Header Ads Widget

امریکی صدارتی انتخابات کا جائزہ An Analysis of US Presidential Elections

 نومبر 7، 2024



تحریر: ممتاز ہاشمی 

آج جب امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ مکمل اور کلین سوہپ کر کے امریکی کے صدر منتخب ہو چکے ہیں تو اس وقت ہمیں ان انتخابات کے متعلق اہم نوعیت کے واقعات اوران انتخابات کے پس منظر کو ذہن نشین کرنا ضروری ہو گا۔

جس وقت سے یہ صدارتی مہم شروع ہوئی تھی تو اسی وقت سے ٹرمپ کو باہیڈن پر برتری حاصل تھی اور جلد ہی اس کو بھانپتے ہوے باہیڈن نے انتخابات سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا اور اس کی جگہ نائب صدر کامیلا ہارث کو ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنا امیدوار نامزد کر دیا  تاکہ ٹرمپ کو سخت مقابلہ اور شکست دینے کا اہتمام ہو سکے۔

واضح رہے کہ اسوقت سے لیکر رات الیکشن کے نتائج تک پورا میڈیا جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف رہا اور ٹرمپ کی شکست کا جھوٹا پروپیگنڈہ زور و شور سے جاری رکھا۔ اس سلسلے میں نام نہاد سروے جاری کئے جاتے رہے جن میں ہمیشہ کامیلا کو ٹرمپ پر برتری ظاہر کی جاتی رہی۔

یہ جھوٹا پروپیگنڈہ صرف امریکی میڈیا تک محدود نہیں تھا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ پروپیگنڈہ انتہائی متحرک تھا۔

ان انتخابات کے پس منظر میں امریکی سیاسی  کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے۔ امریکہ کی ریاستوں میں بھی دنیا کے دیگر ممالک میں مختلف جماعتوں کے "کھمبا " ووٹرز کا غلبہ ہوتا ہے اور ان کے ووٹ عام طور پر یہ جماعتیں اپنی جیب میں ہی سمجھتی ہیں اور تمام زور عام طور پر ان ریاستوں پر ہوتا ہے جہاں پر غیر جانبدار ووٹرز کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ انتخابات میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

ماسوائے ان مواقع پر جب کہ انتخابات میں کلیدی مسائل زیر بحث آ جائیں  جن میں بنیادی طور معاشی مسائل،  بے روزگاری اور مہنگائی اہمیت اختیار کر جائے۔

 کیونکہ ان مواقع پر انتخابات میں  ان ہی مسائل کو فوقیت حاصل  تھی ۔ اور اس کے نتیجے کے طور پر نہ صرف غیر جانبدار ووٹرز بلکہ کچھ حد تک پارٹی کے مستند ووٹرز نے بھی سوچ و بچار کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال  کرنے خو فوقیت دی۔

اب اگر حالیہ صدارتی انتخابات کے انعقاد پر امریکی عوام کو درپیش چیلنجز کو دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اس حالیہ دور اقتدار میں امریکی عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور مہنگائی و بے روزگاری میں اضافہ نے عوام میں اس جماعت کی حمایت میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ ان مسائل کو غیر قانونی تارکین وطن اور خاص طور پر میکسیکو کے غیر قانونی تارکین وطن نے مزید گہرا کر دیا۔

قطعی نظر ٹرمپ کے اپنے ذاتی کردار،  اور دیگر خامیوں کے اس نے باہیڈن حکومت کی پالیسیوں کو نشانہ تنقید بنایا اور ان تمام مسائل کی ذمہ داری اس پر ڈالنے کی کامیاب حکمت عملی اختیار کی ۔


 ٹرمپ نے شروع دن سے ایک  منظم اور مضبوط منصوبہ بندی کے تحت عوام میں یہ احساس اجاگر کیا کہ ان مسائل کے پیدا کرنے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جن میں دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگ کو فروغ دینا ہے اور خاص طور پر روس اور یوکرائن کی جنگ میں امریکی وسائل کا استعمال اور مشرقی وسطی میں غزہ میں اسرائیلی کی ننگی بربریت اور جارحیت کی حمایت شامل ہے۔

ان واقعات سے امریکی معیشت کو نقصان پہنچا اور عوام کے مسائل میں شدید اضافہ ہوتا چلا گیا۔

ٹرمپ نے اپنی مہم میں دنیا میں امن کی بحالی اور جاری جنگوں کو بند کرنے پر زور دیا اور عوام کو یہ باور کرانے کامیاب رہے کہ ان کی امن پر مبنی پالیسز ہی امریکی عوام کے  معاشی و اقتصادی بحران کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور عوام کو اس سے ریلیف فراہم کرنے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ اور  غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔

ٹرمپ کی اس حکمت عملی کو عوام میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی اور شروع دن سے اس کی انتخابات پر گرفت مضبوط نظر آنے لگی۔

ان تمام حالات و واقعات کے باوجود میڈیا مسلسل جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ کرتا رہا اور جھوٹے سروے جاری کرتے ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی کی برتری ظاہر کرتا رہا۔

ماسوائے میڈیا کے ایک محدود حصہ جنہوں نے شروع دن سے ہی غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا۔

اس میڈیا پروپیگنڈہ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جس وقت ابتدائی انتخابی نتائج جاری ہو رہے تھے اور ان انتخابات کی سیاست کو سمجھنے والے اکثر  تجربہ کار تجزیہ کاروں کو نتائج واضح طور پر نظر آ رہے تھے کیونکہ ان کو مختلف ریاستوں کی کاونٹی کے جھکاو کا بھی واضح طور پر علم تھا مگر اس وقت بھی رات گئے تک میڈیا پر " کانٹے دار مقابلہ " کا جھوٹا پروپیگنڈہ جاری تھا جبکہ حقیقت میں کوئی مقابلہ تھا ہی نہیں اور ٹرمپ کو واضح طور پر یکطرفہ برتری حاصل تھی۔

اس وقت رات کو تقریباً ایک بجے کے قریب ایک بہت بڑے میڈیا چینل فوکس نیوز جو ٹرمپ کے حمایتی کے طور جانا جاتا ہے اس نے ٹرمپ کے 47 والے صدر ہونے کا اعلان کر دیا اور ان کو 277  ووٹ کی برتری ظاہر کردی۔

اس کے ساتھ ہی ٹرمپ کی وکٹری تقریر کا اعلان کر دیا جس کے بعد پورا میڈیا پروپیگنڈہ اپنی موت آپ مر گیا اور رات 2 بجے ٹرمپ نے اپنی وکٹری تقریر میں 300 سے زائد ووٹ حاصل کرنے کا دعوٰی بھی کر دیا جو کہ حقیقت کے قریب ترین ثابت ہو ثابت ہوا۔

انہوں نے اپنی تقریر میں مستقبل کی پالیسیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے انتخابی منشور کو عملی شکل دینے کا اعلان کیا۔

اب ان انتخابات میں امریکی مسلمانوں کے کردار کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کی تعداد کوہی قابل ذکر نہیں ہے اور ان کے ووٹ کا ان انتخابات کے مجموعی نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

مگر  یہ بات ہمیشہ سے  ریکارڈ پر ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرتی ہے جو کہ ان کے ذاتی مفادات جن میں غیر قانونی تارکین وطن  کے تحفظ کو یقینی بنانے کا طریقہ کار ہے اگرچہ جب دونوں جماعتوں کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ رپبلکن پارٹی کا منشور کے کچھ نکات اسلام سے قریب تر  ہیں جن میں اسقاط حمل، ہم جنس شادی،   وغیرہ شامل ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ڈیموکریٹک کے مقابلے میں رپبلکن کی حمایت  کریں مگر مسلمانوں کی اکثریت اپنے مفادات کی خاطر اسلام کے تقاضوں کو نظرانداز کرتے رہے ہیں۔

آج اگر مسلمانوں میں کچھ ووٹرز نے اپنی رائے تبدیل بھی کی ہے تو اس میں غزہ کی صورتحال کا دخل ہے ناکہ اسلام کے تقاضوں کا۔

اسی طرح پاکستان میں مختلف جماعتوں نے ٹرمپ کی جیت کو اپنے ایجنڈے کی کامیابی سے تعبیر کر رہے ہیں حالانکہ ان کو اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ امریکی پالیسیوں کا تعلق مختلف ممالک میں ان کے سیاسی و معاشی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے ہوتا ہے ناکہ کسی سیاسی جماعت یا شخصیات کے ساتھ ذاتی تعلقات کی بنیاد پر۔

آخر میں اس بات کا دوبارہ سے ذکر کرنا ضروری ہے کہ آج  کے دور میں میڈیا جسطری جھوٹ پر مبنی دجالی کردار ادا کر رہا ہے اور عوام بلا سوچے سمجھے اس جھوٹ کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ان کو اس سلسلے میں اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول آخرالزماں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے آپ کو جھوٹ کو فروغ دینے کے گناہ عظیم سے بچنے کا اہتمام کرے سکیں۔

Post a Comment

0 Comments