اکتوبر 17، 202ت
حریر: ممتاز ہاشمی کینیڈا
آجکل عدالتی اصلاحات کے لیے آئین میں ترامیم موضوع سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے اور اس سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں نے پیش رفت کی ہے تاکہ اس پر زیادہ سے زیائدہ اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔
اور مختلف تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد عدلیہ کو اپنے آئینی دائرہ اختیار میں لانا ہے جس سے عوام کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں دور کی جا سکیں اور عدلیہ جو ہمیشہ سے ملک میں جمہوری نظام کو ناکام بنانے کیلئے کام کرتی آ رہی ہے اس کو اس غیر آئینی کام سے روکنے کا اہتمام کیا جا سکے
اس کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے ماضی اور حال کو دوبارہ سے ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ عدلیہ نے ہمشہ ملٹری ڈکٹیٹروں کے غیر آئینی اقدامات کو قانونی تحفظ دیا بلکہ اس نے ان ڈکٹیٹروں کو آئینی ترمیم کرنے تک کی اجازت دی۔ جس کاان کو خود بھی اختیار نہیں ہے
ان تمام حقائق کو سمجھنے کے لئے پاکستان کی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ لیتے
پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں نہ اسٹیبلشمنٹ اور نہ ہی عدلیہ کا کوئی کردار تھا ۔
ان کو پاکستان کے قیام کے مقصد سے کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ ان کا پاکستان کو ترجیح دینے کا واحد مقصد ہی اس نئی اور بنیادی ڈھانچے سے محروم ملک کو اپنے قبضے میں لینے تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کو انڈیا میں ان خو اس بات کا ادراک تھا ان کو بھارت میں ایسا
کوئی موقع میسر نہیں آئے گا جس کی وجہ وہاں پر ان اداروں میں مختلف قومیتوں کی موجودگی اور اداروں کے بنیادی ڈھانچے کی موجودگی تھے ان کا اسلام کے کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ انھوں نے اپنے برطانوی آقاؤں کے لیے مسلمانوں کی تحریکوں کو کچلنے کے ہر کام کیا تھا جس کے عوض انھوں نے مختلف انعامات اور جاگیرے حاصل کئے تھے
انہوں نے پہلے دن سے قائداعظم اور مسلم لیگ کی قیادت میں سیاسی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی انتہائی کوششیں کیں ۔ جوکہ قائداعظم کی پراسرار حالات میں ہونے والی موت اور ان کے گرد گردش کرتے حالات و واقعات میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے قائداعظم کی جلد موت سے ان کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں بہت مدد ملی۔ اس کے بعد جب لیاقت علی خان نے حالات پر قابو پالیا اور بالآخر قرارداد مقاصد منظور ہوئی۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل تھا اور اس نے قرآن و سنت پر مبنی ریاست کی آئینی تشکیل کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔ اسے کو روکنے کے لیے ان قوتوں نے مل کر ایک سازش کی اور لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا ۔ اس کے بعد فوجی اور سول اداروں کو آزادی سے ملکی معاملات میں کنٹرول کرنے کاموقع فراہم ہو گیا اور انہوں نے اپنے غیر قانونی ذرائع سے سیاسی و جمہوری نظام اور قوتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ بالآخر 1954 میں گورنر جنرل نے اسمبلی کو تحلیل کر دیا اور چیف جسٹس منیر نے اس کی توثیق کی۔ اس نے نظریہ ضرورت کے ایک ایسے غیر آئینی و غیر قانونی نظریہ کی بنیاد رکھی جس کو کسی بھی مہذب معاشرے میں مثال کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا اور اسطرح سے عوام کی منتخب کردہ اسمبلی کی غیر آئینی تحلیل کی توثیق کی۔
وہ دن پہلا دن تھا جب پاکستان کے دو حصوں کے درمیان دراڑ پڑہنے کی بنیاد رکھی گئی تھی اور مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا فرق ابھر کر سامنے آیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کی اکثریت کو یہ تاثر ملا کہ پاکستان کے معاملات میں ان کا کوئی اختیاراور کردار نہیں اور تمام اختیارات سول اور فوجی اداروں کے پاس ہیں جنکی اکثریت مغربی پاکستان کا سے تھیں ۔
اس کے بعد 1958 میں آمر ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کر کے تمام اداروں اور عدلیہ کو فوج کے تابع کر دیا اور اس کے بعد سے تمام عدلیہ اور سول ادارے پاکستان میں ان فوجی ماتحتوں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ چاہے وہ مکمل اور ننگی آمریت ہو یا جزوی سول حکومت، ہر بار فوجی ادارے زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرکے تمام شعبوں میں اپنی گرفت مضبوط کرتے ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 1965 کے صدارتی انتخابات میں عوام نے ایوب خان کے خلاف ووٹ دیا لیکن دھاندلی کے ذریعے نتائج ایوب خان کے حق میں تبدیل ہوے۔ اس وقت شیخ مجیب الرحمن فاطمہ جناح کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے۔ یہ تاریخ کا اہم موڑ تھا اور مشرقی پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی اور آخر کار انہوں نے پاکستان سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کے ٹوٹنے کی تمام تر ذمہ داری فوجی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ جو کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے اس کے بعد جب بھی سول حکومت نے فوجی اداروں کو کنٹرول کرنے اور ان کو اپنی آئینی حدود میں رکھنے کے کوشش کی اور ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے اور پاکستان کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ تو ان فوجی اداروں کی طرف سے شدید مخالفت کی گئی اور اخرکار یہ ہر جمہوری حکومت کو نظریہ ضرورت کی چھتری تلے عدلیہ کی فعال اور گندی شرکت سے بیدخل کر دیتے رہے ۔
اس سلسلے میں عسکری ادارے مقبول قیادت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے مختلف سیاسی کٹھ پتلی گروپس اور جماعتیں تشکیل دیتے ہیں۔ اس لیے ہر وقت سیاسی مقبول قیادت اسٹیبلشمنٹ کی ان سازشوں کو ناکام بنانے آور حکومت کو غیر مستحکم ہونے سے بچانےمیں مصروف رہتی ہے اور یوں اپنے پروگرام اور فلاحی ایجنڈوں کو نافذ کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اس سے ملک کی معیشت اور وسائل ڈوبتے ہیں اور معاشرے میں کرپٹ کلچر کو جنم دیتا ہے۔ اگرچہ تمام مقبول قیادت فوجی اداروں کو چیلنج کرتی ہے لیکن ان کرپٹ اداروں نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا۔ انہوں نے کرپٹ عدلیہ کی مدد سے بھٹو کو پھانسی دی۔ اب یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھٹو کو سزائے موت کا حکم دینے والے چیف جسٹس اور دوسرے ججوں نے اعتراف کیا کہ یہ فوجی آمر کے دباؤ پر کیا گیا۔ ہماری تاریخ میں بہت کم ایماندار جج ہیں جنہوں نے دباؤ کا مقابلہ کیا اور اسٹیبلشمنٹ کا حصہ نہیں بنے۔
اب یہ ایک کھلا راز ہے کہ عسکری ادارے اور عدلیہ دونوں مقبول قیادت کو ختم کرنے اور حکومت پر اپنی کٹھ پتلیوں کو مسلط کرنے کے ایجنڈے پر متحد کام کرتے رہے ہیں ۔
ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے 90 دن میں الیکشن کروانے کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی اور عدلیہ نے اس غیر آئینی کام خو تحفظ فراہم کیا اور طویل عرصے کے بعد بھی غیر سیاسی بنیادوں پر الیکشن کروائے۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ عسکری ادارے مقبول سیاسی قیادت سے خوفزدہ تھے۔ ان انتخابات نے فرقوں، برادریوں، زبانوں اور جغرافیائی حدود کی بنیاد پر لوگوں میں تقسیم پیدا کرنے کا ایک بھرپور کردار ادا کیا۔ اور لوگوں کے درمیان نسلی، اور صوبائیت کو فروغ دیا۔
اس آمریت کے دوران آئین کو اس کی اصل روح سے مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا۔ آرٹیکل 58-2B ضیاء الحق نے متعارف کرایا، جس نے آئین کو وفاقی پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا۔ یہ صدر کو منتخب اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا مکمل اختیار دیتا ہے۔ یہاں تک کہ ضیاء الحق نے اپنے ہاتھ سے چنی ہوئی غیر سیاسی اسمبلی کو برداشت نہیں کیا اور اپنے ہی وزیر اعظم جونیجو کوصدارتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوےاس کی حکومت کو تحلیل کر دیا۔
ضیاء کی موت کے بعد اگرچہ سیاسی جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے لیکن فوجی اداروں نے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے قائم ہونے والی حکومتوں پر اپنا قبضہ جمائے رکھا۔ انہوں نے اس صدارتی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے 88 سے 96 تک کئی بار اسمبلیاں تحلیل کیں اور بالآخر 97 میں تمام سیاسی جماعتوں نے آئین میں ترمیم کی اور آئین سے آرٹیکل 58-بی2 بی کو ہٹا دیا۔ اب فوجی اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں پر اپنا ایجنڈا ڈکٹیٹ کرنے کے قابل نہیں تھی اس لیے انہوں نے 1999 میں مشرف آمر کے ذریعے دوبارہ غیر آئینی طور پر ملک پر قبضہ کرلیا۔ اس مرحلے پر سپریم کورٹ نے ایک بار پھر غیر آئینی آمریت کو قانونی تحفظ دے کر اور آمر کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دے دی جس کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس خود بھی نہیں تھا ۔ یہ سپریم کورٹ کی طرف سے سب سے بڑی غیر قانونیت تھی جس کے پاس خود آئین میں ترمیم کا کوئی اختیار نہیں ہے وہ ڈکٹیٹر کو اس میں ترمیم کی اجازت کس طرح دے سکتی ہے۔ آمریت علاقائی اور فرقوں کی سیاست کو لوگوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے فروغ دیتی ہے تاکہ طاقتوں پر ان کا کنٹرول مضبوط ہو۔ یہ ان لوگوں کے درمیان مزید انتشار کا باعث بنتا ہے جس کا فائدہ استحصالی طبقات کو پہنچتا ہے اور عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے
یہ جاننا ضروری ہے کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء سے پہلے سیاست میں کرپشن کا دور بہت کم تھا۔ لیکن یہ آمریت ہے جس نے سیاست میں کرپشن کو فروغ دیا اور زمینوں کی الاٹمنٹ کی سیاست کو سیاسی حمایت حاصل کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ مختلف مقامی حکام اور سول ادارے آمریت کے مقاصد کے حصول میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے سیاسی شخصیات کو زمینیں/پلاٹ اور ٹھیکے الاٹ کیے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اور اپنے خاندانوں کے لیے فوائد حاصل کیے۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ کے ڈی اے، ڈی جی، نظامی کو آمر ضیاء نے اپنی وفادار سیاسی شخصیات اور دیگر کو زمینوں کی الاٹمنٹ کے لیے من مانے طور پر استعمال کیا۔ اس طرح بدعنوانی آمریتوں میں ہماری سیاست کا اہم ترین حصہ بن گئی۔ سیاسی حکومت کے دور میں یہ کرپشن پروان چڑھی کیونکہ یہ حکومتیں اس پر قابو نہیں پا سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حکومتیں صرف اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں پر نظریں جمائے رکھنے پر مرکوز تھیں اور اس طرح وہ اپنے اصلاحات اور فلاحی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی۔
ایک طویل عرصے کے بعد ان سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ سے نمٹنے کے لیے اپنے اتحاد کی اہمیت کا احساس ہوا اور آخر کار انہوں نے 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کر دیے۔ اس کے تحت اہم سیاسی جماعتوں نے کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت اور انہیں اپنے دائرے میں رکھنے کا معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے میں عدالتی اصلاحات کا ایجنڈا بنیادی اہمیت کا حامل تھا جس سے عدلیہ کو ڈکٹیٹروں کو غیر آئینی تحفظ فراہم کرنے سے روکنے کا اہتمام کرنا تھا۔
2008 میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ نے طویل غور و خوض کے بعد آئین میں 18 وہی ترامیم کو متفقہ طور پر منظور کیا اور 73 کے آئین کو اس کی اصل وفاقی روح میں بحال کیا گیا۔ مگر اس موقع پر دوبارہ سے عدلیہ نے غیر آئینی طور پر پارلیمنٹ کے متفقہ طور پر منظور کردہ آئینی ترامیم کو ناکام بنانے کیلئے دھمکی دی اور عدلیہ سے متعلقہ ترامیم کو نکالنے کا حکم دیا۔ جس کو مجبوراً قبول کرنا پڑا۔
ان حالات میں منتخب حکومت کو اپنے قبضے میں لینے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کو پھر سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ عدلیہ نے اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر منتخب وزرائے اعظم کو معزول کیا۔ وزیراعظم کو ہٹانے کا واحد راستہ آئین میں موجود ہے اور وہ صرف قومی اسمبلی کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی ہے۔ لیکن عدلیہ نے گزشتہ 10 سالوں میں دو وزرائے اعظم کو آرٹیکل 184 کے تحت سوموٹو ایکشن لے کر ہٹا دیا۔ جو کہ عوامی حاکمیت کی نفی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔
حالیہ تاریخ شاہد ہے کہ کس طرح فوجی اداروں نے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا کے ذریعے عمران خان کو پروموٹ کیا اور اس کے بعد تمام سول اور فوجی اداروں نے 2017 میں غیر قانونی طور پر نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے عدلیہ کا استعمال کیا۔ اور اسےعدلیہ کے ہاتھوں سلاخوں کے پیچھے بھج دیا۔ اسکے باوجود وہ نواز شریف کی مقبولیت میں کمی نہ کرسکے آخری حربے کے طور پرانہوں نے انتخابی نتائج چرانے کی پوری کوشش کی اور 2018 کے انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری میں ملوث رہے۔ ان تمام کاوشوں کے باوجود اسٹیبلشمنٹ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی اور پنجاب میں نواز شریف کو واضح طور پر برتری حاصل ہوئی۔ اس مرحلے پر انہوں نے مختلف لوگوں کو لالچی اور رشوت کے ذریعے اکٹھا کر کے ایک کھٹ پتلی حکومت تشکیل دی۔
اس نااہل اور کرپٹ حکومت نے پاکستان کے عوام پر ایک عزاب کی طرح نازل ہوئی۔ اور اس نے ملک کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا معاشی طور پر ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب پہنچ گیا اور عوام کو مہنگائی و بے روزگاری کا شدید سامنا کرنا پڑا۔ عالمی سطح پر ملک تنہائی کا شکار ہو گیا اور تمام محاذوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس موقع پر اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اپنی رحمت سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں احساس بیداری پیدا کیا اور انہوں نے اپنے آپ کو سیاست سے دستبردار کرنے کا فیصلہ کیا اگرچہ اس فیصلے کی مخالفت بھی کافی مضبوط تھی جس کا اظہار بعد میں رونما ہونے والے واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
بہرکیف اللہ کی رحمت سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی قیادت جنرل عاصم منیر کو مل گئی اور انہوں نے ملک کو صحیح سمت گامزن کرنے میں ایم کردار ادا کرنا شروع کیا جس کی مخالفت میں ان کو 9 مئی جیسی بغاوت کا سامنا بھی کرنا پڑا جو پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد واقعہ ہے۔
ان تمام واقعات و حالات میں عدلیہ مکمل طور پر باغیوں کی آلہ کار بنی رہی اور ان کو تحفظ فراہم کرنے کا بندوبست کرتی رہی ہے۔
اگرچہ قاضی فائز عیسٰی کے چیف جسٹس بننے کے بعد انہوں نے عدلیہ میں اصلاحات کی ہیں مگر اس کو ناکام بنانے کیلئے عدلیہ میں موجود " کالے بھونڈوں " نے ان کا ناکام کرنے کے لئے سرگرم عمل رہے ہیں۔
اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ "کالے بھونڈوں" کی اکثریت عدلیہ میں تعیناتی کا عمل کیسے ہوتا ہے تو اس کے لیے پاکستان کے عدالتی نظام کو دیکھنے کی ضرورت ہے جہاں پر اعلی عدلیہ میں تعیناتی کا کوئی خاطر خواہ معیار نہیں ہے اور مختلف وکلاء کے چیمبز اس نظام میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں جن کے افراد ہائی کورٹس صاور سپریم کورٹ میں تعینات ہوتے آ رہے ہیں اور اس میں کلیدی کردار ججز کا ہی ہے اسطرح سے عدلیہ میں ججز ہی خود کو تعینات کرتے چلے آ رہے ہیں اور اس میں پارلیمنٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی اس تعیناتی میں کوئی شفافیت ہوتی ہے۔
بلکہ مختلف چیمبز ملکر اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مستقبل میں ہمیشہ ہی ان کے لوگ چیف جسٹس کے عہدوں پر براجمان رہیں تاکہ وہ عدلیہ میں اپنی من مانی کرتے رہیں۔
ان وکلاء چیمبز کی اکثریت نے ہمیشہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر کام کرنے کو ترجیح دی ہے اور انہوں نے عوام کو انصاف کے حصول سے محروم رکھا ہے۔
آج چالیس لاکھ سے زائد کیسز کے زیر التوا اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ عدلیہ اپنے بنیادی مقصد میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
اگر ان وکلاء چیمبز کا جائزہ لیا جائے تو ان کی آمدن کروڑوں میں ہے جو کہ ڈکلیر ہے ورنہ یہ اربوں میں ہے۔
یہ حکومت کو مالی نقصان پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے کھربوں روپے کے ٹیکس کیسز عدالتوں میں زیر التوا رکھنے میں اب وکلاء چیمبرز اور عدلیہ میں موجود " کالے بھونڈوں " کا گٹھ جوڑ مکمل طور پر عیاں ہے۔
اس کا اندازہ ماضی قریب میں جو آڈیوز سامنے آئی تھیں ان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس میں بیرسٹر عابد زبیری سیاسی کیس کو ایک مخصوص جج کے پاس لگانے کا کہہ رہے تھے اور دوسری میں چوہدری پرویز الٰہی جسٹس مظاہر علی نقوی کو ٹرک ( ایک ارب روپے) پہنچانے کا کہہ رہے تھے۔
ان تمام حقائق اوع واقعات کے تناظر میں آج جمہوری قوتوں نے عدلیہ میں ججز کی تقرری اور آئینی معاملات کے لیے الگ سے عدالتی اصلاحات کا ترامیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امید ہے کہ جلد ہی یہ ترامیم پارلیمنٹ سے منظور ہو جائیں گی اور اسطرح سے عدلیہ کو اس کے اصل مقصد یعنی عوام کو انصاف کی فراہمی کے بنیادی کام پر گامزن کر دیا جائے گا اور اس کو اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہوئے جمہوری نظام اور انتظامیہ کے معاملات میں غیر قانونی مداخلت سے روکنے کا اہتمام ہو جائے گا۔

0 Comments