ستمبر 4، 2024
تحریر: ممتاز ہاشمی
آج ہماری قومی زندگی کے اس تاریخی لمحے کو59 سال گزر چکے ہیں اور میں اس دور سے متعلق کچھ تاریخی حقائق اور اس سے منسلک کچھ یادیں لمحوں کو تحریر کرنے کی کوشش کی ہے ۔
میں اس وقت تقریبا 9 سال کا تھا اور کرشن نگر لاہور میں واقع اپنے گھر میں رہتا تھا۔ 6 ستمبر کی صبح سویرے ہمارے تمام گھر اور محلے والوں نے ریڈیو کے ذریعے یہ خبر سنی کہ بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا ہے۔
اس دن میری نانی اماں اور خالہ نے سیالکوٹ سے بذریعہ ٹرین لاہور پہنچنا تھا۔ ہم نے بھارتی فضائیہ کی جانب سے سیالکوٹ سے لاہور جانے والی ٹرین پر وزیر آباد کے قریب فضائی حملے کی خبر سنی اور ہم سب اس سے پریشان تھے ۔
میں اپنی والدہ کے ساتھ لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچا تاکہ ان کا پتہ چلے۔ جب ٹرین آئی اور وہ بخیریت سے مل گے اس کے بعد یہ معلوم ہوا کہ جس ٹرین پر فضائی حملہ کیا گیا وہ ایک مال گاڑی تھی۔
گھر واپس پہنچنے پر ہر کوئی ریڈیو پاکستان پر صدر ایوب خان کی تقریر جو براہ راست نشر ہو رہی تھی اس کوسن رہا تھا۔ یہ تاریخی تقریر آج بھی مجھے اور اکثر لوگوں کو یاد ہے۔
اس دن ہم نے زندگی میں پہلی بار بھارتی فضائیہ اور پاک فضائیہ کے درمیان براہ راست فضائی لڑائی اپنے گھر کی چھت پر جا کر دیکھی۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے محلے اور دیگر لاہور کے علاقوں میں لوگوں کی اکثریت اپنی چھتوں پر تھی اور اس لڑائی کو دیکھ رہی تھی اور پاکستانی فضائیہ کی کارکردگی پر تالیاں بجا رہی تھی۔
بعد میں اعلان کیا گیا کہ فضائی حملے کے وقت چھت پر نہ جائیں بلکہ محفوظ جگہ پر پناہ گاہ میں منتقل ہو جائیں ۔
نیز یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ تمام کھڑکیوں اور دیگر جگہ کو مٹی یا رنگین کاغذوں سے ڈھانپیں تاکہ آسمان سے جہاز کو کچھ نظر نہ آئے اور اس طرح سے مکمل بلیک آؤٹ کا مظاہرہ کیا جائے اور جیسے ہی فضائی حملے کا سائرن سنا بجے تو فوراً تمام لائٹ بند کر دیں.
اگلے دن لوگوں نے فضائی حملوں کے دوران حفاظتی مقام کے لیے محفوظ جگہوں پر خندقیں بنانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس وقت لاہور اور ہمارے محلے کے قریب کافی کھُلی جگہیں تھیں اس لئے کوئی مشکل پیش نہیں آئی.
ریڈیو پاکستان نے فوری طور تخلیق پاکستان کے مقاصد یعنی دین اسلام کے وژن پر مبنی قومی نغمے نشر کرنا شروع کر دیا جس نے اس معرکہ میں اہم کردار ادا کیا۔ اِس وقت کے قومی نغمے ہر ایک کو مکمل طور پر یاد تھے اور عوام اس وقت کے گلوکاروں کو ان کے قومی نغموں کی وجہ سے جانتے تھے
مجھے یاد ہے کہ مشہور گلوکار مسعود رانا بھی ہمارے گھر کے نزدیک نوری بلڈنگ سے متصل گلی کرشن نگر لاہور میں رہائش پذیر تھے۔ وہ دیگر تمام گلوکاروں کے ساتھ اس کام میں پوری طرح شامل تھے ۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ ان قومی نغموں کی مقبولیت میں ہر لمحہ اضافہ ہوتا جاتا تھا ۔ مگر ایک قومی و اسلامی نغمے نے تمام امت مسلمہ کو متحد و متحرک کرنے میں واضح طور منفرد کردار ادا کیا۔ یہ نغمہ آج بھی پوری طرح سے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ یہ اسلامی قومی نغمہ عنایت حسین بھٹی نے گایا تھا اور اس کے شاعر طفیل ہوشیارپوری تھے۔
یہ نغمہ سب سے پہلے صدر ایوب خان کے خطاب کے فوری بعد نشر ہوا تھا۔
اللہ ہو اکبر اللہ ہو اکبر اللہ ہو اکبر اللہ ہو اکبر
اللہ ہو اکبر اللہ ہو اکبر اللہ ہو اکبر اللہ ہو اکبر
سر کُفر نے دیکھ اُبھارا ہے،
اسلام کو پھر للکارا ہے،
پھر کُفر مقابل ہے آیا،
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا،
اب وقت شہادت ہے آیا۔
اللہ اکبر، اللہ اکبر‘
اللہ کی رحمت کا سایہ
توحید کا پرچم لہرایا
اے مرد مجاہد جاگ ذرا
اب وقت شہادت ہے آیا
یہ نغمہ ہی نہیں تھا بلکہ یہ اس وقت کا بہت اہم ہتھیار بھی تھا۔ اللہ اکبر کے اس نعرے کی دہشت دشمن پر بہت واضح تھی۔ اس اللہ اکبر کی عظمت نے ہندوؤں پر خوف طاری کر دیا اوریہی نعرہ تکبیر اس جنگ میں اللہ سبحانہ و تعالٰی کی طرف سے مدد اور کفار پر فتح کا باعث بنا۔
مجھے یاد ہے کہ دوسرے دن کی صبح ہم اپنے اسکول کے باہر پانی کے ٹاور کی طرف جانے والی سڑک پر کھڑے تھے ، جو کرشن نگر کو پانی سپلائی کرتا تھا اور ہم نے دیکھا کہ 2 آرمی جیپیں پانی کے ٹینک کی طرف جا رہی ہیں۔ میں اور دیگر بچوں کے ساتھ ان جیپوں کے ساتھ دوڑتے ہیں اور پاکستان اور فوج کے حق میں نعرے بلند کرتے ہیں۔ جب وہ پانی کے ٹینک پر رکے اور پانی کے ٹینک کے اوپر سامان منتقل کرنا شروع کیا تو ہم نے ہلکا سامان اوپر منتقل کرنے میں ان کی مدد کی۔ انہوں نے پانی کے ٹینک کے اوپر اینٹی ایئر کرافٹ گنیں لگائیں. ایسا میری زندگی میں پہلا موقع تھا جب میں نے اس قسم کا جنگی سامان دیکھا تھا اور پہلی مرتبہ پانی کی ٹینکی کےاوپر گیا تھاجوکہ کافی بلند تھی. اس کے بعد جب بھی کوئی فضائی حملہ ہوتا تھا تو اس پانی کی ٹنکی پر موجود پوسٹ سے بھارت کے جہازوں پر فائرنگ کی جاتی تھی اور اس کے بعد انڈیا ایئر فورس کے جہاز پر آگ لگتی ہوہی بھی ہم نے دیکھی تھی اور ہم نے دیکھا کہ انہوں نے جنگ کے دوران کچھ جہازوں کو گرایا بھی تھا ۔
جنگ کے صرف 2 دن بعد سول ڈیفنس فورس کے رضاکاروں کی تربیت شروع ہو گئی۔ چونکہ میں صرف 9 سال کا تھا اس لیے میں مکمل رضاکار کی ٹریننگ کے لیے کوالیفائی نہیں تھا لیکن انہوں نے کم عمری کے رضاکاروں کی ایک اور سطح شروع کی اور مجھے اس گروپ میں شامل کیا گیا۔
مجھے سول ڈیفنس کی وردی ملی جس کی بڑی خوشی محسوس ہوئی اور ہر روز ہماری تربیت ہوتی ہے۔ یہ میری زندگی کا ایک عظیم اور اہم واقعہ تھا۔
اس کے ساتھ ھی لڑکیوں کے لیے شہری دفاع کی تربیت بھی شروع ہو گئی اور ہمارے گھر کا آنگن جو کہ کافی بڑا تھا لڑکیوں کی تربیت کے لیے منتخب کیا گیا۔
اس دوران میری بہنوں اور دیگر محلے کی لڑکیوں نے شہری دفاع کی مکمل تربیت حاصل کی۔ جو کہ روزانہ کی بنیاد پر ہوتی تھی.
اس کے ساتھ ہی لڑنے والے فوجیوں کے لیے عطیات اور دیگر اشیاء اکٹھا کرنے کی مہم شروع ہو جاتی تھی ۔ جو کہ صبح سے شروع کرتے تھے اور ہر روز اس مھم میں بہت ساری چیزیں جمع ہو جاتی ہیں جو سپلائی کے لیے مرکزی ڈپو کو پہنچانے کا اہتمام کیا جاتا تھا
یہ مہم ہمارے محلے کے منتخب بنیادی جمہوریت کے نمائندے شباب مفتی صاحب جو کہ ہمارے ہمسائے بھی تھے کی نگرانی میں کی جاتی تھی.
سارا دن تمام لوگ ریڈیو پاکستان سنتے تھے جس میں ہر لمحہ جنگ کی تازہ ترین اطلاعات دی جاتی تھی باقی وقت قومی نغمے نشر ہوتے. جو کہ عوام کے حقیقی جذبات کا اظہار ہوتے تھے. جس نے عوام کو دین اسلام پر قائم ہونے اور ایمان کی مضبوطی کو فروغ دینے کا سبب بنتی تھی۔
یہ دن میری زندگی کا سب سے جذباتی وقت تھا اور آج 59 سال گزرنے کے بعد بھی میں اس وقت پاکستان کی تخلیق کے مقصد کے لیے متحد ہو کر کھڑے ہونے کے جذبات اور اخلاص کو محسوس کر سکتا ہوں اور لوگوں کی کفار کے خلاف جہاد اور قربانی کے جذبات کی واضح مثالیں تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہے اور یہ اس بات کا اعادہ کرتا تھا کہ اللہ نے اس واقعے اور اس میں مسلمانوں کی کفار پر فتح دیکر ان تمام افراد اور حلقوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیا جو ہندوؤں سے ہمدردی اور تعلقات کو فروغ دینے کے خواہش مند تھے۔
لیکن آج جب ہم 59 سال کے بعد اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جس جگہ پر ہم کھڑے ہیں وہاں پر ھر طرف ناکامیاں اور ناامیدی کا سامنا ہے
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان وجوہات اور اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اپنا محاسبہ کریں اور تلخ ماضی و حال سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں۔
پاکستان کی تخلیق ایک معجزہ ہے اور بقول ڈاکٹر اسرار احمد ‘ قرآن میں اس کی تمثیل ان آیات میں ملتی ہے:
{ یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَـتَّقُوا اللہَ یَجْعَلْ لَّـکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ط وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ } (الانفال:۲۹)
’’اور اس حالت کو یاد کرو جب کہ تم زمین میں قلیل تھے کمزور شمار کیے جاتے تھے ‘ اس اندیشہ میں رہتے تھے کہ تم کو لوگ نوچ کھسوٹ نہ لیں‘سو اللہ نے تم کو رہنے کی جگہ دی اور تم کو اپنی نصرت سے قوت دی اور تم کوبہترین پاکیزہ رزق عطا فرمایا تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
پاکستان کا قیام کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی رحمت سے اسے ممکن بنایا۔ دراصل اس کے ذریعے ہمارے بزرگوں کے وعدے‘عزم اور عمل کو جانچنا مقصود تھا ۔
قیامِ پاکستان کی فکری بنیاد قرآن کے عظیم سکالر علامہ اقبال نے رکھی۔ ان کے دور میں پوری ملت ِاسلامیہ غلامی میں جکڑی ہوئی تھی ۔دنیاکے کسی بھی علاقے میں اسلام کانظام نافذ نہ تھا۔ دین اسلام کا کامل تصوّر ختم ہو گیا تھا اور مسلمانوں میں ذہنی غلامی اور پس ماندگی مکمل طور پر سرایت کر چکی تھی۔ دین ِاسلام مکمل طور پر مغلوب ہو چکا تھا اور مسلمانوں میں اسلام صرف مذہبی عبادات اور رسومات تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ ان حالات میں علامہ اقبال کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطا کی کہ وہ مسلمانوں کو بھولا ہوا سبق یاد دلا کر ان میں اسلام کے غلبے اور عظمت کو بحال کرنے کا عزم پیدا کریں۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو نہ صرف ان کے زوال کی وجوہات سے آگاہ کیا بلکہ اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ بھی دکھایا۔انہوں نے اپنا پیغام اردو اور فارسی میں شاعری اور نثر کی صورت میں پیش کیا اور دین اسلام کے احیاء و نفاذ کے لیے عملی لائحہ عمل فراہم کیا۔ اس کو اللہ سبحانہ و تعالٰی نے کی قیادت میں کامیابی سے ہمکنار کیا۔
اورآخر کار ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو دنیا کے نقشے پر قائد اعظم کی قیادت میں مملکت پاکستان کا ظہور ہوا ۔اس جدّوجُہد میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان‘ عزت اور جائیداد کی قربانی دی۔ اس موقع پر جو ہجرت ہوئی وہ تاریخ ِانسانی میں اپنی مثال آپ ہے ۔ اسے ’’ہجرتِ مدینہ الثانیہ‘‘ کا نام بھی دیا گیا کیونکہ یہ پاکستان میں دین ِاسلام کے قیام کے لیے ہوئی تھی۔اس حوالے سے ہزاروں واقعات ہماری قومی تاریخ کا ناقابلِ فراموش حصہ ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد نئے ملک کی بقا بھی ایک اہم مسئلہ تھا جس کے لیے بڑی جدّوجُہد کی گئی۔ تقسیم کے وقت زیادہ تر وسائل ہندوستان نے روک رکھے تھے۔ قائداعظم قیامِ پاکستان کے صرف ایک سال بعد فوت ہو گئے۔ پاکستان کے حصے میں جو بھی سول اور ملٹری بیوروکریسی آئی‘ پاکستان یا اسلام سے انہیں کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ ان کا واحد مقصد ریاست کے کمزور نظام کو اپنے قابو میں لانا اور حکومت پر اپنا اقتدار قائم کرنا تھا۔قیامِ پاکستان کے بعد کے واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ کس طرح اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے اور آخر کار ۱۹۵۸ء میں فوجی اداروں کے ذریعہ مطلق اختیارات حاصل کر لیے۔ المیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اکابرین کو کنارے لگا دیا گیا۔یوں آہستہ آہستہ تمام ریاستی امور پر لالچی اور مفاد پرست عناصر کا مکمل غلبہ ہو گیا۔
یہ تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ ہم سب اللہ کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں کو مکمل طور پر بھول گئے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ اللہ کی نافرمانی بڑھتی گئی اور ہم بحیثیت قوم شرک ‘ سود ‘ انسانی استحصال پر مبنی نظام کو مضبوط بنانے میں لگ گئے ۔ قیام پاکستان کے بنیادی مقصد یعنی دین اسلام کے نفاذ کو مکمل طور پر بھلادیا گیا۔ اس طرح ہم اللہ کے عذاب کے مستحق قرار پائے۔
اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ہمیں زبان ‘ فرقے ‘ سماجی اور علاقائی حدود کی بنیاد پر تقسیم کر دیا‘ جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔تاآنکہ۱۹۷۱ءمیں ایک بڑی شکست دے کر اور اس ملک کو دو حصوں میں توڑ کر متنبہ کیا گیاکہ ہم اللہ کے عذاب سے بچنے کی ترکیب کریں اور اس سے کیے گئے وعدے کو مکمل کریں۔بد قسمتی سے ہم نے آج تک۱۹۷۱ءکی شکست سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اللہ کی نافرمانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اللہ کی نافرمانی آج اپنی انتہا کو پہنچ رہی ہے اور بہت تیزی سے ہم انحطاط کے جانب گامزن ہیں ۔ جو اللہ کی ناراضگی کا باعث بن سکتا ہے اور ناکامیوں ہمارا مقدر بن سکتی ہیں ۔
آج اس بات کا قوی امکان ہے کہ اللہ اپنی ناراضگی کا اظہار کسی بڑے سانحے کی شکل میں نازل کر دے۔ اس سے بچنے کے لئے ہمیں آج پورے عجز و انکساری کے ساتھ اللہ سے معافی مانگنے اور اللہ کی راہ پر گامزن ہونے کا عزم کرنے کی ضرورت ہے ۔
آج 6 ستمبر کا دن ہم کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لیتے ہوئے پھر سے اس عظیم جذبے کو زندہ کرنے کا عزم پیدا کریں جو کہ اللہ اکبر کے اس تاریخی نغمے کی عملی تصویر بن سکتا ہے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دیں اسلام کے نفاذ کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنے کی ہمت عطا فرمائے جو ہم سب کے روز قیامت کے دن کامیابی کا سبب بنے۔ آمین ثم آمین۔

0 Comments