Header Ads Widget

اسٹیبلشمنٹ کی کھڑی کردہ سیاسی جماعتیں کا جائزہ . ماضی کے جھروکوں سے

 



ایک برس قبل لکھا گیا مضمون 


اکتوبر 5، 2023


تحریر: ممتاز ہاشمی 




گزشتہ روز پی ٹی آئی کے ایک لیڈر عثمان ڈار کے انٹرویو کے بعد مختلف قسم کی بحثیں ہو رہی ہیں جن کا موضوع اس انٹرویو کی جبری طور پر یا آزادانہ طور پر ہونا ہے حالانکہ اس بات پر کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا کہ اس میں شامل مواد کی حقیقت کی جو اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور اس سے قبل بھی کئی مرتبہ یہ مواد ریکارڈ پر آ چکا ہے۔ اس معاملے کا تجزیہ کرنے سے قبل پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور اس کی پشت پناہی میں کام کرنے والی جماعتوں کی تاریخ کو ذہن نشین رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

پاکستان کے قیام کے فوری بعد ہی اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار پر قابض ہونے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دے دیا تھا اور پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو کمزور کرنے کی سازشوں کا آغاز کر دیا گیا تھا مسلم لیگ کی قیادت ان کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھی جس کی وجہ اس کی تربیت ایسے ماحول میں نہیں ہوئی تھی وہ صرف ایک تحریک کی حیثیت رکھتی تھی جو قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان کے قیام کے عظیم ترین مقصد کے لئے وقف تھی اسلئے وہ سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ ( خن کو عدلیہ کی حمایت بھی حاصل تھی) کی سازشوں کا شکار ہوتی گئی۔ 

ان سازشوں کے نتیجے کے طور پر جلد ہی پاکستان طویل مارشل لاء کا شکار ہو گیا اور یوں قیام پاکستان کے بنیادی مقاصد یعنی جمہوریت اور آزادی کو دفن کرنے کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔

کیونکہ یہ مارشل لاء مکمل طور پر عوامی حمایت سے محروم ہوتے تھے اسلئے اس بات کی  اشد ضرورت محسوس کی گئی کہ اس کے لیے سیاسی حمایت حاصل کی جائے تاکہ عوامی ردعمل کا مقابلہ کیا جا سکے اس کا آغاز مسلم لیگ کی تقسیم سے کیا گیا اور ایک دھڑا  مسلم لیگ ( کنونشن) کے نام سے لانچ کیا گیا مگر یہ انکم کے مقاصد پورے کرنے سے قاصر تھی کیونکہ نہ ہی تو اس کی جڑیں عوام میں تھیں اور نہ ہی عوام نے مارشل لاء کو تسلیم کیا تھا مارشل لاء کے خلاف اور جمہوریت و آزادی کی حمایت میں عملی جدوجہد طلباء،  مزدور اور عوام دوست جماعتوں اور تنظیمیں شدت سے کرتی رہی اور اس میں انہوں نے انتہائی جبر و تشدد کا انتہائی بہادری و جرات سے مقابلہ کیا جن میں عظیم حسن ناصر کی شہادت تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہے۔

اسلئے اسٹیبلشمنٹ اس تلاش میں تھی کہ اس کو ایک ایسی جماعت کی حمایت حاصل ہو جائے جو اس کے مقاصد کے تحفظ کے لیے ان جمہوری قوتوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس کے لیے اس وقت صرف جماعت اسلامی ہی ایسی منظم جماعت تھی جو ان کے مقاصد کے حصول کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتی تھی اسلئے اس کو اس کام میں شریک کرنے کے ایجنڈے پر کام کیا گیا اور جو بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس کا آغاز جماعت اسلامی کو انتخابی سیاست میں ملوث کرنے کے فیصلے سے کیا گیا   

جماعت اسلامی کا قیام دین اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کے لیے آیا تھا اور اس میں اکثریت مخلص مسلمانوں کی تھی جس کی وجہ سے اس کو شروع میں عوام میں بڑی پذیرائی ملی اور لوگوں میں اسلام کی طرف رحجان بڑھنے لگا اس کے بعد مختلف سازشوں کے ذریعے اس کو ان مقاصد سے ہٹانے کے لئے کئے گئے اور آخرکار وہ ان مقاصد میں کامیاب ہو گئے جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے اس کا رابطہ ہو گیا اور اس جماعت کو دین کے نفاذ کے لئے وجود میں لائی گئی تھی اس کو انتخابی جمہوری جماعت میں تبدیل کر دیا گیا اس پر اس میں موجود اکثر مخلص اکابرین نے اختلاف کرتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیار کر لی جن میں مولانا امین اصلاحی،  ڈاکٹر اسرار احمد اور دیگر اکابرین شامل ہیں۔

اس کے بعد آجتک یہ جماعت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کو کردار ادا کر رہی ہے 

اس کے لیے اس نے اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ  کے طور  تمام جمہوریت دشمن اقدامات کئے  اور اس کی تشدد پر مبنی طلباء تنظیم کو   بائیں بازو کی طلباء تنظیموں  کو دبانے کے لیے ریاستی سرپرستی میں استعمال کیا گیا۔

اس کے بعد ہر مرحلے پر یہ جماعت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے عوامی حمایت سے محروم ہوتے گئی اور 70 کے انتخابات میں اس کو عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس جماعت کا تعلق زیادہ تر ترقی یافتہ شہری علاقوں کی مڈل اور ایلیٹ کلاس سے تھا جو وسائل سے مالا مال تھی دوسرے اسلام کے نام پر بھی اس کو کچھ لوگوں کی حمایت حاصل تھی اسلئے یہ ریاستی اداروں کی حمایت سے مضبوط تنظیمی صلاحیتیں سے لیس ہو گئی اور اس کا اظہار اس کے جمہوریت دشمن 77 کی تحریک سے ہوا جب اس نے ملک کو جمہوریت کی پٹری سے اتارنے کے لئے پرتشدد کارروائیاں کئی اور جس کے نتیجے میں ملک میں طویل مارشل لاء دوبارہ سے نافذ ہو گیا۔

اس تمام عرصے میں اس منافق جماعت کا بھیانک روپ کھل کر سامنے آ چکا تھا اسلئے اب یہ اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد کے حصول کے لیے کارآمد نہیں ہو سکتی تھی اسلئے ایک دوسری نئی لسانی جماعت ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی گئی جو کراچی اور حیدرآباد تک محدود تھی اور اس کا اثر و رسوخ انہی علاقوں میں تھا جو جماعت اسلامی کے زیر اثر رہے تھے اسطرح سے وہ تمام وسائل،  تنظیم صلاحیتوں اور پرتشدد کارروائیوں کا تجربہ اس نئی جماعت کو منتقل کر دیا گیا اس کے مقابلے میں دوسری لسانی تنظیموں کی بھی اسٹیبلشمنٹ نے پشت پناہی کی تاکہ عوام کو لسانی و علاقائی بنیادوں پر تقسیم کر کے اپنے مقاصد کا حصول ممکن بنایا جائے۔  

پنجاب و دیگر صوبوں میں اسی سوچ کی بنیاد پر فرقہ وارانہ بنیاد پر جماعتوں کو لانچ کیا گیا۔ تاکہ پورے ملک میں جمہوری و سیاسی تحریکوں کو لسانی و فرقہ وارانہ ماحول میں بے اثر کیا جائے۔

یہ انتہائی خطرناک سوچ اور ایجنڈا تھا جو کہ ملک کی بنیادیں ہلانے کا کام کر سکتا تھا۔

مگر اللہ نے اس کو ناکام بنا دیا اور عوامی شعور نے ان کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ماسوائے سندھ کے شہری علاقوں میں جہاں ان کو پذیرائی ملی اور اس کے ہولناک نتائج وہاں کے عوام نے عرصہ دراز تک بھگتے ہیں۔ مگر جب اس جماعت کے قائدین اور اسٹیبلشمنٹ میں اختلافات پیدا ہوے اور اسٹیبلشمنٹ نے اس کی سرپرستی بند کر دی تو تمام لیڈران نے فوری طور پر قاہد ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنے آپ کو تمام ماضی کی کارروائیاں سے بری الذمہ قرار دینے کا اعلان کردیا۔ اگرچہ چند مخلص کارکنوں نے ان لیڈران کا ساتھ نہیں دیا اور اپنے قائد کے ساتھ کھڑے رہے۔

اسی دوران ملک میں جزوی جمہوریت  و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ملا جلا نظام چلتا رہا۔ اسلئے اب اسٹیبلشمنٹ کو ایک ایسی جماعت کی تلاش تھی جو ملک گیر سطح پر ان کے مقاصد کو پورا کرنے کے قابل ہو اور جس کو عوام کی کچھ  حد تک حمایت بھی حاصل ہو۔ اس کے لیے تحریک انصاف کا انتخاب کیا گیا اور اس کو 2011 میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ایک نئے ایجنڈے کے ساتھ لانچ کیا۔ اس کے گراونڈ تیار کرنے کے لیے میڈیا کا بھرپور استعمال کیا گیا اور مختلف جماعتوں سے افراد کو اس میں شامل کرایا گیا۔ اس کے لانچ اور اس کے اقتدار میں لانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے تمام تر غیر آئینی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا مگر پھر بھی ناکامی ہونے پر 2018 کے انتخابات کے نتائج کو تبدیل کر دیا گیا۔ 

اس جماعت کو اقتدار میں لانے کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے کھل کر مکمل اختیارات حاصل کر لئے اور یہ ایک کٹھ پتلی عمران خان کی حکومت تھی جس کے سارے کام اسٹیبلشمنٹ کرتی تھی اور جماعت کے لیڈران ذاتی مفادات کے حصول تک محدود تھے یہ پاکستان کی تاریخ کا بڑا شرمناک دور تھا جس میں جمہوری قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کرنے والی جماعتوں پر شدید ظلم و ستم کیا گیا اور ان کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ 

مگر اس حکومت دور میں ملکی معیشت کی تباہی و بربادی کا شکار ہو گئی اور عوامی مسائل میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ان حالات میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اندر اختلافات پیدا ہوگئے اور ایک گروپ نے سیاست سے دستبردار ہونے کے لیے زور دیا اور مجبوراً اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دستبردار ہونا پڑا اور اسطرح سے اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں پر کھڑی عمران خان کی حکومت یکدم سے ختم ہو گئی۔

اس کے بعد اس کے اکثر لیڈران نے اپنے آپ کو عمران خان کے ایجنڈے سے علیحدہ کرنے کے اعلانات شروع کر دئیے جو آج تک جاری ہیں اب اس جماعت میں صرف گنتی کے چند رہنما ہی رہ گئے ہیں اگرچہ اس میں بھی مخلص کارکنوں کی موجودگی باقی ہے جنہوں نے 9 مئی جیسے ملک دشمن اور بغاوت کے ایجنڈا پر عملدرآمد بھی کیا تھا۔

ان واقعات و حقائق کی روشنی میں اگر کل کے عثمان ڈار کے انٹرویو اور اس کے بعد فوری طور پر اس کی ماں کے بیان پر نظر ڈالیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ان تمام افراد اور جماعتوں کا ریکارڈ یکساں ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر کام کرتی رہی ہیں اور صرف اسی وقت متحرک ہوتی ہیں جب ان کو ایک مخصوص احکامات جاری کئے جاتے ہیں اور جب کبھی ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ترجیحات میں اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں تو یہ فوری طور پر اپنے موقف کو بدل لیتے ہیں اور اپنے آپ کو کسی قسم کے امتحان میں نہیں ڈالتے کیونکہ ان کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا یہ صرف مفادات کی بقاء کے لیے ہر کام کرتے ہیں۔ 

تاریخ گواہ ہے کہ تمام مخلص سیاسی رہنما اور کارکن ہمیشہ سیاسی زندگی جدوجہد کرتے رہے ہیں اور اس میں تکالیف اور سزائیں بھی برداشت کرتے ہیں مگر اپنے سیاسی موقف سے کبھی دستبردار نہیں ہوتیں ۔ مگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی جماعتوں پر جب بھی ذرا سا برا وقت آیا تو اس کے سب لیڈر بھاگنے میں دیر نہیں کرتے جس کا حالیہ تاریخ میں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی جیتا جاگتا ثبوت ہے جبکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی اور مضبوط پارٹی جماعت اسلامی نے کبھی یہ موقع ہی نہیں دیا اور ہمیشہ ایسے مواقع پر خاموش تماشائی بن جاتی ہے اور وقت کا انتظار کرتی ہے ھب اس کو دوبارہ سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ کا کردار ادا کرنے کے لیے منتخب کیا جائے اور کبھی بھی  کبھی بھی اپنے آقاؤں کی ناراضگی مول نہیں لیتی۔

Post a Comment

0 Comments