Header Ads Widget

بنگلہ دیش - انقلاب یا انتشار؟ Bangladesh is it Revolution or Chaos

تحریر: ممتاز ہاشمی 


گزشتہ دنوں جب سے بنگلہ دیش میں طلباء کے ہنگامے شروع ہوے اور جو بالآخر ایک منتخب جمہوری حکومت کے خاتمے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی کامیابی کی صورت میں سامنے آئی ہے ہمارے ہاں بھی اکثر لوگ اس کو بنگلہ دیش میں انقلاب سے تعبیر کر رہے ہیں۔
دراصل یہ وہی عناصر ہیں جنہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بھی کچھ علم نہیں ہے اور جو کچھ انہوں نے جھوٹ پر مبنی سوشل میڈیا سے سنا ہے اسی کو بلا تصدیق سچ سمجھ لیتے ہیں۔
بنگلہ دیش کی سیاسی تاریخ دراصل پاکستان کی ہی سیاسی تاریخ کا ایک تسلسل اور باب ہے پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش کے حصے میں جو ملٹری اسٹیبلشمنٹ آئی وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ہی حصہ تھی اور اس کو اقتدار پر قابض رہنے کی عادت پڑھ چکی تھی اسلئے بنگلہ دیش میں بھی اس ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اس کے قیام کے ساڑھے تین سال بعد ہی سیاسی قیادت کو قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
پاکستان میں ہمیشہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بلا رکاوٹ اور بغیر کسی مزاحمت کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا مگر کیونکہ بنگلہ دیش کا قیام ہی ایک خونریزی کے بعد عمل میں آیا تھا اسلئے وہاں پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اقتدار پر قبضہ کے دوران بھی خونریزی دیکھنے کو ملتی ہے۔
اس کے قیام کے بعد وہاں طویل عرصے تک ملٹری ڈکٹیٹروں کی حکومتیں قائم رہیں اور اس دوران جمہوری قوتوں نے ان کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں اور جس کے نتیجے کے طور پر وہاں پر جمہوری ادوار بھی دیکھنے کو ملتے ہیں اگرچہ وہاں پر بھی ان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کردارہی نمایاں رہا ہے اور سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی بقاء کے لیے وقتی طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تعاون و اتحاد بھی کیا ہے 
اس دوران جب جمہوری قوتوں کو تقویت ملی تو انہوں نے نہ صرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کو ختم کرنے کی کوشش کی بلکہ آہین میں ان کی کردہ ترامیم کو بھی ختم کر دیں۔
اسطرح سے وہاں پر بھی دو جماعتی جمہوری نظام کامیاب ہوتا لگ رہا تھا۔
اس نظام کی کامیابی نے بنگلہ دیش کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور بنگلہ دیش کی معیشت اس علاقے میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی نظر آنے لگی۔
گزشتہ پندرہ برس سے زائد عوامی لیگ کی بیگم حسینہ واجد کی حکومت کی پالیسیوں نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی بدولت آج بنگلہ دیش کے عوام کی معاشی حالت پہلے سے بہتر ہے۔
اسی سال ہونے والے انتخابات میں عوامی لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی اگرچہ اس موقع پر اپوزیشن نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا مگر اس کے باوجود تمام عالمی برادری نے ان انتخابات کو منصفانہ قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ بیگم حسینہ واجد نے اپنے دور اقتدار میں بہت سی سیاسی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے جس میں خاص طور پر جمہوری قوتوں اور جاص کر بیگم خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے خلاف انتقامی کاروائیاں نمایاں ہیں۔ جس نے جمہوری قوتوں کے درمیان اتحاد کی بجائے نفاق کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اسطرح سے عوامی لیگ کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہونے پر وہ عوامی فلاح و بہبود کے ایجنڈے پر تیزی سے گامزن تھی اور یہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو گوارا نہ تھا کیونکہ اسطرح سے ان کا اقتدار پر قابض ہونے کا خواب ہمیشہ کے لیے دفن ہونے جا رہا تھا۔
اس صورتحال میں ایک منصوبہ بندی کے تحت منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے سازشی تیار کی گئی اور اس کے لیے طلباء کو ملک میں بغاوت اور ہنگامہ آرائی کے لیے 
استعمال کیا گیا۔
ہنگاموں کی بنیاد ایک ایسے مسئلے کو بنایا گیا جس سے عوام کی اکثریت کا کوئی تعلق نہیں تھا اور اسی لیے یہ تمام ہنگاموں میں صرف طلباء کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں ایک خاص کوٹہ کو ہدف تنقید بنایا گیا اگرچہ یہ کوٹہ ہمیشہ سے ہی کم و بیش ہی قانون کا حصہ رہا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں کا حصہ ملک کی کل ملازمتوں میں انتہائی کم ہوتا ہے اور ان کے تنخواہیں بھی پرائیویٹ ملازمین سے کم ہوتی ہیں مگر کیونکہ سرکاری ملازمین کو کرپشن کرنے کے بے انتہا مواقع میسر ہوتی ہیں اس پا منظر میں پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی سرکاری ملازمت حاصل کرنا لوگوں کی ترجیحات میں شامل ہے۔
اس بنیاد پر جو ہنگامہ آرائی کی گئی اس خو مزید بڑھانے میں سرکاری اداروں کی جانب سے طاقت کا استعمال اور انسانی جانوں کے ضیاع نے اہم کردار ادا کیا۔ جس میں ریاستی اداروں کا اس سازش میں ملوث ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
مگر اس کو سب سے بڑا فروغ سوشل میڈیا کے ذریعے دیا گیا جو آج پوری دنیا میں افراتفری اور جھوٹ پھیلانے کا سبب سے اہم ذریعہ ہے اور آج پوری دنیا اس کے ہاتھوں پریشان ہے۔
اس سازش کو کامیاب کرنے کے لیے کرپٹ عناصر نے جو بنگلہ دیش کی دولت لوٹ کر بیرون ممالک میں مقیم ہیں انہوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
اسطرح سے چند بڑے شہروں میں خونریز ہنگاموں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کا موقع فراہم کیا اور اسطرح سے بنگلہ دیش میں جمہوریت کا خاتمہ ہو گیا۔
اور ایک ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی حکومت کو سامنے لایا گیا ہے جس نے تمام ریاستی ادارے بشمول عدلیہ کو غیر فعال کر دیا ہے۔
اسطرح سے ایک ترقی کرتے ہوے جمہوری ملک کو دوبارہ سے آمریت کی طرف دھکیل دیا ہے جس کے مستقبل کے بارے میں سوالیہنشان آٹھ گئے ہیں۔
اس صورتحال میں جمہوری قوتوں خاص کر عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے قائدین بیگم حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیاء پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو درست کرتے ہوئے جمہوریت کی بحالی کیلئے اسی طرح کا میثاق جمہوریت کریں جیسا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے کیا تھا۔
اسطرح سے جمہوری قوتوں کو ملکر بنگلہ دیش کو دوبارہ سے جمہوریت کی پٹری پر ڈالنے کے لئے سرگرم عمل ہونا پڑے گا تاکہ عوام کی فلاح و بہبود کے ایجنڈے کو روبہ عمل لایا جا سکے۔
امید ہے کہ سیاسی قوتیں بنگلہ دیش میں ماضی سے سبق حاصل کر کے آئندہ کے لیے اپنے لائحہ عمل ترتیب دینے میں کامیاب ہو جائیں گی۔


Post a Comment

0 Comments