Header Ads Widget

آہئ ایم ایف کی گورننس اور کرپشن ڈائیگناسٹک رپورٹ کا تجزیہ IMFs Report on Good Governance and Corruption Diagnostic - An Analysis

 تحریر: ممتاز ہاشمی

گزشتہ دنوں آہئ ایم ایف کی مرتب کردہ ایک رپورٹ جو پاکستان میں گورنس اور کرپشن ڈاہئگناسٹ کے عنوان سے ہے اس کو جاری کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ کا جائزہ لینے سے پہلے اس بات کو ریکارڈ میں لانا ضروری ہے کہ یہ رپورٹ حکومت پاکستان کی درخواست پر ماہرین نے تیار کی ہے اور پاکستان نے اس کے لیے رقم کی ادائیگی بھی کی ہے۔

س کی تحقیقات کے لیے پاکستان نے آٹھ ماہ تک مکمل تعاون کیا۔ اور اسے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے بغیر کسی لفظ یا پیراگراف کو حذف کیے شائع کیا۔

یہ حکومت کا ایک جرات مندانہ قدم ہے جو خود احتسابی کے عمل کی بنیاد فراہم کرتا ہے واضح رہے کہ ماضی کی کسی حکومت ( ملٹری یا سول) نے اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی اور ادارے تباہی و بربادی کے ڈھانے پر پہنچ چکے تھے۔

 حکومت پاکستان کا اس رپورٹ کی تیاری کرانے کا مقصد ظاہر ہے کہ مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے حل کے لیے مناسب حل کو تجویز کرنا تھا کیونکہ اس وقت حکومت ادارہ جاتی ریفارمز کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر مرکوز ہے اور یہ رپورٹ اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

مگر ہمارے ہاں کے عوام اور خاص طور پر نام نہاد پڑھے لگے طبقات نے اس خو پڑھنے تک کی زحمت گوارا نہیں کی اور سوشل میڈیا پر اپنے پراپگنڈہ میں مصروف عمل ہو گئے

 

آئی ایم ایف کی گورننس اور کرپشن ڈائیگناسٹک رپورٹ پاکستان کے عوام کے لیے قومی ہوش مندی کا لمحہ ہونا چاہیے تھا اور اس کی روشنی میں ماضی، حال کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کی پالیسیوں کو مرتب کرنے کے لیے تجاویز پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اس میں ہمارے 78 سالہ ساختیاتی نقائص، معاشی بگاڑ، ایلیٹ کیپچر، اور ریاستی کمزوری اور اس کے ساتھ مسائل میں اضافہ کو واضح طور پر دکھائی دیا ہے۔

مگر افسوس کہ اس کی بجائے یہ رپورٹ بھی نعروں، غلط بیانیوں، اور پراپگنڈہ جنگ کا حصہ بن کر رہ گئی ہے ۔

ہمارے ہاں ایک روایت بن گئی ہے کہ تمام مسائل کی جڑ اور بنیاد “رولنگ ایلیٹ” ہے جو مکمل طور پر سچ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ “اسٹرکچرل ایلیٹ کیپچر” کا ہے جس کو راہ راست پر لانے کے لیے شدید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے 

اس رپورٹ میں لفظ “رولنگ ایلیٹ” کہیں نہیں آتا۔ بلکہ ریاست پر اس معاشی ایلیٹ " “Elite Capture” 

کی گرفت کی نشاندہی کرتی ہے اور 

یہ وہ لوگ ہیں جو حکومت بدلنے سے نہیں بدلتے۔

اس رپورٹ کے صفحہ 92 ، پیرا 198 میں لکھا ہے:

مراعات یافتہ گروہ ٹیکس چھوٹ، ریگولیٹری رعایتوں اور سرکاری معاہدوں کے لیے پالیسی کو موڑ لیتے ہیں۔

اس رپورٹ میں مندرجہ ذیل طبقات کا ذکر ہے جنہوں نے گزشتہ 78 سالوں سے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ہے:

 • تمباکو مافیا 

 • شوگر مافیا 

 • لینڈ مافیا 

 • جاگیردار اشرافیہ 

 • صنعتی اجارہ دار 

 • رئیل اسٹیٹ مافیا 

 • بے نامی نیٹ ورکس

 • زرعی ایلیٹ 

ان تمام استحصالی طبقات کا تعلق تمام جماعتوں سے ہوتا ہے اور ان کا اثر و رسوخ یرغمال حکومت میں ہوتا ہے اور اسطرح سے وی حکومتی اصلاح ایجنڈے کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں 

آئی ایم ایف کی اس رپورٹ میں ادارہ جاتی اصلاحات کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ اس ایلیٹ کیپچر کو قانونی طور پر ناکام بنا کر ملک کو معاشی ترقی و عوامی فلاح و بہبود کی جانب گامزن کیا جائے۔

اس رپورٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ 

 کہ پاکستان میں پچھلے دو سال میں 5,700 یا 7,300 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے؛ یہ دعویٰ سوشل میڈیا کا ہروپگینڈہ ہے۔ 

رپورٹ کا اصل مقصد کرپشن کی رقم بتانا نہیں بلکہ گورننس کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنا اور ان اقدامات کو سراہنا ہے جو حکومت نے اینٹی کرپشن کے لیے کیے ہیں۔

آئی ایم ایف نے واضح طور پر لکھا ہے کہ پاکستان نے پچھلے عرصے میں 5+کھرب روپے کی ریکوریز کی ہیں۔ شفافیت بڑھانے، اداروں کو مضبوط کرنے، قانون کے نفاذ کو بہتر بنانے اور بدعنوانی کے خطرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔ یعنی رپورٹ اصلاحات، بہتری اور ریکوری کی طرف اشارہ کرتی ہے نا کہ کرپشن ہونے کے اعداد پر۔

 

"آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن "مسلسل اور تباہ کن" صورت حال اختیار کر چکی ہے، جس کے باعث ملکی معیشت ہر سال 5 سے 6.5 فیصد جی ڈی پی کے برابر نقصان برداشت کر رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ دو سال میں نیب کی جانب سے برآمد کی گئی 5.3 کھرب روپے کی رقم محض کرپشن کی اصل لاگت کا ایک حصہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان نے 1958 سے اب تک 24 مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے، جبکہ موجودہ حکومت کے دور میں 25واں پروگرام جاری ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پالیسی سازی پر بااثر طبقات کے قبضے نے عوامی مفاد کو شدید نقصان پہنچایا ہے، 

اس بات میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش موجود نہیں ہے کہ اس ایلیٹ کیپچر کو ہمارے ریاستی اداروں کی مکمل طور پر پشت پناہی حاصل ہے اور ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے اپنے ذاتی مفادات اور رشوت کے عوض ان استحصالی طبقات کو کھربوں روپے کے عوام کے پیسے لوٹنے کی کھلی چھوٹ فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا

 تحفظ ہماری عدلیہ کرتی آئی ہے اور کھربوں کے ٹیکس واجبات کے کیسز کا سالوں تک کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔

اسطرح سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے جس سے وہ مہنگائی و بے روزگاری سے دوچار ہوتے آ رہے ہیں۔

عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ عدلیہ، ٹیکس نظام، سرکاری اخراجات، خریداری کے عمل اور سرکاری اداروں کا انتظام کرپشن کے سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ عوامی سروے بتاتے ہیں کہ عدلیہ، پولیس اور پبلک پروکیورمنٹ کو سب سے زیادہ کرپٹ ادارے سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ شفافیت، احتساب اور عدالتی اصلاحات کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے ادارہ جاتی اصلاحات کے ایجنڈے پر کچھ پیش رفت کی ہے جن میں ایف بی آر کی تنظیم نو اور ٹیکس کلیکشن میں شفافیت لانے کی کوششیں کا کچھ نتیجہ سامنے آیا ہے اور اس ٹیکس کلیکشن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اس کے علاوہ زرعی آمدنی پر ٹیکس کا نفاز، تاجروں و دیگر طبقات کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانا شامل ہے۔

کرپشن پرقابو پانے کے لئے حکومت نے سرکاری اداروں کے گرہڈ 17 اور اس کے اوپر کے تمام افسران کے اثاثہ جات کی اشاعت کا قانون پاس کر دیا ہے اور 2026 سے اس کی اشاعت شروع ہو جائے گی۔

اس میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے اوراس کا اطلاق گرہڈ 10 سے اوپر تمام ملازمین پر ہونا چاہیے وفاقی، صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام اداروں، نیم سرکاری اداروں، کارپوریشنس، ترقیاتی ادارے، اور عدلیہ پر ہونا چاہیے۔

اس کے علاوہ ان اثاثہ جات کے علاوہ ان کے پوشیدہ اثاثہ جات کی معلومات فراہم کرنے والوں کی مکمل رازداری اور ان کے لیے انعامات کی ترغیب ہونی چاہیے۔

اس کا اطلاق صرف حاظر ملازمین پر ہی نہیں ہونا چاہیئے بلکہ دس برس قبل تک ریٹائرڈ ملازمین پر بھی ہونا چاہیے۔

اس بڑے اور اہم کام کی نگرانی میں کے لیے ایک مکمل شفافیت اور دیانتدار لوگوں پر مشتمل ایک مکمل خودمختار ادارہ کو قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسطرح سے سرکاری ملازمین اس ایلیٹ کیپچر کو تحفظ فراہم کرنے سے باز رہیں۔

یہی عمل عدل و انصاف کی فراہمی اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی ضمانت ہوگا۔

قطع نظر اس رپورٹ کے مندرجہ جات اور اس میں مرتب کردہ اصلاحات ایجنڈا، میں نے کچھ عرصہ قبل پاکستان کے معاشی مسائل اور ان کے حل پر ایک مضمون لکھا تھا جو کہ جلد ہی دوبارہ پیش کرو گا تاکہ اس رپورٹ کی روشنی میں اس کا مزید جاہزہ لیتے ہوئے ایک مربوط لائحہ عمل ترتیب دینے میں آسانی ہو جائے۔

 

 

 

Post a Comment

0 Comments