Header Ads Widget

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بھیانک اثرات ۔ ماضی کے جھروکوں سے ۔ دو برس قبل لکھا گیا

 


 

اکتوبر 10،  2022

تحریر: ممتاز ہاشمی 

دنیا میں گزشتہ دہائی سے اس بات کا تذکرہ اور خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ تیز رفتار انڈسٹریل ڈولپمنٹ اس کرہ ارض کے لیے گلوبل وارمنگ کے مسائل پیدا کر رہی ہے اور یہ کسی بھی وقت خطرناک ماحولیاتی تبدیلی کی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہے اور اس گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کیلئے تحقیق پر زور دیا جا رہا تھا مگر دنیا کے بڑے انڈسٹریل امپائرز محض لالچ اور ہوس کی وجہ سے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات کرنے سے گریز کرتے رہیں اور اس کرہ ارض کو خطرناک بحران میں مبتلا کرنے میں مصروف رہے اگرچہ اقوام متحدہ اور دیگر تنظیموں نے ان ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے  ان کو راغب کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔

آج اس ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کا پہلا سب سے بڑا شکار پاکستان ہوا ہے یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ آج پاکستان تاریخ کے بدترین سیلاب،  بارشوں جیسے قدرتی آفات میں گھرا ہوا ہے اور پاکستان کے عوام کی اکثریت اس سے شدید متاثر ہیں۔ حکومت اور غیر حکومتی ادارے اور انٹرنیشنل کمیونٹی اس نازک موقع پر پاکستان کی امداد کیلئے کام کر رہیں ہیں اس سے سب سے زیادہ متاثرین غریب عوام ہیں جو کی اپنی چھت اور مال و جانوروں سے محروم ہو چکے ہیں ان کو دوبارہ سے بحالی ایک بہت بڑا کام ہے جس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے اور صاحب ثروت لوگوں کی امداد کی اشد ضرورت ہے اگرچہ ملک میں  خوف خدا رکھنے والے لوگ اس نازک مرحلے پر اپنے تمام تر اختلافات کو وقتی طور پر بھول کر ان امدادی کارروائیاں میں مصروف ہیں۔

پاکستان کی تیس فیصد سے زائد علاقے پر اس کے بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ساڑھے تین کروڑ سے زائد آبادی اس سے شدید طور پر متاثر ہوئی ہے اور باقی آبادی پر اس کے اثرات بھی منتقل ہو رہیں ہیں جو کی اناج اور دیگر اشیاء میں کمی اور قیمتوں میں اضافہ کی شکل میں ظاہر ہو رہیں ہیں جو وقت کے ساتھ مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں 

پوری دنیا پاکستان میں ہونے والی اس تباہی کو انتہائی اہمیت دے رہی ہے واضح رہے کہ پاکستان کا حصہ اس ماحولیاتی آلودگی میں نہ ہونے کے برابر ہے مگر اس کے اثرات سے صرف وہ ہی شدید طور پر متاثر ہوا ہے 

اس مرحلے پر موجودہ حکومت نے انتہائی محنت اور لگن سے اپنا کیس دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور دنیا کو اس بات پر قائل کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں کی اس ناگہانی آفات کی ذمہ داری دنیا قبول کرے اور پاکستان کو اس بحران سے نمٹنے اور بحالی کے کاموں کے لیے دنیا اپنا کردار ادا کرے۔

واضح رہے کہ اگر اس قسم کی صورتحال کا سامنا دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کو بھی کرنا پڑے تو وہاں پر بھی تباہی کی صورتحال مختلف نہ ہوتی بس ان کے ہاں موجود انفراسٹرکچر اور صلاحیتوں کی بناء پر اس کی شدت میں کسی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے 

اگرچہ ابتدائی طور پر نقصانات کا تخمینہ تیس بلین ڈالرز لگایا گیا ہے جو کہ اس سے بھی بہت زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس مرحلے پر اس کا مکمل طور پر ادراک ممکن نہیں ہے 

پاکستان جو کہ پہلے ہی انتہائی مالی بحران سے دوچار تھا اس سے نمٹنے کیلئے حکومتی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اور صرف دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک جو کہ اس ماحولیاتی آلودگی کے براہ راست زیادہ زمہ دار ہیں اس میں اپنا مکمل حصہ ڈالیں۔

لیکن سب سے پہلے یہ پاکستان کی  اشرافیہ اور مالی طور پر مضبوط طبقات کا ہے کہ وہ اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں 

مگر انتہائی شرم اور افسوس کا مقام ہے کہ اس نازک مرحلے پر بھی پاکستان کی اشرافیہ اور اعلی طبقات اس میں کوئی خاص حصہ نہیں لے رہے ہیں اور آج بھی اپنی عیاشیوں اور فضول خرچیوں میں مصروف ہیں یہ بے حسی کی انتہائی صورت حال ہے۔ ہمارے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اپنے آپ کو ان متاثرین کے ساتھ کھڑے ہونے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں 

ان وجوہات کی بناء پر ان متاثرین کی بحالی میں رکاوٹیں کھڑی ہو رہیں ہیں اور وہ مزید مشکلات اور بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں  جس کی بناء پر ان متاثرین میں شدید قسم کا احساس محرومی پیدا ہو رہا ہے جو کہ ملک کے لیے مستقبل میں انتہائی  خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے 

یہ ہم جو خود کو مسلمان بھی کہلاتے ہیں ان کے لئے انتہائی دکھ اور شرم کا مقام ہے اور لگتا ہے کہ اللہ پر ایمان اور خالق کو جواب دہی کا احساس مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے 

ان حالات میں اج اگر ہم پاکستان ہی میں موجود ایک اقلیت پارسی کمیونٹی کے رویے پر کریں تو ہمیں اپنے آپ کو مسلمان،  پاکستانی اور انسان کہلانے میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا پارسی پاکستان میں بہت ہی کم ہیں مگر انکے فلاحی اداروں اور کاموں کی فہرست بہت طویل ہے اس کمیونٹی نے اپنے مذہبی تہوار نوروز کی تقریبات کو منسوخ کر دیا اور اس پر ہونے والے تمام اخراجات ملک میں ناگہانی آفات سے متاثرین کو دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ رویہ ہمارے لئے سوچنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر یقین رکھتے ہیں یا صرف ہم باتوں تک محدود ہیں اور ہمارے عمل مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے خلاف ہیں اور ہماری تمام تر کوششیں اور وسائل اپنے آپ کو مزید نمایاں حیثیت حاصل کرنے میں جاری ہیں۔ جس کا نتیجہ ہم آخرت میں اپنے لیے مزید رسوائیوں کا سامان فراہم کر رہیں ہیں۔

اللہ ہم سب کو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عملدرآمد کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

Post a Comment

0 Comments