تحریر: ممتاز ہاشمی
سورۃ النساءمیں اللہ ربّ العزت نے فرمایا:
‘‘یقیناًوہ لوگ کہ فرشتے ان کی روح اس حال میں قبض کریں گے کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والےتھے‘وہ ان سے کہیں گے کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ کہیں گے کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہیں گے : کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ ٹھہرنے کی بُری جگہ ہے۔ سوائے اُن مردوں، عورتوں اور بچوں کے جنہیں واقعتاً دبالیا گیا ہو، جو نہ تو کوئی تدبیر کرسکتے ہیں اور نہ انہیں کسی راستے کا علم ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے درگزر کرے۔ اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے ۔’’ (النساء:97 تا 99)
درج بالا آیات انتہائی سخت ہیں اور یہ اس وقت نازل ہوئیں جب ریاست ِمدینہ کا قیام عمل میں آ چکا تھا اور اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کے ہاتھوں دین ِاسلام کا عملی نفاذ مکمل کر دیا تھا۔ لیکن اُس وقت بھی کچھ مسلمان اپنی مصلحتوں کی بناپر مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے گریز کررہے تھے، باوجودیکہ مکہ میں رہ کر وہ عملی طور پر دین اسلام کے کلی احکامات کی پابندی سے محروم تھے۔ ان آیات میں اُن لوگوں کے لیے جہنم کا اعلان کیا گیا ہے، صرف اُن مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے رعایت رکھی گئی ہے جو بے بس تھے اور ان کو ہجرت کرنے کے ذرائع میسر نہیں تھے۔
قرآن مجید قیامت تک کے لیے راہِ ہدایت ہےاور اس کے احکامات ہر زمانے اور وقت کے لیے نافذالعمل ہیں۔ اب ان آیات کو ہم اپنی حالیہ تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو ایسی ہی ایک ہجرت پاکستان کے قیام کے وقت دیکھنے کو ملی جس میں لاکھوں مسلمانوں نے دین اسلام کے نفاذ اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے اپنا مال واسباب چھوڑ کر پاکستان کی جانب ہجرت کو ترجیح دی۔ اس دوران ہزاروں مسلمانوں نے شہادت کے درجات حاصل کیے جن کے اجر کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
اگر آج کی دنیا کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اس وقت دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں دین اسلام کا نفاذ ہو۔ تمام اسلامی ممالک میں غیر اسلامی نظام اور قوانین رائج ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کمی کے باوجود تقریباً تمام مسلم ممالک میں ہر مسلمان اپنی ذاتی زندگی کی حد تک اسلامی احکامات کی پابندی کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہے اور اپنی ذاتی زندگی میں دین اسلام کی پابندی کرنے کی راہ میں کوئی ریاستی قانون حائل نہیں ہے۔ مزیدیہ کہ ان اسلامی ممالک نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے مفادات کے لیے سرحدیں مقرر کردی ہیں جس کی بنا پر مسلمانوں میں ایک اُمّت کا تصوّر ختم ہو گیا ہے اور یہ نام نہاد اسلامی ممالک نسلی اور علاقائی قومیتوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اپنے معاشی مفادات اور دنیوی ترقی کو ترجیح دیتے ہوئے غیر مسلم ممالک کی طرف ہجرت کی اور وہاں پر مستقل رہائش اختیار کرلی ہے۔ اگرچہ دین اسلام میں غیر مسلموں کے درمیان رہنے کی اجازت دی گئی ہے‘ لیکن وہ صرف اور صرف دین اسلام کی تبلیغ اور ترویج کے لیے ہی ہے۔ دیگر مقاصد، جن میں تعلیم کا حصول اور قلیل المدتی تجارت شامل ہیں، کے لیے مختصر عرصے تک رہنے کی اجازت دی گئی ہے مگر وہ بھی چندشرائط کے ساتھ، جن میں سرِ دست ایمان کی مضبوطی لازم ہے تاکہ کافرانہ نظام اور ماحول سے مسلمانوں کے اَذہان و قلوب پر کوئی منفی اثرات مرتب نہ ہو سکیں۔
اس تناظر میں اگر موجودہ دور کا جائزہ لیا جائے تو لاکھوں مسلمان جنہوں نے غیر مسلم ممالک میں مستقل سکونت اختیار کی ہے، وہ اپنی ذاتی زندگی میں دین اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مکمل طور پر آزادی محسوس نہیں کرتے اور ریاستی قوانین کی وجہ سے اپنی ذاتی زندگی کی حد تک بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی مکمل پابندی سے قاصر ہیں اور ان کو مختلف مسائل و مشکلات درکار ہیں۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت ایک دو نسلوں کے بعد کافی حد تک دین اسلام سے دور ہوتے ہوئے صرف مذہبی رسومات تک محدود ہو جاتی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بھی کمی آتی جاتی ہے۔
یہ بہت خطرناک صورتِ حال ہے اور اس پر علماء کرام نے کافی غور و فکر کیا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ رائے سامنے آئی ہے کہ جو بھی مسلمان ان غیر مسلم ممالک میں مقیم ہیں، وہ اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے معافی مانگیں اور اپنے قیام کے مقصد کو صرف دین اسلام کی تبلیغ اور ترویج کے لیے وقف کرنے کا عہد کریں۔ مزید یہ کہ اپنی ذاتی زندگی میں ہر ممکن طریقے سے قناعت کرتے ہوئے اپنے وسائل اور وقت کا استعمال دین اسلام کی تبلیغ کے لیے کریں۔ یہی واحد حل ہے جو شاید اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات کا ذریعہ بن جائے جس کا ذکر قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیات میں کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے اور ہمیں اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو دین اسلام کے لیے استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یاربّ العالمین!
(اس مضمون کی تیاری میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے درس سے استفادہ کیا گیا ہے۔)
.jpeg)
0 Comments