Header Ads Widget

حقوق اللہ اور حقوق العباد کا جائزہ




ممتاز ہاشمی 

حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان ترجیحات کے بارے میں اکثر مختلف خیالات، نظریات اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے اس بارے واضح تصور حاصل کرنے کے لیے معاملے کو انتہائی باریکی سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے تو ہر صاحب ایمان کے لیے بنیادی شرط اللہ رب العزت کی کامل حاکمیت وحدانیت اور اس کو کائنات کا واحد خالق و مالک تسلیم کرنا ہے۔ اس کامل ایمان کا عملی تقاضا یہ ہے کہ تمام مخلوقات صرف اور صرف اپنے خالق و مالک کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی پابند ہیں ۔ اس کے برعکس عمل یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو کائنات کا خالق، مالک یا حاکم تسلیم نہ کرنا ایمان کی نفی اور شرک کہلائے گا۔ شرک کے حقیقی تصور کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ دین اسلام کی روح اور اس کی اساس توحید پر قائم ہے۔ اس لیے ہمیں توحید کے اصل معانی کا ادراک حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ توحید کی ضد کو شرک کہا جائے گا جو اکبر الکبائر “ (سب سے بڑا گناہ) شمار ہوتا ہے۔ شرک در حقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں کسی کو کسی بھی طرح سے شریک کرتا ہے اور یہ گو یا اللہ تعالیٰ کی وحدت کا انکار ہے۔ یہ اللہ تعالی کے حقوق سے انکار اور اس کے دائرہ کار میں مداخلت کے مترادف ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حقوق کو اجمالی طور پر ایک لفظ ” عبادت کے ذریعے بیان کیا جا سکتا ہے۔ قرآن حکیم میں واضح طور پر ارشاد ہے: 
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذُّرِيت) 
میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔“ عبادت کی اصطلاح کے بارے میں عموماً غلط نہیں پائی جاتی ہے۔ اکثریت اسے صرف نماز روزہ حج زکوۃ تک محدود کرتی ہے۔ اگر چہ یہ سب بھی ہمارے دین کالازمی اور اہم ترین حصہ ہیں لیکن وہ زندگی کے خاص ادوار اوقات تک محدود ہیں۔ لہذا انھیں مطلق عبادت نہیں کہا جا سکتا۔ عبادت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے غلاموں کی طرح زندگی گزارنا اور تمام معاملات میں اللہ کے حکم پر عمل کرنا۔ ہمیں اپنے خالق و مالک کے کچھ مخصوص احکام پر عمل پیرا ہونے جبکہ دوسرے احکام کی نفی کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔ عبادت صرف اس وقت انتہائی قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے جب یہ اللہ تعالیٰ سے انتہائی محبت کی وجہ سے ہوا کسی خوف کی وجہ سے نہ ہو۔ یہاں پر یہ حدیث پیش نظر رکھنا بہت اہم ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کو اچھی طرح جانتا ہے اور ہمارے تمام اعمال کا تعین ہماری نیتوں کی بنیاد پر ہی کیا جائے گا۔ لہذا ہمارے تمام اعمال کو عبادت کے حقیقی معنی کے مطابق ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ احکام پر عمل پیرا ہونا اور بقایا سے گریز کرنا ہماری اپنی ذاتی ترجیح قرار پائے گا، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ جن احکامات پر عمل درآمد کیا بھی
گیا تھا وہ دراصل اپنے نفس کی پسند یا نا پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔ گویا ایک طرح سے اپنے نفس کو معبود کا درجہ دے دیا گیا۔ چنانچہ ایسے اعمال شرک کی آمیزش سے پاک نہیں ہوں گے۔ 

ریا کاری اور دکھاوے کو اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک خفی قرار دیا ہے۔ چنانچہ جو اعمال بھی اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے بجائے لوگوں کو دکھانے کے لیے کیے جائیں وہ سب شرک کے زمرے میں آتے ہیں، اگر چہ بظاہر وہ اعمال صالحہ شمار ہوتے ہوں۔ پس حدیث نبوی کی رو سے دکھاوے کی خاطر نماز پڑھنے والا روزہ رکھنے والا اور خیرات کرنے والا شرک کر رہا ہوتا ہے۔ ایک شخص نماز پڑھتے ہوئے اپنے سجدے کو اس لیے معمول سے لمبا کر دے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے تو اُس نے گویا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس بندے کو بھی اپنا معبود بنا لیا جس کو دکھانے کی خاطر اُس نے اپنا سجدہ طویل کیا تھا۔ ہم ایسی کئی چیزوں کا اپنی روز مرہ زندگی کے معاملات میں جائزہ لے سکتے ہیں۔ 
لازم ہے کہ اپنی اصلاح کی خاطر تو بہ واستغفار کے عمل کو جاری و ساری رکھا جائے۔ 
قرآن حکیم میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کو تو ہرگز معاف نہیں کرے گا البتہ اس کے سوا دوسرے گناہ جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا۔ اگر ہم شرک کی اقسام پر توجہ دیں تو اکثر گناہوں کے تانے بانے شرک سے جا ملتے ہیں۔ سب سے بڑا شرک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات میں کسی کی شراکت قائم کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ 
مسلمان بظاہر اپنے آپ کو شرک سے مبرا سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالی پر ایمان کا دعوی کرتے ہیں، لیکن وہ صرف زبانی حد تک ہوتا ہے جبکہ عملی طور پر اللہ کے احکامات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہم بار ہا اللہ تعالیٰ کے صرف اُن احکامات پر عمل کرتے ہیں جو ہمارے لیے فائدہ مند ہوں اور جو احکامات ہمارے مفادات کے خلاف ہوں ان کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس طرح ہم اکثر شرک کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں لیکن ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی میں ہمارے پیش نظر اپنے نفس کی پسند نا پسند ہوتی ہے نہ کہ خالق کے احکامات کی پابندی کا جذبہ۔ چنانچہ ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے رہنا چاہیے اور ہر مرحلے پر اپنے خالق و مالک کے احکامات کی پابندی کرتے ہوئے اہل ایمان کہلانے کا مستحق بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 
دین اسلام میں صرف ان ہی حقوق کو حقوق العباد کا نام دیا گیا ہے جن کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ یہ تمام حقوق دراصل حقوق اللہ ہی کے ذیل میں آتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ احکم الحاکمین کے احکامات کی بجائے خود کوئی پیمانہ معیار یا قوانین وضع کرتے 
ہوئے ان کو انسانی حقوق یا حقوق العباد کا نام دے دیا جائے۔ اسلامی تعلیمات میں یہ بات بہت واضح ہے کہ حقوق العباد کو اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں کرتا جب تک کہ متاثرہ شخص کی طرف سے معافی نہ ہو ۔ مثلاً آپ نے کسی شخص سے قرض لیا ہوا ہے تو اس کی ادائیگی آپ پر فرض ہے اور یہ صرف تو بہ واستغفار سے ساقط نہیں ہوگا۔ حدیث نبوی کی رو سے اللہ کے راستے میں شہید ہونے والے کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، سوائے قرض کے۔ 

اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ حقوق العباد بھی صرف وہی قابل معافی ہیں جو انفرادی سطح پر ایک شخص کے دوسرے شخص سے وابستہ ہیں۔ ان کا معاف کرنا متاثرہ فریق کی مرضی پر منحصر ہے۔ جب کہ ایسے تمام حقوق العباد جن سے معاشرے کے اجتماعی مفادات منسلک ہوتے ہیں ان میں کوتاہی پورے معاشرے میں انتشار اور فساد فی الارض کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے ان کی معافی یا تلافی کسی انفرادی حیثیت سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لیے روز قیامت ہی حساب کتاب ہو گا، جس کی سنگینی کا تصور بھی مشکل ہے۔ 

حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان ترجیحات کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل آیات بہت اہمیت کی حامل ہیں: (قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا) (الانعام :۱۵۱) " کہیے: آؤ میں تمہیں سناؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا چیزیں حرام کی ہیں۔ (اولاً) یہ کہ کسی شے کو اُس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔ “ یعنی سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ شرک کو حرام ٹھہرایا ہے اور دوسرے نمبر پر والدین کے حقوق میں کوتا ہی حرام قرار دی ہے۔ قرآن حکیم میں یہ تیسرا مقام ہے جہاں حقوق اللہ کے فوراًبعد حقوق والدین کا تذکرہ آیا ہے۔ اس سے پہلے سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۳ اور سورۃ النساء کی آیت ۳۶ میں والدین کے حقوق کا ذکر اللہ تعالیٰ کے حقوق کے فورا بعد کیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات بھی بڑی صراحت کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے کہ والدین کے حقوق اللہ تعالیٰ کے حقوق کے تابع ہیں۔ اگر والدین کی اطاعت میں اللہ اور رسول صلی یتیم کی نافرمانی لازم آرہی ہو تو والدین کی اطاعت ہر گز نہیں کی جائے گی ۔ 
سورۃ التوبہ کی آیت ۲۴ میں اللہ تعالیٰ نے ایک میزان نصب کر دی ہے،


جس کے ایک پلڑے میں علائق دنیوی کی محبت اور دوسرے پلڑے میں اللہ اس کے 
 رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اس کے راستے میں جہاد کی محبت کو رکھ کر اندازہ کیا جائے کہ کون سا پلڑا بھاری ہے! قل ان كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَازْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ 
ۖ 
گسَادَهَا وَمَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ وَاللهُ لا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ) (التوبة) 
" آپ کہہ دیجئے : اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو ( اگر یہ ساری چیزیں ) تمہیں اللہ سے اور اُس کے رسول سے اور اُس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم (عذاب) لے آئے ۔ اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ 
قرآن حکیم کی روشنی میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سب سے بڑا حق والدین کے لیے رکھا ہے، تاہم سورۃ التوبہ کی مذکورہ بالا آیت سے یہ بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ حقوق اللہ تمام دوسرے حقوق سے برتر و بالا دست ہیں اور دوسرے تمام حقوق ان کے تابع ہیں۔ مخلوق میں سے کسی کا حق بھی اللہ کے حق سے فائق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا کرے تا کہ شرک سے بچ سکیں اور اپنی اصلاح کرتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اس کے حقیقی مفہوم میں ادا کر سکیں ۔ آمین !

 

Post a Comment

0 Comments