Header Ads Widget

اے پی سی ' گرفتاریاں' مفاہمت اور جارحیت

اے پی سی ' گرفتاریاں' مفاہمت اور جارحیت
اشراق احمد ہاشمی

گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے
موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانی

کہا جاتا ہے کہ سیاست میں ہر سیاستدان اپنے مفاد کو مقدم رکھتا ہے۔ الیکشن میں سیاستدان اپنے مفاد اور مطلب کیلئے دن رات عوام سے اپنے رابطے بڑھا دیتے ہیں۔ ہر سیاستدان اور سیاسی جماعت ایک دوسرے سے بڑھ کر خود کو ملک و قوم کا ہمدرد ثابت کرنے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی لیکن جب الیکشن گزر جاتے ہیں تو یہی مطلبی سیاستدان اپنے اپنے حلقہ انتخابات سے یوں غائب ہوتے ہیں جیسے دوبارہ انہوں نے کبھی عوام کی عدالت میں پیش ہونا ہی نہیں۔ آج جبکہ ہر سیاستدان کو خود عوام کا تابع، خادم، فرمانبردار، ملازم اور نہ جانے کیا کیا ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان ہی سیاستدانوں نے کل اپنے حلقہ کے ووٹرز کو پہچاننے سے بھی انکار کر دینا ہے۔اس تاثر زائل کرنے کے لیے میاں محمد نوازشریف نے 2013ء کے الیکشن کے اعلیٰ نتائج کے بعد اپنی پارلیمانی پارٹی کی پہلی میٹنگ میں یہی الفاظ دہرائے تھے کہ اگر ہم نے کام نہ کیا تو ہمارے حال بھی پیپلز پارٹی کی طرح ووٹوں کی شکل میں ہوگا اور میاں نوازشریف نے شہباز شریف کے بہترین ساتھ میں تبدیلی کے اہم گراؤنڈ یعنی پنجاب میں یہ کرکے بھی دکھایا۔ اور مخالفین کو ان کے ہرانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈوں کا سہارا لینا پڑا اور پانامہ میں آنے والے 390پاکستانی ناموں میں سے صرف میاں نوازشریف کے بیٹوں کے نام پر مقدمہ سپریم کورٹ میں بلوا کر چلاکر ''اقامہ '' کی کی صورت میں ختم کیا۔
پاکستانی عوام کا مزاج بن چکا ہے کہ یہ جارحانہ سیاست پسند کرتے ہیں۔ مشرف کے دور کے دوران معروف دانشور وکالم نگا ہارون رشید فرمایا کرتے تھے کہ پارٹی وہ ہے جو اصولوں پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ بھی ہوجائے۔ جھرلو ٹھپے والی پارٹیاں ''ق'' لیگ بنا جاتی ہیں اور ''ق'' لیگ کوئی پارٹی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک مہرہ ہے جو ہردور میں سوراخ بھرنے کے کام آتا ہے۔ چنانچہ طویل شور شرابے،قیامت خیز ہنگامہ آرائی،اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی مسلسل لیت ولعل کے بعد گزشتہ دنوں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کسی ٹھوس مشترکہ اور متفقہ حکمت عملی،واضح اعلان،اور لائحہ عمل دئیے بغیر اختتام پزیر ہو گئی۔مگر اب ملک کے واحد کرپٹ سیاستدان میاں شہباز شریف کی گرفتاری اور پھرمولانا فضل الرحمان کے دست راست اورن کے پی ایس کے والد موسیٰ خان کی گرفتاری اس تحریک کو مزید مہمیز دے گی۔ لیڈر شپ کی کمی کیوجہ سے متضادالخیال اور منتشر النظریات پارٹیوں کے اس اجتماع سے سے ایسے ہی نتائج کی توقع کی جا رہی تھی،کانفرنس کی اہم بات نواز شریف کا چپ کا طویل روزہ توڑنا تھا،اپنے خطاب میں جو لب کشائی انہوں نے کی وہ بھی غیر متوقع نہیں تھی،انہوں نے طویل عرصہ بعد اپنی خاموشی توڑی بھی تو کوئی ایسی بات نہ کہی جو قوم کے زخموں کیلئے مرہم یا مصائب و مشکلات کا علاج ہو اور پاک فوج کے سیاسی ونگ پر نام لئے بغیر تنقید کی جو حسب توقع تھی،لیکن اپنے اس خطاب کے ذریعے انہوں نے بھائی شہباز شریف کی مصالحت کیلئے دو سالہ کوششوں کو ایک ہی خطاب سے سبو تاژ کر دیا۔یہ بات بھی کھل گئی کہ سیاست اور سیاسی طرز عمل کے حوالے سے اختلافات تاحال موجود ہیں،جن کا اظہار مریم نواز نے کھل کر کیا بھی ہے۔ اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے اور دونوں بھائیوں کی سیاسی چال بھی ہوسکتی ہے۔ کیوںکہ جب دو میں سے ایک دروازہ مذاکرات کیلئے کھلا ہوا ہوتو خیر کی توقع ہر وقت رہتی ہے اور شاید میاں برادران کی یہی ایک سیاسی حکمت عملی ہے جس بہت جگہوں پر ان کو کام بھی آئی ہے۔ بین السطور میں جیسے میں نے لکھا کہ پاکستان کے عوام اور خاص کر اب مہنگائی اور ''تبدیلی'' کے مارے عوام جارحانہ سیاست کے حق میں ہیں چنانچہ مریم نواز جب بلاول کے ساتھ ہال میں داخل ہوئیں توان کی آمد دیدنی تھی اور اس کو پذیرائی بھی زیادہ مل رہی تھی۔ شہباز شریف کی گرفتاری پر مجبوراً اور ضرورت کے طور پر بھی مستقبل قریب میں نواز شریف مریم کو لڑنے کیلئے پارٹی کی سربراہی سونپ سکتے ہیں۔ جس سے پارٹی میں بہت جان پڑ جانے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ کیونکہ اس میں لانگ مارچ بھی شامل ہے اور جنوری تک لانگ مارچ خارج ازامکان نہیںہے۔چنانچہ خان صاحب اینڈ کو کی بے سروپاحکومت پکا ر پکار کر دعوت بھی دے رہی ہے اور اپنی حقیقت یوں بیان کررہی ہے:۔
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
اس کے باوجود کہ قوانین پارلیمان سے پاس کئے جا رہے ہیں مگر یہ سوال اس کے باوجود اہم ہیں کہ کیا پاکستان میں پارلیمان اپنی وقعت کھو چکی ہے؟ کیا پارلیمان محض ایک ربڑ سٹمپ بن چکی ہے؟ پارلیمان کے بے وقعت پن میں بڑا حصہ صرف وزیر اعظم عمران خان نے نہیں بلکہ ہر سابقہ وزیر اعظم نے کیا ہے۔ اس مرتبہ تو انتہا ہوگئی کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی اس لئے کم کم ہی پارلیمنٹ میں آتے ہیں کہ 2018کے انتخابات کے نتیجے میں وہ وزیر اعظم نہیں بن سکے تھے۔ اس سے بھی بڑا مذاق یہ ہوتا ہے کہ ووٹنگ کے وقت عددی اکثریت رکھنے والی اپوزیشن اور عددی اقلیت کی حامل حکومت اکثریت میں تبدیل ہو جاتی ہے، اس کے باوجود اپوزیشن کو اصرار ہے کہ وہ جینوئن اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے اور حکومت کو اصرار ہے کہ وہ جمہوری اقدار کے عین مطابق پارلیمان کو چلا رہی ہے۔ چنانچہ یہ سوال برسوں جواب طلبی میںرہے گا کہ پنجاب کے 38حلقے ایسے تھے جن میں جیت کا مارجن مسترد شدہ ووٹو ں سے تین گنا کم تھا۔ یعنی اگر پورے ملک کا حساب بھی کیا جائے تو سامنے نظر آتا ہے کہ اگر کل 16لاکھ 80ہزار ووٹ مسترد کیے گئے تو ان میں سے صرف نواز لیگ کے 13لاکھ 90ہزار ووٹ ہی کیوں مسترد کیے گئے۔ کیا صرف نوازلیگ کا ووٹر ہی ووٹ غلط ڈالتا ہے۔چنانچہ ''پولیٹیکل انجینئر نگ'' یعنی منافقت ' کفر اور قودمی بددیانتی کا یہ بہترین طریقہ ووٹوںکو مسترد کرنے کا ایجاد کیا گیا جس سے بے برکتی کا ایک لہر دوڑ پڑی اور پورے ملک کو Destablize کرگئی اور یوں خان صاحب کنفیوژن کی وجہ سے کوئی ایک کام بھی صحیح طور پرکرنے سے قاصر رہے ہیں اور نوازشریف کی جارحانہ گفتگو سے ان کے چہرے کا رنگ صاف طور فک دکھائی دینے لگتا ہے جیسے کو مجرم اپنے جرم کاحساب دینے پر پریشان ہونے لگتا ہے۔بشیر بدر نے کیا خوب کہا تھا۔

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

اب گزارش یہ ہیکہ اپوزیشن کے قریب رہنے والے بہت سے صحافیوں اور اینکرز نے تو یہاں تک سوال اٹھائے۔''سوال یہ ہے کہ کیا نون لیگ محمد زبیر کو شو کاز نوٹس جاری کرے گی کہ انہوں نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی اور اپنے دیرینہ دوست سے ملاقات سے قبل پارٹی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیااور پارٹی قیادت کی مرضی و منشا کے بغیر ان کے قانونی اور سیاسی معاملات پر گفتگو کی۔ اگر محمد زبیر کو پارٹی کوئی شو کارز نوٹس نہیں جاری کرتی تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ لیا جائے گا کہ وہ پارٹی قیادت کی رضامندی سے ملنے گئے ہوں گے۔طرفہ مذاق یہ ہے کہ محمد زبیر کی گوشمالی تو کیا ہوگی، شہباز شریف کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا تھا اور اب وہ تو وہ گرفتار اور لاک اپ میں بھی ہیں ، یہ بھی کہا گیا کہ وہ پارٹی کے اندر تو غیر مقبول تھے ہی، پارٹی سے باہر بھی ان کی گرفتاری کا سامان کیا جا رہا ہے، شائد فوری طور پر بچت اس لئے ہوگئی کہ چاہنے والے نہیں چاہتے ہوں گے کہ اس سے وہ یا نواز شریف مظلوم نظر آئیں اور عوام میں ان کے لئے ہمدردی کا کوئی جذبہ بیدار ہو جائے۔ بھلے نون لیگ میں اس وقت یونٹی آف کمانڈ نظر آرہی ہے ۔ اس کے بعد یہ بھی کہا گیا ''تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نواز شریف کی تقریر پر عدالتی پابندی اور نون لیگ کو کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل کردیا جائے۔'' واہ ماشااللہ۔ یہی نہیں بلکہ ان کے خلاف بھی پارٹی کے اندر بھی ویسی ہی لاتعلقی کی لہر پیدا ہو سکتی ہے جیسی متحدہ پیدا ہو گئی تھی۔شطرنج کے کھیل کی زبان میں انہیں جلد یا بدیر چیک میٹ ہو سکتا ہے، ان کے پاس واپسی کے راستے محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ انہیں مولانا فضل الرحمن کی سپورٹ کی اشد ضرورت ہوگی۔ یہی نہیں ان کے غیر ملکی دوستوں کو بھی اپنا کردار ادا کرناہوگا، اور ہاتھیوں کی لڑائی کو منعقد ہونے سے قبل ہی ملتوی کرنا پڑے گا۔'' یہ سب باتیں اس غلامانہ سوچ کا نتیجہ ہیں جو اس ملک میں سیاستدانوں سے شروع ہوکر میڈیا 'بیوکریسی اور عدلیہ تک پھیل چکی ہے۔ اپوزیشن نے دو سال تک بہت مفاہمت کرلی اب بمعہ شہبازشریف کے ان کی حالت یہ ہے:۔

محمد زبیر عمر کے بھتیجے کی شادی میں آنے والے مہمانوں میں سے ایک آرمی چیف بھی تھے ۔ ان سے ملاقات کوئی خصوصی ایرینجمنٹ بھی نہ تھی مگر ٹی وی اور پرنٹ میڈیا پر بہت سے اپوزیشن مخالف سپوکس من کے جملے سننے کو ملے مثلاً ''جس طرح سابق گورنر کراچی محمد زبیر کی آرمی چیف سے ملاقات کا پول کھلا ہے اور انہوں نے اس ملاقات کو ان سے اپنی بپچنے کی رفاقت سے تعبیر کیاہے اس کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے کیونکہ نواز شریف کی تقریر کا جواب تو بہرحال بنتا تھا، خواہ اس کے لئے برسوں کے یارانے کو ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑتا۔ لیکن نواز شریف کی تقریر کا جواب تو شیخ رشید صاحب نے یہ راز کھول کر دے دیا تھا کہ اپوزیشن کی پوری قیادت 20ستمبر کو اے پی سی میں شرکت سے قبل 16ستمبر کو عسکری قیادت سے گلگت بلتستان کے موضوع پر ملاقات کرچکی تھی۔ محمد زبیر کی ملاقات کاپول تو شائد مریم نواز کے اس دعوے کے جواب میں کھولا گیا تھا کہ نواز شریف کا کوئی بھی نمائندہ ملاقات کے لئے نہیں گیا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا ہے، یہ الگ بات کہ بعض اوقات کوئی چال ہاری ہوئی جنگ کی آخری بازی کے طور پر چلی جاتی ہے۔''نظیر اکبر آبادی کے مطابق:۔

تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا

پھر اسی تسلسل کے بعد یہ بھی سننے کو آیا کہ ''میاں محمد نواز شریف کو دوسری مرتبہ REJECTEDکے تاثر کا سامنا کرنا پڑا ہے، پہلے ڈان لیکس کے معاملے میں کرنا پڑا تھا اور اب اے پی سی میں اپنائے گئے موقف پر کرنا پڑا ہے۔ تاہم قابل غور بات یہ ہے کہ نہ تو نواز شریف اپنے موقف سے ٹس سے مس ہوئے ہیں اور نہ ہی انہیں رد کرنے والے!....اس دھینگا مشتی میں عوام محض تماشائی بنے ہوئے ہیں، وہ اس کے ساتھ ہیں نہ اس کے ساتھ کیونکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ پاکستان میں ہر سیاستدان نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے پارلیمان کو جوتے کی نوک پر رکھا ہے اور جب اپنا مطلب نکل جاتا ہے تو سارا قصور ان کا نکال دیا جاتا ہے جو کسی پبلک فورم پر آکر حقیقت حال سے آگاہ نہیں کر سکتے ہیں۔ '' حالانکہ ان لوگوں کو کون بتائے کہ جس پر بیتی ہے وہی جانے ہے کہ کہاں کیا ہوا ہے۔ کون آپ کو روکتا ہے اور مسئلہ کہاں بنتا ہے۔ نوازشریف کا درد صرف نوازشریف جیسی زخم والا ہی سمجھ سکتا ہے کہ'' موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ بھی نہیں''کی مصداق بات ہے۔

اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
یقیں نہ آئے تو اک بات پوچھ کر دیکھو
جو ہنس رہا ہے وہ زخموں سے چور نکلے گا
اس آستین سے اشکوں کو پوچھنے والے

اس میں شک نہیں کہ پارلیمان کو قومی سلامتی کے اداروں کی معاونت ازحد ضروری ہوتی ہے لیکن اس تاثر کی نفی ہونی چاہئے کہ سیاسی قیادت کو جی ایچ کیو میں فیصلوں سے آگاہ کیا جاتا ہے اور سیاسی قیادت پارلیمان جا کر ووٹ ڈلوادیتی ہے اور جواب میں نیب سے ریلیف کی متمنی ہوتی ہے۔اتنی بھی کیا کمزوری ہے ان سیاستدانوں کی کہ یہ جی ایچ کیو کو اپنا سیاسی کعبہ مانتے ہیں اور پارلیمنٹ میں ایک پٹحو کی حیثیت رکھنے والے ہر دیگ کے چمچ شیخ رشید تو یہاں تک کہتے ہیں کہ آرمی چیف سے ملنا میرے لیے اعزاز ہے ۔ اور اداروں کے ڈی جی سے ملنا میرا خواب۔ یہ ہے حالت ان کی جو ادارے بھی بخوبی جانتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان ڈمی لوگوںکا ساتھ کب تک دیتے ہیں۔چنانچہ چشم زدن میں سیانے کہتے ہیں کہ حالات یہی رہے تو ''ق'' لیگ دوم بہت جلد بے نقاب ہوکر دھڑم سے گرے گی:۔
اس آستین سے خنجر ضرور نکلے گا
آپ ہی اپنے ذرا جورو ستم کو دیکھیں

Post a Comment

0 Comments