Header Ads Widget

دور ِ حاضر کا سب سے بڑا شرک : عوامی حاکمیت کا تصور The Biggest Shirk of the Time


ممتاز ہاشمی
ہر گز رتے اور آنے والے زمانے میں شرک مختلف انداز اورطریقوں میں موجود ہوتا ہے۔ اس کوسمجھنا یا اس کا صحیح اندازہ لگانا اُس وقت کے حالات و واقعات کے تناظر میں ہی کیا جا سکتا ہے‘ مگر یہ ہر انسان کے بس کی بات نہیں ۔ صرف اس دور میں موجود سچے اہل ایمان ہی کو شرک کے مختلف درجوں اور اقسام کی شناخت کرنے کی اہلیت و صلاحیت عطا ہوتی ہے۔مستقبل کے کسی شرک کی پیش گوئی اور اس کی نوعیت کا ادراک کرنے‘حقائق و واقعات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے لیے اپنے ایمان کی کامل مضبوطی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ۔ دراصل شرک کی قسم، نوعیت اور بنیاد، اُس دور کے معاشرے کی تشکیل و نو میں مختلف نئی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز ، سماجی ومعاشی حقائق، تہذیبی اور ثقافتی رشتوں کے ارتقا کی بنیاد پر منحصر ہوتے ہیں جو کہ مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں آج کا سب سے بڑا شرک دریافت کرنے اور اس سے بچنے کے لیے انتہائی محنت اور لگن کے ساتھ ان تمام حالات اور واقعات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے ۔اس اہم ترین کام کے لیے اپنے قیمتی وقت کی قربانی دینی ہوگی اور اللہ سے نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ اس کو سمجھنے کی توفیق عطا کرنے کی دعا کرنی چاہیے۔
ہمیں ہمیشہ اس چیز کو معیار بنانا اور مدنظر رکھنا ہو گا کہ شرک کا تعلق اللہ کی ذات اور صفات میں کسی اور کو شریک کرنا ہے‘ جس کا واضح مطلب اللہ کی وحدت پریقین نہ کرنے کے مترادف ہوگا۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ فرعون کا دعویٰ یہی تھا کہ حکم اس کا ہی چلے گا، نہ کہ اللہ کا۔ اس نے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ کائنات اس نے تخلیق کی ہے‘ بس وہ اپنی حاکمیت اور اپنے فیصلوں کو خدائی احکامات پر بالادست ہونے کا اعلان کرتا تھا۔ آج کی دنیا میں آزادی اور انسانی خودمختاری کی بڑی بات کی جاتی ہے۔ اس کو معاشرتی اور سماجی نظام کی ترقی کی بنیاد قرار دیا جا رہا ہے۔درحقیقت مکمل انسانی آزادی اور خودمختاری کا یہ تصور ہی اللہ کی کلی وحدت اوراحکامات کی خلاف ورزیوں پر محیط ہے۔آج زندگی کے ہر شعبہ میں نافذ سماجی ، معاشی، اخلاقی قوانین ہماری اپنی پسند اور ناپسند کی بنیاد پرتخلیق کیے جاتے ہیں نہ کہ خالق کائنات کے احکامات کے مطابق ۔ نتیجہ واضح ہے کہ پوری دنیا اس نظام میں جکڑی ہوئی ہے جو کہ عوامی حاکمیت کے کفرانہ نظریات کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر شعبہ زندگی میں اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی پُوری شدت سے جاری و ساری ہے۔ آسان زبان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پوری دنیا میں دین اسلام مغلوب ہے جبکہ انسانی حاکمیت کا تصور مجموعی طور پر غالب اور بالاتر ہے۔یہ تلخ حقیقت ہر سچے مومن کے لیے تشویش ناک ہے۔ حقیقی ایمان والوں کے لیے انتہائی مایوسی اور شرمندگی کی صورت حال ہے۔یہ موجودہ دور کا سب سے بڑا شرک کیوں ہے ‘اس کوجاننے کے لیے ہمیں قرآن کا پیغام اور اس کی روح کو سمجھنے کی ضرورت ہوگی۔ اس سلسلے میں سورۃ المائدہ کی مندرجہ ذیل آیات سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے:
’’ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت ونور ہے۔ یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے انبیاء (علیہم السلام) اور اہل اللہ اور علماء فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا اور وه اس پر اقراری گواه تھے۔ اب تمہیں چاہیے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے تھوڑے مول پر نہ بیچو۔ جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وه (پورے اور پختہ) کافر ہیں۔ اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے، پھر جو شخص اس کو معاف کردے تو وه اس کے لیے کفاره ہے، اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے کے مطابق حکم نہ کریں، وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘
(آیات44۔ 45)
’’اور انجیل والوں کو بھی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ انجیل میں نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق حکم کریں اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کرده سے ہی حکم نہ کریں وہی فاسق (بدکار) ہیں۔‘‘ (آیت47)
اگر ہم دیانت داری سے کائنات کی حقیقت کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے اجتماعی طرزِعمل کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اکثریت نہ صرف طاغوت کے نظام کے تحت ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہے بلکہ اس نظام سے ہر طرح کے فوائد حاصل کرنے میں اپنی تمام کوششوں اور صلاحیتوں کو صرف کر رہی ہے ۔ اس لیے ان حالات و واقعات کی موجودگی میں اور طاغوت کے موجودہ نظام کے تحت بغیر کسی غیر فعال مزاحمت کے زندگی گزارنا موجودہ دور کا سب سے بڑا شرک ہے‘ جس میں بحیثیت مجموعی پوری امت مسلمہ ملوث ہے۔اس منظر نامے کی مزید وضاحت کے لیے ایک حدیث بہت اہم ہے جسے ذہن میں رکھنا ہوگا تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ان حالات میں بخوشی زندگی گزارنے پر اللہ ہم سے کتنا ناراض ہے۔ حدیث کا مفہوم یہ ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑ کو حکم دیا کہ فلاں شہر کو اس کے تمام لوگوں کے ساتھ الٹ کر تباہ کر دے۔" اس نے عرض کیا :" اس میں تو آپ کا فلاں بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے کی دیر بھی آپ کی نافرمانی نہیں کی۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس بستی کو پہلے اس پر پلٹنا اور بعد میں دوسروں پر پلٹنا ، کیونکہ اس کے چہرے کا رنگ کبھی میری حمیت میں متغیر نہیں ہوا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ناراضگی کا اظہار ہم سب کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ کی یہ ناراضگی اس شخص کے لیے ہے جو ایک لمحے کے لیے بھی اپنی ذات کی حد تک اللہ کا نا فرمان نہیں ہوا‘ البتہ اس کی خطا یہ تھی کہ معاشرے میں اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی پر اس نے کوئی ردّعمل نہیں دیا۔
جہاں تک موجودہ دور میں رائج جمہوریت پر مبنی نظام حکومت کا تعلق ہے تو یہ انہی حدود و قیود میں قابل قبول ہو سکتا ہے کہ یہ احکامات خداوندی یعنی شریعت کے تابع ہو۔اس کے مدمقابل آمریت کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ اللہ کی اطاعت کی بجائے انفرادی اطاعت کا نظام ہے جو مکمل طور پر شرک ہے۔اب ہم میں سے ہر کوئی انفرادی طور پر اپنے ایمان اور طرز عمل کا جائزہ لے اور خود اپنا احتساب کرے کہ وہ کس مقام پر ہے۔ جب صورت حال واضح ہو جائے گی تو پھر اس شرک سے بچنے کے لیے اس کے خلاف جدوجہد کا لائحہ عمل ترتیب دینے میں آسانی ہو جائے گی ۔ آئیے اللہ سے پورے خلوص دل کے ساتھ معافی مانگیں اور توحید کے نظام کو نافذ کرنے کا فرض اپنی بساط کے مطابق ادا کرنے کا عہد کریں۔اللہ کی راہ میں یہ جدوجہد ہی طاغوت کے نظام میں رہنے کا واحد کفارہ ہوگا۔
اس سلسلے میں عملی اقدامات اور جدوجہد کے طریقہ کار کے لیے سنتِ رسول ؐسے مکمل رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے یہ کائنات عدل پر قائم کی ہے اور روز ِقیامت بھی اللہ ہر ایک سے عدل کرے گا ۔ ہر شخص کا انفرادی حساب اس کو دنیا میں حاصل طاقت، وسائل اور اختیارات کی بنیاد پر ہو گا۔ جس کے پاس ان چیزوں کی بہتات اور فراوانی ہوگی‘ ا ن کا حساب سخت ہو گا جبکہ جن کے پاس یہ چیزیں کم ہوں گی ان کا حساب بھی آسان ہو گا۔ یہی عدل کا تقاضا بھی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کوشرک کو سمجھنے اور اس سے بچنے کی جانب مائل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!


Post a Comment

0 Comments