کیا گندم پر سیاست ہورہی ہے؟
اشراق احمد ہاشمی
ہربار وہ انجان ہوجاتے ہیں
اپنے دشمن وہ خودہی نظرآتےہیں
اتنا بھی کیا بے حس ہوناصنم
اپنے ہی من کو چھپاتے ہیں
مس منیجمنٹ اور غیر ذمہ داری نہیں تو اور کیا ہے؟ کہ اپنے ہی ملک میں پیداہونے والی گندم عوام کو میسر ہی نہیں بلکہ مہنگے داموں بھی میسر نہیں ہے۔اور اوپر سے مقامی کسانوں سے 1600روپے کے حساب سے گندم خریدنے کی بجائے روس سے2400روپے من گندم امپورڈ کرنے کی وجوہات کیاہیں عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔
گزشتہ سال پیدا ہونے والے گندم کے شدید بحران کے بعد مختلف حلقے امید ظاہر کررہے تھے کہ اِس بار انتظامی سطح پر ضروری پیشگی اقدامات کے ذریعے بحران سے بچنے کی تدبیرکی جائے گی۔ اگرچہ اِس باب میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں تین لاکھ چالیس ہزار ٹن گندم درآمد کرنے کے فیصلے کے ساتھ ساتھ گندم کی کم سے کم امدادی قیمت بھی مقرر کی گئی۔ جبکہ وزیراعظم کی جانب سے بھی ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بارہا کارروائی کا عندیہ دیا جاتا ہے لیکن دیگر اشیائے ضروریہ کے ساتھ آٹے کی بھی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت اور اب سندھ اور پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت الگ الگ مختص کئے جانے سے جہاں ایک بار پھر اس معاملے پر سیاست کی جارہی ہے وہیں اس سے آٹے کی قیمت میں مزید اضافے کا بھی امکان ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ تین برسوں میں آٹے کی قیمتیں پچاس فیصد بڑھ چکی ہیں۔ سندھ نے 2ہزار روپے فی چالیس کلو گرام جبکہ پنجاب نے 16سو روپے گندم کی امدادی قیمت دینے کا فیصلہ کیا۔ امدادی قیمت سے مراد یہ ہے کہ کسان کو ہر صورت میں امدادی قیمت سے کم اسکی پیداوار کی قیمت نہیں ملے گی بلکہ اگر کاشتکار کی فصل زیادہ ہوئی اور فلور ملز مالکان نے اسکی خریداری نہ کی تو پھر محکمہ خوراک اور پاسکو امدادی قیمت ادا کرکے کسان سے ساری گندم خرید لیں گے۔ اس حوالے سیوزیراعلی سندھ کا یہ کہنا بجا ہے کہ ہم درآمد شدہ گندم پر غیرملکی زرِ مبادلہ خرچ کرتے ہیں جبکہ درآمد شدہ گندم کا معیار ملکی گندم کے معیار سے کم ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے مڈل مین کی موجودگی، فلور مالکان کی اجارہ داری اور دیگر عوامل کے سبب سپورٹ پرائس بڑھنے سے بازار میں آٹے کی قیمت پر بھی اثرات پڑتیہیں۔ضروری ہے کہ ملک بھر میں یکساں امدادی قیمت مقرر کرتے ہوئے قیمتوں پر کنٹرول کیلئے بھی کوئی حکمت عملی بنائی جائے۔
جب اپنے ساتھی ہی سچ بولنا شروع ہوجائیں تو سمجھ لو بات خطرے سے خالی نہیں ہے چنانچہ چوہدری پرویز الٰہی نے درست کہا ہیکہ عمران حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت میں دو سو روپے فی من کا اضافہ مذاق ہی محسوس ہورہا ہے۔ذاتی طورپر اگرچہ میں اسے مذاق کے بجائے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تصور کروں گا۔ مذکورہ قیمت کو طے کرنے سے قبل حکومت ہرگز یہ کوشش کرتی نظر نہیں آئی جس کی بدولت اِن دِنوں بازار میں گندم کی فی من قیمت کا پتہ لگایا جاتا۔اس قیمت کاجائزہ لیتے ہوئے یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا ضروری تھا کہ گندم کی فصل کٹے ابھی چھ ماہ ہی گزرے ہیں۔آنے والے دنوں میں آٹے کی قیمت میں مزید اضافہ ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔گندم کی بوائی کے سیزن سے چند ہی دن قبل حکومت نے معقول قیمت کے اعلان سے کسان کو زیادہ گندم اگانے کی ترغیب نہ دی تو آئندہ برس آٹے کا بحران ناقابلِ برداشت حد تک گھمبیر تر ہوجائے گا۔
گزشتہ برس کے بحران سے گھبراکر حکومت نے رواں برس فصل کٹنے کے موسم میں ریاستی قوت کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ پنجاب کے کئی قصبوں میں علاقے کے شرفا اور بااثر شمار ہوتے ڈیرے داروں کے گھروں پر چھاپے پڑے۔کئی صورتوں میں انہیں ذاتی استعمال کے نام پر گندم کو بھڑولوں میں ذخیرہ کرنے کی روایتی سہولت سے بھی محروم کردیا گیا۔جن علاقوں میں ریاستی دبدبے کے بے دریغ استعمال سے گندم خریدی گئی وہاں سے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی اپنے حامیوں سے منہ چھپاتے رہے۔کئی ایک نے اکتاکر قومی اسمبلی میں اس کی بابت دہائی بھی مچائی۔
شہروں میں مقیم مجھ ایسے کالم نگار گندم کی خریداری کی ضمن میں اختیار کردہ زورزبردستی والا رویہ یقینا نظرانداز کردیتے اگر ہمیں ان دنوں آٹا مناسب داموں مل رہا ہوتا۔ بازار میں گندم مگر ان دنوں ان داموں سے تقریبا دوگنی قیمت پر میسر ہے جو حکومت نے کسان کو اس کی خریداری کے لئے ادا کئے تھے۔گندم فروخت کرنے والے اجارہ دار ہی موجودہ قیمت کی بدولت بے پناہ منافع کمارہے ہیں۔کاشت کار کو کئی صورتوں میں اتنی رقم بھی نہیں ملی جو اس سال گندم اگانے میں خرچ ہوئی تھی۔
آج کے Digitalدور میں یہ طے کرنے کے لئے کسی آئن سٹائن کی ضرورت نہیں کہ کاشت کار کو ایک من گندم اگانے کے لئے کتنی رقم خرچ کرنا ہوتی ہے۔یہ رقم طے کرنے کے بعد اس میں مناسب منافع کو یقینی بنانے والی امدادی قیمت کے اعلان کی ضرورت تھی۔ سنجیدگی سے اس ضمن میں لیکن کام ہی نہیں ہوا۔اپنے تئیں فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میں فقط دو سو روپے فی من اضافے کا اعلان کردیا گیا۔
ہماری حکومت بہت باخبر ہونے کی دعویدار ہے۔ وزیر اعظم کوبروقت ا گاہ رکھا جارہا ہے کہ لندن میں مقیم نواز شریف مبینہ طورپر اسرائیل اور بھارت کے کس نمائندے سے گفتگو کے بعد PDMکے جلسوں سے غداری والے خطاب فرمارہے ہیں۔ایسی باخبر حکومت کو ہر صورت علم ہونا چاہیے تھا کہ وسطی پنجاب کے اوکاڑہ اور پاک پتن جیسے علاقوں میں بھی گندم کی بوائی سے قبل آڑھتیوں کے نمائندے کاشت کاروں کو پیشگی کی صورت کتنی رقم ادا کررہے ہیں۔حکومت کی جانب سے امدادی قیمت کا تعین اس کے تناسب سے ہونا چاہیے تھا۔ یہ حقیقت دریافت کرنے کے لئے بھی کسی جیمزبانڈ کی ضرورت نہیں کہ پنجاب میں اگائی گندم فقط پاکستان کے شہریوں کے استعمال کے لئے ہی نہیں بوئی جاتی۔خیبرپختونخواہ کے وسیع تر علاقوں کے علاوہ افغانستان بھی ہماری گندم اور آٹے کا خریدار ہے۔منڈی کا بھرپور تجزیہ درکار تھا۔ انگریزی کا ایک محاورہ اصرار کرتا ہے کہ آپ منڈی سے جیت نہیں سکتے۔ ریاستی جبر کا بے دریغ استعمال بھی طلب ورسد پر منحصر Dynamicsکا توڑ فراہم نہیں کرتا۔
وقت گزرنے کے بعد کوئی بھی فیصلہ کیا جائے تو یہ نالائقی کہلاتا ہے۔ دوسروں کو سیاست کو موقع ہی کیوں دیا جائے؟؟؟

0 Comments