ماضی کے جھروکوں سے
تحریر: ممتاز ہاشمی
آج سپریم کورٹ میں اہم آئینی مقدمہ کی سماعت جاری ہے اس سے پہلے پاکستان کی انسانی حقوق کی تنظیم اور تمام بار کونسلز نے مشترکہ طور پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ اس اہم آئینی کیس کو فل کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی حکومتی اتحاد کی تمام جماعتوں نے بھی یہ بات سپریم کورٹ میں پیش کی تھی کہ اس کیس کو فل کورٹ سنے کیونکہ ان تین ججوں کے کنڈیکٹ پر ان کو اعتماد نہیں ہے اور ان کی آئین سے وفاداری مشکوک ہے اسلئے اگر یہ تین ججوں نے ہی کیس کی سماعت کی تو وہ اس کا حصہ نہیں بنیں گے اور اس کا بائیکاٹ کریں گے
لیکن یہ انتہائی بدقسمتی اور افسوسناک بات ہے کہ ان تین ججوں نے پاکستان کی اکثریت عوام کی نمائندگی کرنے والے جماعتوں اور اداروں کے موقف کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی بلکہ اپنے جانبدارانہ روپے کا اظہار کرتے ہوئے سماعت جاری رکھی
یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے تین من پسند ججوں نے پوری عدلیہ کو یرغمال بنا رکھا ہے اور ایسے فیصلے قوم پر مسلط کر رہے ہیں جن کی آئینی حیثیت مشکوک ہے اور یہ نظریہ ضرورت کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی کوشش ہے۔ آج کی سماعت میں بھی یہی دیکھنے کو آیا۔ شرم کا مقام ہے کہ ججوں نے اپنے ہی فیصلے پر نظرثانی کرتے سے انکار کر دیا کہ اس کیس میں اس کو چیلنج نہیں کیا گیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ فیصلہ موجود نہیں ہوتا تو دوبارہ سے چیف منسٹر کے انتخاب کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی
اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان ججوں نے اپنی آج کی سماعت میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر بھی غور کرنا مناسب نہیں سمجھا جو اس نے نواز شریف کو مسلم لیگ کی صدارت سے علیحدہ کرنے پر دیا تھا اور اس میں پارٹی سربراہ کی جو تعریف کی گئی تھی اس کے مطابق تمام تر معاملات میں پارٹی سربراہ ہی آخری اختیار رکھتا ہے کیا سپریم کورٹ اب اپنے اس فیصلے سے بھی انحراف کرتے ہوئے نظریہ ضرورت کے تحت آج کے دور میں پارٹی سربراہ کی نئی تعریف تخلیق کرنے جا رہی ہے
ان تمام حقائق اور واقعات کی بنیاد ہی وہ وجہ ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی عدلیہ کا مقام انتہائی پستی کی جانب ہے اسلئے آج اس بات کی ضرورت ہے کہ تمام جمہوری قوتیں اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہنے اور آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے پر مجبور کرنے کے لیے متحد ہو کر اپنا کردار ادا کریں اور عدلیہ میں اور ججوں کے کنڈیکٹ کے حوالے سے بنیادی قانون سازی کریں
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ تین ماہ پہلے جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے غیر آئینی کردار کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے نتیجے کے طور پر عوام پر مسلط حکومت ایک دم سے ختم ہو گئی اور نئی حکومت وجود میں آئی اس وقت سے ملک اور حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا کام ان تین ججوں نے سنبھال لیا ہے اور ان کے مسلسل غیر ضروری طور پر حکومتی امور میں مداخلت نے وفاقی اور پنجاب حکومت کو مفلوج کر رکھا ہے اس کے نتیجے کے طور پر ملک میں ملک میں غیر معمولی معاشی عدم استحکام پھیل رہا ہے اور اس کی وجہ سے دنیا پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے گریزاں ہے اور اس کے باعث ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے
اسلئے آج اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ ان تینوں ججوں کو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے سے روکنے کے لیے خصوصی اقدامات کئے جائیں اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججوں کو ادارے کی توقیر کی بحالی کے لئے آگے آنا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی حکومت کو پارلیمنٹ کے ذریعے ان تین من پسند ججوں کو غیر قانونی اقدام سے روکنے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا
ملک مزید بحرانوں کا متحمل نہیں ہوسکتا اور فوریاقدامات کا تقاضا کرتا ہے
0 Comments