں اور اس کو ہجرت مدینہ الثانی کا نام دیا گیا ہے مسلمانوں نے بنگال اور پنجاب سے مکمل طور پر ہجرت کی اور سندھ کی اسمبلی نے سب سے پہلے پاکستان کے قیام کی قرارداد منظور کی۔ صوبہ سرحد کی اکثریت نے ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا اور خان آف قلات نے بلوچستان خو پاکستان میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔ان تمام واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کا واحد مقصد نئی مملکت میں دین اسلام کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کا تھا۔ وگرنہ اس میں شامل اکائیوں میں کوئی چیز بھی مشترک نہیں تھی بلکہ ان تمام بنیادوں جو کہ ایک قوم کے تصور کو اجاگر کرتی ہیں ان میں ان کے درمیان مکمل طور پر تضادات تھے یعنی زبان، کلچر، ثقافت، تہذیب وتمدن ان کے درمیان اجنبیت تھی صرف اور صرف واحد مشرک رشتہ دین اسلام پر ان کو غیر متزلزل ایمان تھا اور یہ اس بات کی ضمانت دیتا تھا کہ یہ نہئ مملکت امت مسلمہ کے تصور کو نہ صرف نافذ کرنے کے لیے ہے بلکہ یہ دنیا بھر میں دین اسلام کے احیاء کا مرکزی کردار ادا کرے گی۔
ہماری نسل علامہ محمد اسد کے نام سے بھی واقف نہیں ہے ، جنہوں نے 14 اگست 1947 کو ہی بانی قوم کے ذریعہ پاکستانی شہریت حاصل کی۔ انہیں قائد نے پاکستان کا سیاسی ، معاشرتی ، معاشی اور تعلیمی نظام اسلام کے احکامات کی روشنی میں تیار کرنے کا سونپا تھا۔
اور انہیں قائداعظم کے قائم کردہ واحد شعبہ اسلامی تعمیر نو ک جو قائد ا کا ڈائریکٹر بنایا گیا۔
انہوں وہ یہودی تھے اور
نے اسلام قبول کیا تھا۔ ہندوستان
کے دورے کے دوران انہوں نے مفکر قرآن علامہ اقبال سے دوستی کی اور انہوں نے ان کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ نہی قائم ہونے والی اسلامی مملکت پاکستان کے لیے اپنی خدمات وقف کر دیں اور اس نئی اسلامی ریاست کے فکری احاطے کی وضاحت کے لیے کام کریں
انہوں نے اپنی ابتدائی سفارش میں نیا نصاب تیار ہونے تک تمام پرائمری اسکولوں کو بند رکھنے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمارے لئے بہتر ہے
کہ اس وقت کی تعلیم کو جاری رکھنے کے بجائے بچے کھیل کود میں مصروف رہیں تاوقتیکہ نیا تعلیمی نصاب جو دین اسلام کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو اس کو تیار کرکے بچوں کو اس سے منور کیا جائے۔
اس نے اپنا کام عقیدت کے ساتھ کیا اور بہت سارے مواد منظوری اور عمل درآمد کے لئے تیار تھے۔ ریڈیو پاکستان میں ان کی روزانہ تقریر اب بھی آرکائیوز میں دستیاب ہے۔ لیکن یہ سب سے زیادہ بدقسمتی کی بات تھی کہ قائداعظم پاکستان کے ابتدائی دن روانہ ہوگئے
اور ان کی تجاویز پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔
یہ حقیقت ہے کہ سول / ملٹری بیوروکریسی کے ممبروں کی بڑی تعداد اپنے برطانوی آقا کے ساتھ وفادار تھی اور انہوں نے پہلے ہی دن سے راہ راست پر چلنے کے لئے تمام رکاوٹیں پیدا کیں۔ اس سلسلے میں ، انہوں نے محکمہ اسلامی تعمیر نو کو برطرف کرنے میں کامیابی حاصل کی اور محمد اسد کے قیمتی سامان اور کاموں کو تباہ کردیا۔ اس صورتحال کی وجہ سے وہ سعودی عرب چلے گئے اور بہت قیمتی کتابیں لکھیں
"مکہ کی راہ" اور "قرآن کا پیغام"۔
اب قائد اعظم کی ستمبر 1947 کی تقریر کا جائزہ لیں یہ تقریر مکمل طور پر دین اسلام کے اساسی قوانین کے مطابق کی گئی تھی اور اس میں تمام مذہبی اکائیوں کے حقوق کی مکمل ضمانت دی گئی تھی جو کہ ہمارے دین اسلام کے عین مطابق ہے اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں مذہب اور دین میں فرق کو سمجھنا ہوگا کیونکہ اکثر مسلمانوں کو ان میں فرق کا علم نہیں ہے جس کی وجہ اسلام سے دوری اور اس کو سمجھنے کے کی کوشش نہ کرنا ہے اور اسطرح سے سنی سنائی باتوں پر بغیر علم و تصدیق کے یقین کرنا ہے۔
دین کا مطلب مکمل نظام زندگی ہے جس میں سیاسی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی قوانین کے مجموعہ ہے اسلئے دین اسلام شریعت کے تمام معاملات، احکامات اور قوانین کے نفاذ کا نام ہے۔ مذہب صرف عباداتی طریقوں اور ذاتی معاملات تک محدود ہیں۔
اسلام نے تمام مذہبی اکائیوں کو ان کے مذہبی عقائد کی ادائیگی میں آزادی دی ہے بلکہ ان کو اس میں تحفظ فراہم کرنے کا اہتمام کیا ہے صرف یہ ہی نہیں جتنی مذہبی آزادی دین اسلام نے تمام مذہبی اکائیوں کو دی ہے آج کی نام نہاد بڑی سے بڑی سیکولر ریاستیں بھی دینے کا تصور نہیں کر سکتی۔ دین اسلام تمام مذہبی اکائیوں کو ان کے عبادات اور پرسنل معاملات یعنی وراثت وغیرہ میں ان کے مذہبی عقائد کے مطابق ادائیگی کی مکمل ضمانت دیتا ہے جس کا تصور آج دنیا کے کسی بھی نام نہاد سیکولر ریاست میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
اس کے علاوہ تمام مذہبی اکائیوں کو اسلامی ریاست میں جہاد سے استثناء حاصل ہے اور اس کے بدلے میں معمولی جزیہ لاگو ہوتا ہے جو ان کی اپنی حفاظت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے
اسلئے دین اسلام میں آزادی اور حقوق انسانی کی حفاظت کے تصور کو کسی بھی نظام زندگی سے کوئی بھی زی شعور انسان مقابلہ کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اسلئے آج ہمیں قائداعظم کے یوم وفات پر دوبارہ سے پاکستان میں دین اسلام کے نفاذ کیلئے اپنے وعدوں کے احیاء کا اعادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ ہم سب کو دین اسلام کی طرف لوٹنے اور اپنے مقصد تخلیق کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

0 Comments