Header Ads Widget

عوامی جمہوری قوتوں کی عظیم کامیابی

 


اکتوبر 21، 2024

تحریر: ممتاز ہاشمی 


آج پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک یادگار اور پرمسرت لمحہ ہے جب پاکستان کی پارلیمنٹ نے عوامی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے اہم ترین قدم اٹھایا ہے۔
آج نہ صرف عدالتی اصلاحات کے بارے میں ایم آہینی ترامیم پارلیمنٹ نے پاس کی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ دین اسلام کے اہم ترین مسئلے کے حل کیلئے انقلابی اقدامات شامل ہیں ۔
پاکستان کی تخلیق کے بعد جلد ہی قائد اعظم کی وفات ہو گئی اور اس کے بعد ان قوتوں کو اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے میں کامیابی حاصل ہونے لگی۔
ان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سول بیوروکریسی کا اہم کردار تھا جن کا پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں نہ کوئی کردار تھا بلکہ یہ قابض برٹش سرکار کے لیے کام کرنے تھے اور قیام پاکستان کو ناکام بنانے کیلئے برٹش سرکار کے ایجنڈے پر عملدرآمد کرتے رہے تھے۔
پاکستان میں ان کے لئے اقتدار پر قبضہ کرنا آسان تھا کیونکہ اس نوزائیدہ مملکت کے پاس کوئی مضبوط سیاسی ڈھانچہ موجود نہیں تھا اور مسلم لیگ اس قابل نہیں تھی کہ وہ ان ریاستی اداروں کی سازشوں کا مقابلہ کر سکے۔
ان اداروں کی سازشوں کو اسوقت کامیابی حاصل ہوئی جب عدلیہ کے بھیانک کردار جسٹس منیر نے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور اسطرح سے ملک میں غیر آئینی طور پر ملٹری آمریت کو تحفظ فراہم کرنے کا بندوبست کیا۔ اس فیصلے کو عدلیہ کی تاریخ میں سیاہ ترین فیصلے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب آئین لی بالادستی کا حلف آٹھانے والے جج نے اپنے حلف سے غداری کرتے ہوئے ایک غیر آئینی " نظریہ ضرورت" کی بنیاد رکھی۔
اسطرح سے ملک میں جمہوریت کو دفن کرنے اور ملٹری ڈکٹیٹروں کی راہیں ہموار کی۔
اس کے بعد کی تمام تاریخ میں اس عدلیہ نے ہمیشہ اپنے حقیقی کردار سے روگردانی کرتے ہوئے غیر آئینی قوتوں کے ایجنڈے پر کام کیا۔
اسطرح سے ملک میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ، سول بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ ایک نیا عدالتی/ وکلاء چمبرز مافیا وجود میں آیا۔ اس مافیا نے اسقدر طاقت حاصل کر لی کہ یہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک بہت بڑا حصہ بن گیا اس سے ریاست پاکستان خو شدید نقصان پہنچا اور عوام کو انصاف کی فراہمی بھی مکمل طور پر ختم ہو گئی۔
 یہ عدلیہ/وکلاء چمبرز کا مافیا نے پاکستان کے استحصالی طبقات کو تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ان کو غیر قانونی طور پر عدلیہ سے ریلیف فراہم کرنے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔
اس وقت بھی کھربوں روپے کے ٹیکس کیسز عدالتوں میں سالون سے زیر التوا ہیں اور اس کے عوض یہ مافیا ان سے کروڑوں روپے وصول کرتا ہے جس کا اندازہ ان وکلاء چیمبرز کی ڈکلیر آمدن سے ہی لگایا جاسکتا ہے جو کروڑوں میں ہے جبکہ حقیقی آمدنی کا اندازہ خود ہی لگایا جا سکتا ہے۔
اس مافیا کی وجہ سے ریاست پاکستان کو وسائل کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کام کرنے کے لیے مناسب وسائل مہیا نہیں ہوتے۔
اس مافیا کے اس گھناؤنے اور غیر قانونی کاروبار نے عوام کو انصاف کی فراہمی ناممکن بنا دیا ہے اور چالیس لاکھ سے زائد کیسز برسوں سے زیر التوا ہیں اور ان کیسز سے منسلک عوام ایک عزاب سے گزرتے آ،رہے ہیں۔
اس عدالتی مافیا نے جبری طور پر اپنے آپ کو ہی ججز کی تقرری کے لیے آمرانہ اختیار حاصل کر رکھے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج اس عدالتی اصلاحات سے پہلے اس بات کا سب کو علم تھا کہ آئندہ بیس برسوں میں کون کس دن اور کب تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے گا۔ اسطرح سے ہمیشہ کے لیے اعلی عدلیہ میں تعیناتی کے لیے یہ مافیا اس بات کو یقینی بنانے کا اہتمام کرتا تھا کہ وہ اس بات کا یقینی بندوبست کریں کہ ہمیشہ استحصالی طبقات کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے ہی عدلیہ میں اکثریت میں رہیں۔
اس مافیا کو روکنے کے لیے جمہوری قوتوں نے بڑی جدّوجُہد کی مگر ان کی تمام کوششوں کو اس مافیا نے ناکام بنا دیا جس کی بنیادی وجہ اس کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل تھی۔
پچھلے سال جب اللہ سبحانہ و تعالٰی کی رحمت سے پاکستان پر اچھے دنوں کا آغاز ہوا جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو سیاست سے دستبردار کرنے کا فیصلہ کیا اور اس پر عملدرآمد شروع کر دیا اور اسی دوران پاکستان کی تاریخ میں قاضی فائز عیسٰی کو چیف جسٹس بننے کا موقع ملا۔ جو مکمل طور پر آہین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں انہوں نے فوری طور پر عدلیہ میں شفافیت لانے کے لیے مختلف اقدامات کئے۔ اگرچہ ان کو اس سلسلے میں عدلیہ میں موجود " کالے بھونڈوں " کی بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر انہوں نے پرعزم اور انتھک محنت سے آئین و قانون کی بالادستی کو قائم کرنے میں مصروف رہے ۔ اگرچہ ان کے خلاف استحصالی طبقات نے انتہائی شرمناک اور جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف رہیں رہے اور اس پر بے تحاشا مالی وسائل خرچ کئے گئے مگر کوئی ان کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکا۔ انہوں نے اس دوران انتہائی اہم نوعیت کے فیصلے کئے جو طویل مدت سے سرد خانے میں پڑے ہوئے تھے۔
اس دوران جمہوری قوتوں نے عدلیہ اصلاحات کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کام شروع کیا اور طویل و صبر آزما کوششوں کے بعد آج یہ عدالتی اصلاحات کا ترمیمی بل پاس یو کر آئین کا حصہ بن چکا ہے۔
آج کا دن تمام عوامی و جمہوری قوتوں کی کامیابی اور فتح کا دن ہے۔ اور یہ پاکستان کو مستحکم نظام کی فراہمی میں مددگار ثابت ہوگا۔ 
اس کامیابی کا کریڈٹ ان تمام جماعتوں کو جاتا ہے جنہوں نے اس کے حصول کے لیے طویل عرصے تک جدوجہد جاری رکھی اور آخرکار اس کو کامیاب کرایا۔ مگر اس سلسلے میں سب سے اہم حصہ بلاول بھٹو کا ہے جنہوں نے اپنی سیاسی بصیرت کو اس مرحلے پر ثابت کیا ہے اور طویل مذاکرات کے ذریعے اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہوے۔
اس سلسلے میں بہت بڑا کریڈٹ مولانا فضل الرحمن کو بھی جاتا ہے جنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں بحران کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہے اور اس ترمیمی بل میں دین اسلام کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کو آئین کا حصہ بنا دیا ہے۔
جس میں ملک میں سود کے خاتمے کی حتمی تاریخ، اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں کو اپنانے، شریعی عدالت اور دینی مدراس کے بارے میں ہیں۔
اس پر ملک بھر کے دینی حلقے مولانا فضل الرحمن کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
اس ترمیمی بل کی مخالفت میں جو طبقات سامنے آئے ہیں ان میں اس متاثرہ وکلاء چیمبز کا مافیا سرفہرست ہے جن کے مفادات کو کاری ضرب لگائی گئی ہے اور اسطرح سے ملک میں جمہوریت، آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
دوسری اس بل کی مخالفت جماعت اسلامی نے کی ہے جو تاریخی طور پر ہمیشہ سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر کام کرتی رہی ہے اور اسطرح سے استحصالی طبقات کو تحفظ فراہم کرنے کا اہتمام کرتی رہی ہے جب سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے تو جماعت اسلامی بھی پی ٹی آئی کی طرح یتیم ہو گئی ہے اور اب وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہے انتخابات میں اس جماعت کو عوام نے ہمیشہ ہی مسترد کیا ہے اور اسوقت اس کے پاس قومی اسمبلی یا سینٹ میں ایک بھی سیٹ نہیں ہے۔ اس جماعت کو جو اپنے آپ کو اسلام نظام کے قیام سے منسلک ہونے کا دعوٰی کرتی ہے اس کو اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اس میں شامل دین اسلام کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کی اہمیت کا بھی احساس نہیں ہوا۔ یہ اس جماعت کی منافقت کو ایک بار پھر سے عیاں کرتاہے۔
بہرحال اب آج اس بل کی منظوری کے بعد پاکستان میں سیاسی استحکام پیدا ہوگا جس سے ملک کے معاشی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی اور یہ پاکستان کے تابناک مستقبل کی طرف ایک اہم پیش رفت ثابت ہو گئی۔
عوام اس تاریخی لمحے پر مبارکباد کے مستحق ہیں اور اس موقع پر اللہ سبحانہ و تعالٰی کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے اپنی رحمت سے پاکستان کو بحران سے نکالنے کا اہتمام کیا ہے۔
اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس موقع پر اس بات کا اعادہ کریں کہ ملک میں دین اسلام کے نفاذ کے لیے عملی لائحہ عمل ترتیب دینے میں اپنا کردار ادا کریں گے جو روز قیامت ہمارے لیے نجات کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے اللہ ہم سب کو ہدایت اور ہمت عطا فرمائے۔ آمین ۔

Post a Comment

0 Comments