Header Ads Widget

سپریم کورٹ کا یکم جولائی کا فیصلہ - ماضی کے جھروکوں سے


تاریخ جولائی 1، 2022 ( دو برس قبل لکھا گیا مضمون)

ممتاز ہاشمی 



وزیراعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب سے متعلق سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ آئین و قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ یہ عدلیہ کی اہلیت پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ جو آئین کی بالادستی کو برقرار رکھنے اور اپنے حلف کی پاسداری کرنے کے پابند ہیں۔
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ انہوں نے میرٹ اور آئین پر فیصلہ دینے کے بجائے صرف سیاسی جماعتوں میں ثالثی کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں سے آئین کے تقاضوں کی تعمیل کرنے کے لیے واضح ہدایات دینے کے بجائے ان کو اپنی مب پسند فیصلہ پر رضامند کرنے کا اعلان کیا ۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایسے اہم آئینی مقدمات کی سماعت ہمیشہ ججوں کے ایک مخصوص ذہن کے ذریعے ہوتی ہے۔ غیر جانبدار اور سینئر ججوں کی اکثریت ان اہم آئینی مقدمات سے ہمیشہ دور رکھا جاتا ہے ۔
غور طلب ہے کہ پانچ رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی وضاحت کے صدارتی ریفرنس پر انتہائی متنازعہ فیصلہ دیا ہے۔ یہ فیصلہ 3 سے 2 کی اکثریت کا فیصلہ تھا۔ اس ریفرنس میں 2 ججوں نے اکثریتی فیصلے کو آئین کی ازسرنو تحریر قرار دیا، جو عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ سپریم کورٹ بار کی اکثریتی فیصلے پر نظرثانی کی درخواست ابھی زیر التوا ہے اور اس کی سماعت نہیں ہو رہی۔ یہ ضروری ہے کہ ملک کو آئین کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے فل کورٹ اس متنازعہ فیصلے پر دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست کی سماعت کرے۔
 تمام مسائل کا تعلق مذکورہ متنازعہ اکثریتی فیصلے سے ہے اور آئندہ مستقبل میں کسی بھی کارروائی کے لیے اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔


Post a Comment

0 Comments