Header Ads Widget

عظیم انسانی المیہ اور ہمارا رویہ۔ ماضی کے جھروکوں سے

    



ایک برس قبل لکھا گیا مضمون 

اکتوبر 13، 2023

تحریر: ممتاز ہاشمی 

آج اس زمین کے ایک حصے پر جسے کو غزہ کے نام سے جانا جاتا ہے تاریخ کا سخت ترین ظلم و ستم جاری ہے اگرچہ یہ طویل کہانی ہے اور فلسطین کے مسلمان عرصہ دراز سے نہ صرف اپنے گھروں سے بےگھر کردہے گئے تھے بلکہ ان کو ایک علاقے میں محصور کر دیا گیا تھا گویا وہ ایک طرح سے قید میں ہیں ان کی مختلف زمینی اور سمندری راستوں سے ناکہ بندی کر دی گئی تھی تاکہ ان کو اپنے دفاع اور وطن کی آزادی کے لیے کسی قسم کے وسائل دستیاب نہ ہو سکیں۔

ان تمام نامساعد حالات میں بھی فلسطینی مسلمانوں نے اسرائیل کے خلاف جدوجہد جاری رکھی اور دنیا کو مختلف طریقوں سے اس سنگین مسئلہ کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی مگر کیونکہ دنیا کی اکثریت کے مفادات اسرائیلی لابی سے وابستہ ہیں اسلئے کسی نے بھی ان کو اہمیت نہیں دی صرف زبانی جمع خرچ کر کے اپنے آپ کو اس جدوجہد میں شامل کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔

ان تمام حالات و واقعات سے اسرائیل کی نہ صرف ہمت افزائی ہوئی بلکہ انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ مزید علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا اور یوں فلسطینی کو ایک مخصوص علاقے میں قید کر دیا گیا۔ 

واضح رہے کہ اسرائیلی کی ان تمام کارروائیوں کو حوصلہ افزائی نام نہاد مسلم ممالک کی طرف سے ہوئی جن میں وہ   تمام مسلمان ممالک خصوصاً وہ شامل ہیں جن کی سرحدیں فلسطین سے ملتی ہیں اس طرح سے  محصور فلسطینی عوام کے پاس مزاحمت یا موت کے علاوہ کوئی  دوسرا راستہ باقی نہ رہا۔

انہوں نے  اپنے آپ کو اس مزاحمت کے لیے منظم کیا اور ایک آخری وار کرنے کا آغاز کیا۔ اس وقت ان مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو اس بات کا یقین تھا کہ ان کی اس بہادرانہ جدوجہد کے نتیجے میں دنیا بھر کے انسانی حقوق،  آزادی اور مساوات کے علمبردار ممالک،  تنظیمیں اور  خصوصاً مسلمان ممالک اورعوام ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کے غاصبانہ عزائم کو ناکام بنانے کیلئے متحرک ہو جائیں گے۔

مگر آج انتہائی افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا تو دور کی بات ہے کوئی بھی مسلمان ملک ان کا عملی  طور ساتھ  دینے کو تیار نہیں ہے وہ بیانات کی حد تک تو ظاہری طور میں ان کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں لیکن ان کو اندرون خانہ اسرائیل کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے غلامانہ زندگی بسر کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ 

یہی حال ہم نام نہاد مسلمانوں کا ہے جو سواے احتجاجی  جلسہ و جلوس اور مذمت تک ہی محدود ہے کوئی بھی ان کی عملی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے برعکس ہم نام نہاد مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی میں عیاشیوں، تفریحات اور کھیل کود میں مکمل طور پرنہ صرف مگن ہیں مگر ہر روز ان میں اضافہ دیکھنے کو نظر آ رہا ہے۔

یہ صورتحال انتہائی دکھ اور تکلیف کا باعث ہے اور ہم مسلمان ہونے کا دعوٰی کرنے والوں کے لیے شرم کا مقام ہے مگر ہمیں اس کا کوئی احساس تک نہیں ہے ۔ 

یاد رہے اس ظلم و ستم پر خاموشی یا ان کی عملی مدد سے کوتاہی ہم سب کے لیے آخرت میں عذاب کا جواز فراہم کرنے کے لیے کافی ہو گی۔

اسلئے  آج بھی تمام اہل ایمان کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنی تمام وسائل و صلاحیتیں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے ممالک کی حکومتوں کو مجبور کریں کہ وہ ان مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی جدوجہد میں عملی طور پر شامل ہوں اور جہاں پر اسرائیلی مفاہمتی رحجان رکھنے والی حکومتیں ہیں ان کو ختم کر کے فلسطینی مسلمانوں کی ہمدرد حکومتوں کے قیام کی جدوجہد کریں۔

واضح رہے کہ یہ وقت کسی وظیفہ یا صرف دعا کا نہیں ہے بلکہ پہلے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد ہی اللہ سے مدد کی دعا کی جا سکتی ہے اس کا واضح حکم ہمارے دین اسلام میں بیان کیا گیا ہے۔

اللہ ہمیں اس امتحان میں سرخرو ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 


تحریر:


ممتاز ہاشمی

Post a Comment

0 Comments