Header Ads Widget

گیلپ سروے یا گپ سروے: ایک برس قبل لکھا گیا مضمون اکتوبر 2، 2023

 ماضی کے جھروکوں سے 




تحریر: ممتاز ہاشمی 


دنیا بھر میں اکثر اوقات مختلف ادارے اور فرمز عوامی رائے پر مبنی سروے کرتے ہیں اور ان کے لیے کچھ ضوابط مرتب کئے جاتے ہیں تاکہ ان کی شفافیت برقرار رکھی جائے اور ان کے منتخب کردہ ماڈل کو حقیقی رائے عامہ کا مظہر بنایا جا سکے۔ ان تمام ممالک جن میں ادارے مضبوط ہیں یہ سروے عمومی طور پر سچے ثابت ہوتے ہیں اور رائے عامہ کی مجموعی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کے اکثر سیاسی سروے جو انتخابات کے مواقع پر کئے جاتے ہیں ان کی سچائی ان کے انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتی ہے اسطرح سے ان سروے کرنے والے اداروں اور فرمز کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
اس کے برعکس ان ممالک میں جہاں پر ادارے کمزور ہوتے ہیں وہاں پر ہر کام میں جھوٹ اور بد دیانتی نمایاں طور پر سامنے آتی ہے اسلئے پاکستان میں ہونے والے اکثر سروے کسی خاص مقصد اور ایجنڈے کے تحت کہے جانے ہیں اور ان میں صرف جھوٹ اور بددیانتی ہوتی ہے جو ہماری مجموعی قومی کردار کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔ اسلئے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ پاکستان میں انتخابات کے موقع اور مناسبت سے آجتک کے جو بھی سروے شائع کئے گئے ہیں ان کی نفی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہو جاتی ہے ۔
اس سے اس بات کی مکمل وضاحت ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں ان سروے کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ صرف چند مفاد پرست عناصر کے مفادات کے تحفظ کیلئے کئے جاتے ہیں اسی وجہ سے عوام نے کبھی بھی ابن سروے کو قابل غور نہیں سمجھا اور نہ ہی ان پر اعتماد کیا ہے 
ان حقائق کی روشنی میں حالیہ گیلپ کے سروے کو دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ انتہائی جھوٹ اور حماقت انگیزی پر مبنی سروے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
صرف 2000 لوگوں کی رائے کو کوئی بھی 25 کروڑ عوام کی رائے پر مبنی قرار دینا انتہائی حماقت ہے اور اس میں سب سے بڑا فراڈ تو یہ ہے کہ اس میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا موازنہ سیاسی جماعتوں سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو اس سروے کے نیت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اس سروے کا وقت 2023 کے شروع کا ہے اسوقت ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں تقسیم واضح طور پر نظر آ،رہی تھی جس کا اندازہ 9 مئی کی بغاوت کی کوشش سے کیا جا سکتا ہے اسوقت عوام میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ماضی کے سیاسی کردار کے بارے میں واضح رائے ظاہر ہو رہی تھی جس نے 2018 کی الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے عمران خان کو اقتدار پر براجمان کیا تھا۔ اسلئے اس وقت کے دوران ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی عوامی حمایت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگرچہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مقبولیت میں اضافہ اسوقت دیکھنے میں آیا جب اس نے 9 مئی کی بغاوت کو کچل کر اس میں ملوث عناصر کے خلاف سخت اقدامات کرنے شروع کئے گئے۔
دوسری طرف اس سروے میں سب سے بڑا جھوٹ عمران خان کی مقبولیت کو سرفہرست دکھایا گیا ہے جو اسوقت عوام میں اپنے اقتدار کے دوران کی گئی بدعنوانی کے منظر عام پر آنے سے بہت گر چکی تھی۔
سروے کے شرکاء پاک فوج کی بھی تعریف کر رہے ہوں اور اس عمران خان کی بھی جو فوج کو محض آئینی طور پر اپنا نیوٹرل کردار ادا کرنے پر جانور کہتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گیلپ نے ملک بھر میں ایسے سیمپل، دریافت کئے جو بیک وقت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بھی معترف ہیں اور اس کو جانور کا خطاب دینے والے کے بھی۔
ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سروے میں بلاول بھٹو کا ذکر تک نہیں ہے جو کہ ملک کی دوسری یا تیسری بڑی پارٹی کے رہنما ہیں اور ان کی مقبولیت میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
سندھ میں آج بھی پیپلزپارٹی سب سے بڑی جماعت ہے مگر یہاں پر بھی پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ مقبول جماعت ظاہر کیا گیا ہے۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں اس خو گیلپ سروے کے بجائے گپ سروے کہنا درست ہوگا۔
اسلئے یہ سب فراڈ پر مبنی سروے ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر آرمی کی مقبولیت عروج پر ہے تو عمران خان کی مقبولیت تو صفر ہونی چاہیے تھی کیونکہ دونوں ایک ہی وقت میں ٹاپ پر نہیں ہو سکتے۔ لگتا ہے کہ یہ سروے ان استحصالی قوتوں نے ترتیب دیا ہے جو دوبارہ سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں ملوث کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ 
مگر آج عوام میں شعور اور آگاہی کی وجہ سے یہ استحصالی طبقات اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے اور پاکستان آنے والے دنوں میں بہتری اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔

Post a Comment

0 Comments