اشراق احمد ہاشمی
دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا
تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا
دہشت گردی کی فلم تھی اورایک وقت تھا جب پاکستان کبھی امریکہ کا قریبی اتحادی کہلاتا تھا۔ مگر قربت کے اتنے برسوں میں صرف پانچ امریکی صدور نے پاکستان کا دورہ کرنا ضروری سمجھا۔اس کے مقابلے میں انڈیا نے خود کو غیر جانبدار رکھا اور امریکہ کے مقابلے میں اس کے بدترین حریف سوویت یونین سے قریبی تعلقات رکھے۔ اس کے باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت اب تک سات امریکی صدور انڈیا کا دورہ کر چکے ہیں۔ظاہر ہے کہ نہ سیاسی حالات ایک جیسے رہتے ہیں اور نہ ہی قومی مفادات، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست میں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مستقل دوست۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک جمہوریت کی علم بردار عالمی طاقت امریکہ کے پانچ صدور نے دور پاکستان کے لیے ہمیشہ ایسے وقت کا انتخاب کیا جب اقتدار پر فوج قابض تھی۔1971 سے قبل تین امریکی صدور پاکستان آئے مگر ان میں سے کوئی بھی اس وقت کے مشرقی پاکستان نہیں گیا۔ دو صدور کراچی، ایک لاہور، جبکہ پاکستان ٹوٹنے کے بعد دو امریکی صدور اسلام آباد تشریف لا چکے ہیں۔
ایسے میں ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کے سرخیل امریکہ نے عالمی قیادت کے اس خلا کو پر کرنا شروع کیا تو دوسری جانب سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف کمیونزم یا اشتراکیت کی علم بردار سویت یونین نے تیسری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کر دیا۔یہ امریکہ اور سوویت یونین میں سرد جنگ کا آغاز تھا۔ دونوں ہی طاقتوں نے معاشی، فوجی اور سماجی ترقی کے منصوبوں کے ذریعے کم ترقی یافتہ ملکوں کو اپنا حلیف بنانے کے پروگرام شروع کیے، اور ضرورت پڑنے پر ان ملکوں کے اندورنی معاملات میں کھلم کھلا اور پسِ پردہ مداخلت سے بھی دریغ نہیں کیا۔
پاکستان عالمی سیاست کی بساط پر:
اس پس منظر و پیش منظر میں پاکستان امریکہ تعلقات کی داغ بیل اکتوبر 1947 میں پڑی تھی۔اگرچہ جنوری 1950 میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک خفیہ مراسلے میں سوویت کمیونزم کو آزاد دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا تھا تاہم اس میں پاکستان کا ذکر محض انڈیا کے ساتھ تنازع کشمیر کے حوالے سے کیا گیا تھا۔امریکی محکمہ خارجہ کے اپریل 1950 کے ایک خفیہ مراسلے کے مطابق پاکستان کے ساتھ تعلقات کا بنیادی اصول وہاں کی حکومت اور لوگوں کی سمت امریکہ اور دوسری مغربی جمہوریتوں کی جانب موڑنا اور سویت یونین سے دور کرنا ہے۔صدر نکسن (دائیں) دلی میں مختصر قیام کر کے پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔بعد کے حالات اور واقعات نے ثابت کیا کہ جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کے لیے پاکستان اس کا بے بدل حلیف ہے۔مگر امریکہ نے سنہ 1949 میں انڈیا کو پاکستان پر ترجیح دیتے ہوئے سرکاری دورے کی دعوت انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو دی تھی۔ جس کے جواب میں اسی برس جون میں روس نے پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان کو ماسکو کے سرکاری دورے پر مدعو کیا۔ لیکن حامی بھر لینے کے باوجود وہ ماسکو نہیں گئے۔وجہ اب تک ایک راز ہے۔ شاید پاکستان نے مستقبل کو بھانپ لیا تھا!
واشنگٹن کو ماسکو کی دعوت پر حیرت ہوئی اور اب اس نے پاکستانی وزیر اعظم کو مدعو کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ مئی 1950 میں پہلی امریکہ پاکستان سربراہ ملاقات واشنگٹن میں ہوئی۔آنے والے برسوں میں پاکستان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ سِیٹو اور سینٹو سمیت مختلف دو طرفہ اور کثیرالجہتی دفاعی معاہدوں پر دستخط کیے۔
سنہ 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور دوسری یورپی نوآبادیاتی طاقتیں ایک صدی سے زیادہ عرصے تک عالمی سیاست پر اپنے نقوش چھوڑ کر پس منظر میں غائب ہو رہی تھیں۔بقول شاعر
مجھے منظور گر ترک تعلق ہے رضا تیری
مگر ٹوٹے گا رشتہ درد کا آہستہ آہستہ
جمعرات کی شام تک امریکہ کی50 میں سے 47 ریاستوں کے صدارتی انتخابی نتائج جاری کر دیے گئے تھے جن کے مطابق ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن صدارتی الیکٹورل کالج کی 253 نشستیں حاصل کر چکے تھے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت تک 213 نشستیں حاصل کر سکے تھے۔امریکہ کا یہ 59واں صدارتی انتخاب کئی حوالوں سے قابل ذکر اور غیر معمولی ہے اور ممکن ہے ان حوالوں سے اس سپر پاور کی تاریخ میں تا دیر یاد رکھا جائے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس صدارتی انتخاب نے امریکی سماجی بے چینی عدم اطمینان اور تقسیم کو واضح کیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بیرونی دنیا کی طرح امریکہ کے اندر بھی تشویش میں اضافہ ہوا مگر اس کا درجہ اس قدر بلند تھا اس کا اندازہ امریکہ سے باہر بیٹھے لوگوں کو نہیں تھا۔ حالیہ انتخاب میں غیر معمولی ٹرن آوٹ کو بھی اسی بے چینی کی علامت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔صدارتی انتخاب میں ٹرن آوٹ کی شرح تقریبا 67 فیصد رہی ہے جسے قریب ایک صدی بعد امریکی صدارتی انتخاب کا بلند ترین ٹرن آوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی عوام اپنے ملک میں تبدیلی کی غرض سے نکل پڑے ۔
انتخابی عمل سے آگے جو کچھ ہو رہا ہے یا آنے والے دنوں میں متوقع ہے اس سے بھی امریکی سماج کی بے چینی کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ ووٹوں کی گنتی پر کئی ریاستوں میں جھگڑے کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ موجودہ صدر گنتی رکوانا چاہتے ہیں جبکہ ریاستی حکومتیں اور عوام گنتی جاری رکھنے اور مکمل کرنے کے حق میں ہیں؛چنانچہ متعدد مقامات پر مظاہرے شروع ہو چکے ہیں اور مظاہرین نے ہرووٹ کو شمار کریں کے نعرے لگا رہے ہیں۔انتخابی نتائج پر صدر ٹرمپ کے ردعمل سے واضح ہے کہ یہ نتائج ان کی توقعات کے برعکس ہیں۔وہ دھاندلی کے الزامات بھی لگا رہے ہیں اور انتخابی عمل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں مگر امریکی صدرکی جانب سے یہ ردعمل غیر متوقع یا حیران کن نہیں کیونکہ انتخابی مہم کے دوران ہی وہ کئی مرتبہ تاثر دے چکے ہیں کہ شکست کی صورت میں وہ نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے۔بقول ندا فاضلی
دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجیے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے
ان تاثرات سے امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخاب اور مستقبل کے سیاسی منظر نامے اور سیاسی بکھیڑوں کو سمجھنا مشکل نہیں ۔ حالات جس رخ بڑھتے چلے جا رہے ہیں اگر ان پر قابو پانے کی کوشش نہ کی گئی تو کثیر نسلی امریکہ میں سیاسی تصادم اور سماجی تقسیم میں اضافے کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔دنیا کو صدر ٹرمپ سے عام طور پر یہ شکایت رہی ہے کہ وہ دھونس اور من مانی سے معاملات آگے بڑھانے کے عادی ہیں مگر اس رویے کی سب سے بڑی قیمت دنیا کا کوئی اور ملک یا خطہ نہیں بلکہ صدر ٹرمپ کا اپنا ملک اور عوام ہی ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔اس پس منظر اور صورتِ حال میں آنے والے امریکی صدر کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ اس تقسیم کو کم کرنے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔حالیہ صورتحال ظاہر ہے اچانک پیدا نہیں ہوئی یہ لاوا جو امریکی صدارتی انتخاب کے دھانے سے بہہ نکلا ہے پچھلے کئی سال کی امانت ہے۔ یہ تصادم صدر ٹرمپ کی رنگ و نسل کے امتیاز پر مبنی پالیسی کا بدیہی نتیجہ ہے ۔آنے والے صدرکے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی اس میراث سے نمٹنے اور اس کا ازالہ کرنے کا بڑا چیلنج ہے۔
جوبائیڈن کے تاثرات اس حوالے سے حوصلہ افزا ہیں کہ وہ اپنے ملک اور قوم میں تعمیری اتحاد کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں۔ انتخابی عمل کی تکمیل کے بعد بھی انہوں نے یہ دہرایا کہ نتائج جو بھی ہوں لوگوں کو انہیں ذاتی دشمنی کا ذریعہ نہیں بنالینا چاہیے ۔ انہوں نے اتفاق اور اتحاد کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ آنے والے امریکی صدر کو نہ صرف اپنے ملک کے لیے بلکہ دنیا کے لیے بھی اتفاق امن اور ترقی کا ہاتھ بڑھانا ہو گااور کوشش کرنا ہوگی کی صدر ٹرمپ کے دور میں جو تصادم کی پالیسی خواہ یہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ کی صورت میں ہو یا مشرق وسطی میں عسکری ٹکراو کو ترک کرنا ہو گا۔ صدر ٹرمپ نے چین کے ساتھ جو تجارتی جنگ شروع کر رکھی ہے اس کے لیے انہوں نے امریکی معاشی مفاد کا بیانیہ اختیار کیا مگر معاشی نمو اور ملازمتوں کے مواقع کے اشاریے صدر ٹرمپ کو بارک اوباما سے آگے ظاہر نہیں کرتے۔
صدر ٹرمپ کے پہلے تین اور بارک اوباما کے آخری تین برسوں میں امریکہ کی اوسط معاشی نمو تقریبا 2.5 فیصد کی یکساں سطح پر برقرار رہی ہے۔ یہی حال ملازمتوں کا ہے کہ اوباما کے آخری تین برس میں 70لاکھ ملازمتیں پیدا ہوئیں مگر ٹرمپ کے پہلے تین برس میں یہ تعداد 64 لاکھ رہی۔اس تناظر میں یوں ظاہر ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے کھوکھلے وعدوں امتیازی پالیسیوں کورونا وبا سے نمٹنے میں ناکامی اور بیرونی دنیا کی جانب ان کے نظریے کو امریکی عوام نے مسترد کیا ہے۔ یہ صورتِ حال آنے والے امریکی صدر کے لیے ایک چیلنج بھی ہے اور ایک موقع بھی کہ وہ کس طرح امن بقائے باہمی برابری اور ترقی کے لیے کردار ادا کرتا ہے۔
چشم براہ
صدر ٹرمپ نے جولائی 2019 میں وزیراعظم عمران کے دور واشنگٹن کے دوران ان کی دعوت قبول کرتے ہوئے پاکستان جانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
مگر ظاہر ہے کہ اس کے عملی شکل اختیار کرنے کا انحصار ہمیشہ کی طرح اس بات پر ہو گا کہ امریکہ کو پاکستان کی کتنی ضرورت ہے کیونکہ بین الاقوامی سفارت کاری میں دو طرفہ تعلقات کی سطح ملکی مفادات طے کرتے ہیں۔جذب خیرسگالی اور دیرینہ دوستی کے حوالے محض زیب داستاں کے لیے ہوتے ہیں۔ایسے ہی تعلقات پر احمد ندیم قاسمی فرماتے ہیں:
مجھے منظور گر ترک تعلق ہے رضا تیری
مگر ٹوٹے گا رشتہ درد کا آہستہ آہستہ

0 Comments