تحریر: ممتاز ہاشمی
موجودہ دور میں جب پوری دنیا کے مسلمان انتہائی پستی اور ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا ان کو کسی معاملے میں کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ باوجود اس کے کہ آج دنیا کی ایک چوتھائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور وہ نہایت قیمتی اور نایاب وسائل سے مالا مال ہیں۔ اس زوال کی بنیاد ڈھونڈنے کے لئے ہمیں ذرا ماضی قریب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ زیادہ دور کی بات نہیں جبکہ مسلمانوں کی خلافت دنیا کے بہت بڑے حصے پر قائم تھی۔
مگر وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں لالچ اور خود غرضی فروغ پانے لگی۔ اسطرح معاشرے میں برائیوں نے جنم لینا شروع کر دیا۔ ان میں خوف خدا ختم ہونے لگا اور بدترین برائیوں یعنی جھوٹ، دھوکہ دہی، دروغ گوئی، فریب، غیبت اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانا کی بیماریاں فروغ حاصل کرنے لگیں۔ ان تمام محرکات کی بنیادی وجہ ایمان کی کمزوری اور آخرت پر یقین کا فقدان تھا۔ مسلمانوں کی ان کمزوریوں سے کفار نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان کے درمیان مزید نفرتوں کو فروغ دینے کے لیے ان میں سے لوگوں کو لالچی کی بناء پر غیر ضروری مسائل میں الجھا کر فرقوں کو فروغ دیا۔ جب وہ مسلمانوں میں فرقہ بندیوں میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہوے تو انہوں نے مسلمانوں کے درمیان میں سے کچھ لوگوں کو لالچ دیکر اپنے ساتھ شامل کرنے اور ان کے ذریعے مسلمانوں کو شکست دیتے ہوئے ان پر قابض ہونے کا عمل شروع کیا۔ اسطرح سے مسلمانوں کو شکست دیتے ہوئے تمام دنیا کے مسلمانوں پر حکمرانوں کی حیثیت سے غیر مسلم مسلط ہو گئے اور مسلمانوں پر غلامی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ ان صدیوں کی غلامی نے مسلمانوں میں دین اسلام کا تصور مکمل طور پر دھندلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس حقیقت کو آج کے دور کے عظیم مفکر اسلام علامہ اقبال نے سمجھا اور اللہ سبحانہ و تعالٰی نے ان کو یہ صلاحیت عطا فرمائی کہ وہ بھٹکے ہوے مسلمانوں کو جگانے کا اہم فریضہ انجام دے سکیں۔
آج کے دور میں دین اسلام کے حقیقی تصور کو اجاگر کرنے اور اس کے نفاذ کی ترغیب دینے میں علامہ اقبال کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے اپنی شاعری اور نثر کو دین اسلام کے فلسفے کو اجاگر کرنے اور بھٹکے اور ناامیدی میں مبتلا مسلمانوں میں ایک نئی امنگ اور امید پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
آج دنیا بھر میں احیاء سلام کی جو بھی تحریکیں جاری ہیں ان میں علامہ اقبال کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جا سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے فلسفہ خودی متعارف کرایا۔ جو کہ اس زمانے کے بڑے بڑے فلاسفروں کے نظریات کے لیے ایک انوکھا چیلنج تھا۔ کوئی بھی فلسفی اس نظریے کے خلاف کوئی دوسرا فلسفہ یا دلائل پیش کرنے سے اج تک قاصر ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ کوئی انسانی عقل و فکر کی بنیاد پر قائم کوئی فلسفہ نہیں ہے بلکہ اس فلسفے کا محاصل اللہ تعالٰی کا نازل کردہ قرآن مجید ہے۔ اس بات کو خود اقبال سے اس طرح سے منسوب کیا ہے۔ اوراس کو علامہ اقبال کے شاگرد اور دوست سید نذیر نیازی نے ایک سیمینار میں بیان کیا ہے۔ ایک دن انہوں نے علامہ اقبال سے عرض کی کہ مختلف لوگوں نے آپ کے نظریہ خودی کو زمانے کے مختلف نامور فلاسفروں سے منسوب کرتے ہیں آپ اس کی وضاحت خود کر دیں تاکہ لوگوں کو اصلیت معلوم ہو سکے۔ علامہ اقبال نے ان کو اس سلسلے میں دوسرے دن آنے کے لیے کہا کہ میں تم کو اس بارے میں لکھاؤں گا ۔ سید نذیر نیازی بہت خوشی خوشی روانہ ہوئے کیوں کہ وہ اپنے آپ کو اس اعزاز کے لیے ایک عظیم نعمت سمجھتے تھے کہ علامہ اقبال اپنے اس فلسفہ خودی کے ماخذ ان کو بتائیں گے۔ دوسرے دن وہ وقت مقررہ پر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو علامہ اقبال نے ان سے کہا کہ ذرا قرآن مجید اٹھا کر آجائے ۔ سید نذیر نیازی کہتے ہیں کہ اسی وقت میرے تمام ارمانوں پر اوس پڑ گئی کیونکہ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ علامہ اقبال ان کو اپنے فلسفہ خودی کی باریکیوں اور اس سے منسلک وہ تمام مواد فراہم کریں گے۔ جو کہ ان میں ان کے فلسفے خودی کی بنیاد ہیں۔
اس کے بعد علامہ اقبال نے کہا سورہ الحشر کی آیت 19 پڑھنے کو کہا۔ جو کہ ذیل میں درج ہے ۔
سورہ الحشر ،آیت نمبر19
{ وَلَا تَكُونُواْ كَٱلَّذِينَ نَسُواْ ٱللَّهَ فَأَنسَىٰهُمۡ أَنفُسَهُمۡۚ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡفَٰسِقُونَ }
"اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اللہ )کے احکام( کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کر دیا، اور ایسے ہی لوگ نافرمان )فاسق( ہوتے ہیں. "
علامہ اقبال نے فرمایا کہ یہ آیت ہی فلسفہ خودی کی اساس ہے۔
اب اس آیت کی تشریح پر غور و فکر کریں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہ واقعی انسان زندگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ نے جب آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا تو اس کو تمام مادی خاصیتوں اور صلاحیتوں کو نوازا۔ تاکہ وہ معمولات زندگی میں اپنے فیصلے کرسکیں۔ اس کے بعد اللہ نے آدم علیہ اسلام میں روح داخل کی۔ جس کی بنیاد پر آدم اشرف مخلوقات کے رتبہ پر فائز ہوئے ۔
اللہ نے آدم علیہ السلام کو یہ ہدایت دی کہ وہ دنیا میں جا کر اللہ کے احکامات کے تابع زندگی بسر کرے اور جب جب اللہ کی ہدایات بذریعہ وحی اس کے پاس پہنچے وہ ان پر عمل درآمد کرے۔ اس بارے میں واضح ہدایات کے باوجود اگر انسان اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے نفس کی پیروی کرتا ہے تو یہ اس کا و اضح اعلان ہوگا کہ اس نے اللہ اور کے احکامات کو بھلا دیا جو کہ اس کی روح تقاضا کرتی ہے لیکن اس کے بجائے وہ اپنی ان نفسی خواہشات کا پابند ہو جاتا ہے جو اسے اللہ کے احکامات اور اس کی بندگی سے غافل کر دیتی ہے۔اللہ کا واضح اعلان ان انسانوں کے لیے اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ نے ایسے انسانوں کو اپنے آپ سے غافل کر دیا یعنی کہ اس کا روحانی وجود سے لاتعلقی ہو جائے اور صرف اس کے لیے مادی وجود ہی سب کچھ رہ جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس روحانی وجود جو کہ روح ہے اس کو فلسفہ خودی سے تعبیر کیا ہے۔
اس طرح سے فلسفہ خودی میں نسل انسانی کی اساس پر راہنمائی فراہم کی گئی ہے جو قرآن پاک سے ثابت ہوتی ہے ۔
اس کو مزید سمجھنے کے لئے اس بات پر غور کریں کہ جب انسان اللہ کی بندگی سے غافل ہو جاتا ہے یعنی کہ روح کے تقاضوں کو رد کرتے ہوئے تو وہ اپنے آپ کو دنیاوی چیزوں میں مگن کر لیتا ہے اور ایک اللہ کی بندگی کی بجائے ہر اس چیز کا غلام بن جاتا ہے جو اس کے نفس اور دنیاوی چیزوں کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ انسان اپنے مقصد حیات کی نفی کرنے لگتا ہے۔ اس سے بچنے کا واحد راستہ اس فلسفہ خودی میں پنہاں ہے۔ جو انسان کو اس کے روحانی وجود یعنی روح کی بالادستی کا اعلان اور اعادہ کرتے رہنے کا درس دیتا ہے۔
اس بات کو مکمل طور پر ہر وقت ذہن میں تازہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ نے ان لوگوں کو جن کو اللہ ان کو اپنے روحانی وجود سے غافل کر دیا ان کے لیے نافرمان) فاسق( کے الفاظ استعمال کئے ہیں
اس فلسفہ خودی کی مزید واضح علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں اس طرح کی ہے۔
خودی کا سِ ِّرِ نہاں الا الِٰ اہ اِ ِّلاا اللہ
خودی ہے تیغ، فاساں الا الِٰ اہ اِ ِّلاا اللہ
یہ ادور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، الا الِٰ اہ اِ ِّلاا اللہ
کِیا ہے توُ نے متاعِ غرور کا سودا
فریب سوُد و زیاں، الا الِٰ اہ اِ ِّلاا اللہ
یہ مال و دولِتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گمُاں، الا الِٰ اہ اِ ِّلاا اللہ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنِّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں، الا الِٰ اہ اِ ِّلاا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گلُ و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، الا الِٰ اہ اِ ِّلاا اللہ
اگرچہ بتُ ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حُکمِ اذاں، الا الِٰ اہ اِ ِّلاا اللہ
اس میں انتہائی بھرپور وضاحت سے اللہ کی واحدت اور اس کے احکامات کی ہمہ وقت اور کلی اطاعت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے جو کہ فلسفہ خودی کی اساس ہے۔ اس کے ذیلی شعر میں قرآن مجید کی ایک انتہائی اہمیت کی حامل آیت کو پیش کیا گیا ہے
یہ مال و دولِتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گمُاں، الا الِٰ اہ اِ ِّلاا اللہ
اس میں قرآن مجید کی اس آیت کی تشریح کی گئی ہے
سورہ التوبہ، آیت 24
"آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکےاور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔"
اللہ سبحانہ و تعالٰی سے التجا ہے کہ وہ ہم ایمان کے دعویداروں کو ہدایت عطا فرمائے اور ہمیں اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے روحانی وجود یعنی روح کی بالادستی کو قائم کرنے کی ہمت، صلاحیت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین
واضع رہے کہ دراصل اس میں ہی انسان کی روز حساب نجات اور اس عارضی زندگی میں کامیابی کا پنہاں ہے۔
(مندرجہ بالا مضمون کے ماخذ ڈاکٹر اسرار احمد ؒکے دروس و خطابات ہیں۔)
0 Comments