Header Ads Widget

پاکستان کا معاشی بحران اور اس کا حل

جولائی 3 

  تحریر: ممتاز ہاشمی کینیڈا

 


 

پاکستان اپنے قیام کے کچھ عرصے بعد سے ان قوتوں کے زیر اثر رہا ہے جن کا پاکستان کو قائم کرنے کی جدوجہد میں کوئی کردار نہیں تھا اور اس کے برعکس وہ برطانوی سامراج کی نوکری کر رہے تھے اور اس غلامانہ نظام سے ان کے مفادات وابستہ تھے ان میں سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹز،  جاگیردار،  سرمایہ دار اور تجارتی طبقات شامل تھے۔

لیکن جب اللہ  سبحان و تعالٰی کی رحمت اور عوام کی جدوجہد سے پاکستان کے قیام کا معجزہ رونما ہوا تو ان طبقات نے پاکستان کا رخ کیا۔ جا کی بنیادی وجہ ان کے مفادات کو بھارت میں خطرات لاحق تھے کیونکہ بھارت کی سیاسی جماعت کانگریس انتہائی منظم تھی اور اس خطے میں کثیر الاقوامی کی موجودگی میں کسی کو بھی غیر آئینی اقدامات کرنے کی جرات نہیں ہو سکتی تھی ۔

پاکستان میں کیونکہ مسلم لیگ نوزائیدہ جماعت تھی اور اس میں ان استحصالی طبقات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں تھی اسلئے ان طبقات نے پاکستان کو ترجیح دی تاکہ یہاں پر اپنی حکمرانی قائم کرنے اور اپنے مالی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

پاکستان کی تمام تاریخ اس بات کی صداقت کی گواہی دے رہی ہے کہ ان استحصالی قوتوں نے آجتک ملک کو بحران میں مبتلا رکھا اور اسطرح سے اپنے مفادات کا تحفظ حاصل کرتے رہے۔

پاکستان ہمیشہ سے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے جس کی بنیادی وجہ  غیر آئینی ملٹری ڈکٹیٹروں کا اقتدار پر قابض ہونا ہے۔

اس دوران پاکستان کی معاشی حالت خراب سے خراب ہوتی چلی جاتی رہی ہے جس سے عوام کی اکثریت کے مسائل میں شدید اضافہ ہوتا چلا گیا اور مہنگائی سے غریب عوام کے مسائل ہر آنے والے دور میں بڑھتے ہی  گئے ہیں۔ اس کے برعکس اشرافیہ ملک کے وسائل پر مکمل قابض ہوتی گئی اور ان کے شاہانہ طرز زندگی پاکستان کے عوام کی بدحالی کا واضح ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

اس واضح طبقاتی تفریق نے ملک میں انتشار اور افراتفری کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

یہ ان استحصالی طبقات کی کرپشن کا ہی نتیجہ ہے کہ ریاست کے وسائل محدود ہوتے گئے اور ضروریات کو پوری کرنے کے لیے قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

اس کرپٹ نظام کا اگر جائزہ لیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس کا تعلق سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر سے وابستہ ہیں جو اپنے غیر قانونی کاموں سے ریاست کے تمام وسائل کو ہڑپ کر رہے ہیں ان میں سرکاری اداروں میں ملازم کا حصہ اگرچہ اس کم ہے مگر ان کی معاونت کے بغیر کوئی بھی پرائیویٹ سیکٹر ان غیر قانونی کاموں سے فوائد حاصل نہیں کر سکتا۔

بدقسمتی سے ہر آنے والے ادوار میں یہ کرپشن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی اور عوام پر ان کے منفی اثرات میں اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔

کیونکہ ان استحصالی طبقات کے پاس یہ تمام دولت ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہے اسلئے اس پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا جاسکتا۔

نتیجتاً ملک میں غیر دستاویزی معیشت کا غلبہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اور یہ غیر قانونی دولت کا استعمال ملکی معیشت میں کوئی فعال کردار ادا نہیں رہا بلکہ یہ صرف غیر پیداواری ذرائع یعنی رہیل اسٹیٹ میں ہی لگایا جا رہا ہے جس نے ایک اور اہم مسئلہ رہائش کو مزید مشکل بنانے میں ایم کردار ادا کیا ہے اور عام آدمی اب اپنی ذاتی رہائش کے لیے مناسب وسائل نہیں رکھتا۔

اس دوران وقفے وقفے سے اس کالے دھن کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا اجراء کیا جاتا رہا اور حالیہ تاریخ میں بھی عمران خان کے دور حکومت میں دو بار ان اسکیموں کا اجراء کیا گیا تھا تاکہ ملکی دولت لوٹنے والے ان استحصالی طبقات غیر قانونی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب انتہائی کم تر ہے جو کہ  8.5 ہے جو اس علاقے کی  اوسط   19.8 کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہے۔ اسلئے ملکی نظام چلانے کے لیے قرضوں کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

ان حالات میں ہر دور میں قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا۔ اب اگر ان قرضوں کی تفصیلات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ان قرضوں میں  آدھا سے زائد اندرونی قرضے ہیں جو حکومت نے نجی شعبے کے بینکوں سے حاصل کئے ہیں اور باقی غیر ملکی قرضے جو مختلف ممالک،  آئی ایم ایف،  ورلڈ بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے لئے گئے ہیں۔

ہر سال ان قرضوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ان پر سود کی ادائیگی بھی بڑھتی جا رہی ہے اور اسوقت 9000 ارب روپے ان قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ ئو رہی ہے جو کہ ملک کی کل آمدن کے برابر ہے اور اس کے بعد تمام تر روزمرہ کے معمولات اور معاملات چلانے کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس میں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ غیر ملکی قرضوں پر سود کی شرح انتہائی معمولی ہے جبکہ پاکستانی بینکوں سے لیے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی 22 فیصد تک ہے جو کہ ان پرائیویٹ بینکوں کا خالص منافع ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس آمدن پر ٹیکس کی شرح 35 فیصد ہے جو حکومت نے 50 فیصد کرنے کی کوشش کی مگر ان بینکوں نے عدالت سے اس کو رکوا دیا ہے۔

اسطرح سے 9000 ارب میں سے زیادہ تر حصہ ان پرائیویٹ بینکوں کو سود کی مد میں جا رہا ہے۔ اس مسئلے کا کوئی مناسب حل نکالنا انتہائی اہم ہے کیونکہ اتنا سود ادا کرنے کے بعد حکومت کے پاس وسائل نہیں بچتے کہ وہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے سکے۔

اگرچہ یہ بینکر لابی ہر دور میں انتہائی مضبوط رہی ہے اور حکومت میں موجود عناصر کی ان کو ہمیشہ پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔ مگر اب صورتحال قابو سے باہر ہو رہی ہے اسلئے اس مسئلے پر انتہائی قدم کی ضرورت ہے۔ ان پرائیویٹ بینکوں کے تمام اثاثے پاکستانی عوام کی محنت سے بنائے گئے ہیں اور اس میں عوام کا جو حصہ بنتا ہے وہ ہمیشہ اس سے محروم رہے ہیں اسلئے عوامی مفاد میں کوئی بھی اقدام حتیٰ کہ ان پرائیویٹ بینکوں کو دوبارہ سے قومی ملکیت میں لینے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے تاکہ اس غیر منصفانہ سود سے نجات دلائی جائے سکے اور ان وسائل کو عوامی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کیا جا سکے۔

دوسرا اہم عنصر عوام کی اکثریت کا ٹیکس نہ ادا کرنا ہے جس سے ٹیکس کلیکشن انتہائی کم ترین سطح پر ہے۔

اس سلسلے میں مختلف اوقات میں حکمتوں نے تاجروں اور دیگر طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی گئی مگر ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اب اگرچہ حکومت نے کچھ ٹھوس اقدامات اس سلسلے میں شروع کئے ہیں مگر ان کی کامیابی کے لیے بہت سخت محنت کی ضرورت ئو گی۔

دنیا بھر میں کسی بھی شخص کو کوئی بھی سہولت حاصل کرنے کے لیے ٹیکس ریٹرن فائل کرنا لازم ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اس کو مختلف رعایتیں فراہم کی جاتی ہے حتیٰ کہ طلباء کے لیے تعلیمی قرضوں کے حصول کے لیے بھی ٹیکس ریٹرن فائل کرنا لازم ہوتا ہے۔

اسلئے اس سلسلے میں مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے جس سے ہر بالغ کے لیے ٹیکس ریٹرن فائل کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ اس کے لیے ہر شخص کو اس کا انفرادی قومی شناختی کارڈ کو ہی اس کا ٹیکس نمبر قرار دے دیا جائے اور ٹیکس ریٹرن کے لیے آن لائن آسان اور مختصر سا فارم متعارف کروایا جائے تاکہ عوام بآسانی اپنے ٹیکس ریٹرن فائل کر سکیں۔

اس سے اکثریت کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکے گا اور ٹیکس و جی ڈی پی کا تناسب بآسانی دوگنا اور اس سے بھی زیادہ کیا جا سکتا ہے۔

ایک اہم مسئلہ جو پاکستان کی معیشت کو درپیش ہے وہ وفاق اور صوبوں میں وسائل اور ذمہ داریوں کی تقسیم ہے۔

اگرچہ نیشنل فنانس ایوارڈ کو صوبائی خودمختاری سے منسلک کرتے ہوئے صوبوں کو ان کے مالیاتی حقوق دیئے گئے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان میں مناسب توازن برقرار رکھا جائے۔

اسوقت صوبوں کو مالیاتی حقوق مل گئے ہیں مگر تمام ذمہ داریاں وفاق پر ہیں اس لیے اس کا کوئی مناسب اور قابل عمل فارمولا نکالنا بہت ضروری ہے۔

اس سلسلے میں صرف بجلی اور گیس کی قیمتوں کے بحران کا ہی مسئلہ قابل ذکر ہے۔ وفاق پر بجلی اور گیس کے ہزاروں ارب روپے کے واجبات گردشی قرضہ کی شکل میں موجود ہیں جو ان اہم اداروں کی فراہم کردہ بجلی اور گیس کی چوری کا نتیجہ ہے۔

صرف بجلی کی ہر سال 500 ارب روپے چوری ہوتی ہے۔ جو اس کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ کا سبب بن جاتا ہے۔

بجلی کے نرخوں میں اضافے سے پورے ملک میں  مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اوراس مہنگائی کے طوفان  نے نہ صرف غریب آدمی  متاثر کیا ہے  بلکہ مڈل کلاس میں اس سے شدید متاثر ہو رہی ہے جبکہ  ایلیٹ کلاس اور صنعتی و تجارتی طبقات اس کو بنیاد بنا کر اپنے منافع میں اضافہ کرتے ہوئے نچلے طبقات کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں ۔

اگرچہ بجلی کے نجی شعبے میں سرمایہ کاری سے ملک میں بجلی کی کمی پر قابو پانے میں مدد ملی مگر

ان معاہدوں میں کیپسٹی پیمنٹ اور فیول چارجز کی ایڈجسٹمنٹ وغیرہ شامل تھے۔ ان بجلی کے پلانٹس اور دیگر پلانٹس سے بجلی کی تقسیم اور فراہمی کے لئے حکومت نے واپڈا کی بجائے مختلف ڈسٹریبیوشن کمپنیاں قائم کی جن کی بنیاد صوبائی اور شہری کی بنیاد پر کی گئی تھی اس کا مقصد واپڈا سے مرکزی ڈسٹریبیوشن کی مختلف کمپنیوں کے سپرد کر کے اس میں بہتری لانا تھی۔

مگر یہ نظام کارآمد ثابت نہیں ہوا اور بجلی کی چوری میں روز  بروز اضافہ ہوتا گیا اور اسطرح حکومت کا گردشی قرضہ بڑھنے لگا جس کو بجٹ سے پورا کرنا ناممکن ہے اسطرح سے بیرونی قرضوں میں ہر آنے والے دنوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے  جو آج 3 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے اور اب آئی ایم ایف اور دیگر ممالک اور ادارے قرضوں کی فراہمی میں اس بات کی ضمانت چاہتے ہیں کہ اس گردشی قرضوں کو ختم کیا جائے اور بجلی کی پیداواری لاگت کو پورا پورا وصول کیا جائے۔

  یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ بجلی کی چوری میں زیادہ تر بڑے تاجر،  صنعت کاروں اور اشرافیہ اور اپر مڈل کلاس کے طبقات ملوث ہیں جبکہ غریب عوام کا اس میں حصہ بہت کم ہے۔

 

پاکستان میں بجلی کے یکساں نرخوں کے نفاذ کی پالیسی سے بہت سے مسائل کھڑے کئے ہیں اور جو لوگ اس چوری میں ملوث نہیں ہیں ان کو اس بجلی چوری کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جو کہ عدل کے اصولوں کے قطعی خلاف ہے۔

 کیونکہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو مختلف صوبوں اور علاقوں کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے اسلئے بجلی کے یکساں نرخوں کا اطلاق غیر فطری ہے۔ بجلی چوری کو روکنے اور بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے سب سے اہم قدم ان تقسیم کار کمپنیوں کی مرکزی حیثیت کو ختم کر کے ان کو صوبوں کے تحت کر دینا چاہیے تاکہ  صوبائی حکومتوں کو اس چوری کو روکنے اور عوام کو مناسب نرخوں پر بجلی کی فراہمی کا ذمہ دار قرار دیا  جائے۔

اس سلسلے میں ان تقسیم کار کمپنیوں کے واجبات وفاق اس صوبے کے فنانس ایوارڈ سے منہا کرے اور صوبوں کو اپنے بجلی کے واجبات خود وصول کرنے کی ذمہ داری ڈالی جائے۔ موجود پالیسی جو لوڈ شیڈنگ کو علاقے میں بجلی کی چوری سے منسلک کیا گیا ہے بالکل ناانصافی پر مبنی ہے کیونکہ اس علاقے میں جو بجلی کی چوری میں ملوث نہیں ہیں وہ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں اسلئے اس کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے اور بجلی چوری کو روکنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر حل نکالنے کی ضرورت ہے۔

 صنعتی زونز میں مختلف مانیٹرنگ کا نظام نافذ کیا جائے جو ان کی پیداواری صلاحیت اور اس میں استعمال ہونے والی بجلی کی بنیاد پر ہو اور اسطرح سے صنعتی زونز میں بجلی کی چوری پر قابو پایا جا سکے۔ کمرشل اور تجارتی مراکز میں بجلی کی چوری کو روکنے کے لیے سب میٹرز کا نظام نافذ کیا جائے اور ان مارکیٹوں اور تجارتی مراکز کے ذمہ داروں پر بجلی کی سپلائی اور بلنگ میں ذمہ داری دی جائے تاکہ وہ ان کمرشل اور تجارتی مراکز میں بجلی کی چوری کو روکنے کا اہتمام کر سکیں۔

ایلیٹ اور اپر مڈل کلاس کے رہائشی علاقوں میں ہر انفرادی گھر میں نصب ایر کنڈیشنز کی بنیاد پر بلنگ کا ایک پیمانہ قائم کیا جائے۔

اگر ان تجاویز پر سنجیدگی سے عمل درآمد کیا جائے تو ملک میں بجلی کے نرخوں میں بہت زیادہ کمی واقع ہو سکتی ہے اور دوسری طرف حکومتی وسائل بھی اس چوری کو پورا کرنے میں صرف ہونے سے بچ جائیں گے جو دوسری ترقیاتی کاموں پر خرچ کئے جا سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ حکومت نے اپنے اخراجات کے لئے نئے بجٹ میں مزید ٹیکسز کا اضافہ کیا گیا ہے جو عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کا سبب بن جاے گا۔

دوسری جانب سیاسی جماعتیں بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور بجٹ میں مزید ٹیکس پر احتجاج  کا طریقہ کار اپنانے میں مصروف ہیں  جس سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائے گئے۔

 

ایک اہم بات جو بجلی کے بے تحاشا استعمال پر گرفت کرنے کا ہے اس سلسلے میں قدرتی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے واضح رہے کہ بجلی کی کسی بھی طرح سے پیداوار اور اس کا استعمال دونوں ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اس لئے اس کے لیے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے میڈیا کو استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

 بجلی کا بل بنیادی طور پر دو چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے پہلا اس کی پیداواری لاگت اور دوسری اس کی تقسیم یا ڈسٹریبیوشن کے اخراجات۔ پوری دنیا میں یہی نظام نافذ ہے اور ان دونوں کو جمع کر کے اس پر سیلز ٹیکس لگایا جاتا ہے اسطرح سے بجلی کا بل ان تینوں کا مجموعہ ہوتا ہے ظاہر ہے کہ پیداواری لاگت میں  اور ڈسٹریبیوشن کے اخراجات میں اضافے ایک مسلسل عمل ہے اور اس کا ایک قابل عمل لائحہ عمل اسی وقت ترتیب دیا جا سکتا ہے جب بجلی کی چوری پر قابو پانے میں کامیابی ہو گئی۔ اس کے علاوہ جو بجلی کے بلوں میں ٹیکسز شامل کیے گئے ہیں ان کو اس سے نکالنے کیلئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

 

یہ بات قابل توجہ ہے کہ جب ان پرائیویٹ سیکٹر کے پاورز پلانٹس سے کئے گئے معاہدے کی مدت مکمل ہو جائے تو ان سے نئے معاہدے کرتے ہوئے مختلف حکمت عملی کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس سے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا ذریعہ بنایا جا سکے۔

 

 ایک اہم مراعات جو کہ اکثر سرکاری،  نیم سرکاری،  عدلیہ،  افواج،  کارپوریشنز،  میونسپلٹیز وغیرہ سے وابستہ افراد حاصل کر رہے ہیں اس کو روکنے کی اشد ضرورت ہے اور وہ ہے ان افراد کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ جو براے نام قیمت پر دیے جاتے ہیں اور ان کی مالیت لاکھوں اور کروڑوں میں ہوتی ہے اس سے ملکی خزانے کو بہت نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور یہ کام عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے۔ اس پر ایک نئی پالیسی ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک وسائل کے اسطرح کے بوجھ سے نجات دلائی جائے سکے۔

 

اس سلسلے میں جن افراد کے پاس ایک سے زائد پلاٹ ہوں تو ان سے ایک زائد پلاٹ جو حکومتی وسائل سے ملیں ہوں وہ حکومت واپس لے کر قومی وسائل میں اضافہ کا سبب بنایا جائے۔ آئندہ کے لیے ان افراد کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے اور مستحق ملازمین کے لئے حکومتی سطح پر ایک مناسب درمیانے درجے کی ہاؤسنگ اسکیموں کا اجراء کیا جائے اور یہ  رقم ان ملازمین کی تنخواہوں سے لی جائے تاکہ انکو ریٹائرڈ ہونے پر  رہائشی سہولت میسر آ سکیں  یہ ان کے رہائشی مسلے کا مناسب آور قابل عمل حل ہے۔

 

اگر سنجیدگی سے ان مسائل پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ہم ہر آنے والے دنوں میں عوام کے مصائب میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ ملک میں اللہ سے جنگ کے مترادف سودی نظام ہے۔ اسلئے سب سے پہلے اس سمت پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں اس کی ابتدا حکومت پر پاکستانی پرائیویٹ بینکوں کا واجب الاد قرضوں پر سود کی ادائیگی ہے اس کو روکنے کے لیے ایک مناسب اور شریعت کی روشنی میں حل نکالنے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا حل اسطرح سے نکالا جا سکتا ہے کہ جن اوقات میں ان بینکوں نے حکومت کو قرضے فراہم کئے تھے اس وقت کی سونے کی قیمت سے اس کو منسلک کر دیا جائے اور ہر سال سونے کی قیمت میں اضافہ کی بناء پر اس کا منافع حکومت پاکستان ان بینکوں کو ادا کرے۔ اگر یہ طریقہ کار اپنایا گیا تو اللہ  سبحان و تعالٰی بھی اپنا کرم کرے گا۔

اب سب سے اہم بات ان مسائل پر ایک متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینے کا ہے جو آج وقت کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

اس سلسلے میں تمام اسٹیکک ہولڈر جن میں سیاسی قیادت، اسٹیبلشمنٹز،  بجلی کی پیداواری کمپنیوں،  بینکوں وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ان سب کو ایک جگہ بیٹھ کر ان مسائل اور ان کے حل پر بحث کرنے اور  ایک متفقہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ورنہ احتجاج و دھرنے کی سیاست سے عوام کو مزید مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس سے انتشار و افراتفری کو پھیلنے کا مزید موقع ملے گا۔

عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ ان تمام

 اسٹیکک ہولڈر پر اپنا اثر و  رسوخ استعمال کر کے ان کو موقع کی نزاکت کا احساس دلانے کا اپنا فریضہ بطور احسن ادا کریں گے۔

 


 

 

 

 

Post a Comment

0 Comments