نومبر 23، 2022
تحریر: ممتاز ہاشمی
آج کل لوگ جنرل باجوہ اور اس کی فیملی کے اثاثے منظر عام پر آنے کے بعد اس پر اسطرح سے بحث کرتے ہوئے اس کو پیش کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی نئی اور انہونی چیز ہے یہ سب بھی صرف اسی وقت سامنے آیا جب ان کی ریٹائرمنٹ کو چند دن باقی ہیں اور ہمیں اس کو زمینی حقائق سے الگ کرتے ہوئے ایک انفرادی عمل کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اس پورے نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
کرپشن اور حرام میں صرف جنرل، سیاستدان، عدلیہ ہی نہیں بلکہ تقریباً تمام وہ لوگ جو سرکاری عہدوں یا کاروباری، تجارتی، صنعتی، پیشہ وارانہ امور وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے یا ہیں سب ملوث رہے ہیں ان تمام لوگوں نے ملکی وسائل کو اپنی ناجائز طور پر جمع کیا ہے اور اسطرح سے وہ عوام کی اکثریت کا حق کھائے ہوئے ہیں اور جس کی وجہ سے عوام کو کسی قسم کی سہولتیں میسر نہیں نہیں۔ ان تمام افراد کو اللہ کے ہاں جواب دہی کرنا ہے۔
آج بھی اس میں مکمل طور پر ملوث ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ پاکستان کے قیام کے بعد ہی ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ نے مسلم لیگ کی قیادت کو ناکام بنانے کیلئے عملی اقدامات کئے لاور آخرکار 1958 میں ملک میں جمہوریت کو ختم کر کے ملٹری ڈکٹیٹر شپ قائم کر دی اور تمام جمہوری قوتوں کے خلاف انتہائی اقدامات کئے تاکہ ان کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے یا ان کو اس حد تک کمزور کر دیا جائے کی وہ ان کے لیے کوئی خطرہ نہ رہیں۔ اور اس کے لیے انہوں نے مختلف حالات اور اوقات میں اپنے سیاسی ایجنٹوں کو پیدا کیا اور ان کی پرورش کرتے ہوئے ان کو مختلف مواقع پر ملک کی جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال کیا۔ ان میں سب سے بڑا نام جماعت اسلامی کا ہے جو کہ مسلسل اس ایجنڈے پر طویل عرصے سے عمل درآمد کر رہی ہے اس کے علاوہ ایم کیو ایم کا قیام، اس میں گروپوں کی تشکیل، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ میں گروپ پیدا کرنے، بلوچستان میں مختلف لوگوں کی سرپرستی وغیرہ وغیرہ۔
تاہم ملک کی جمہوری قوتوں نے ہمیشہ ان ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کیا اور جمہوریت کی بحالی کیلئے قربانیاں دی اور جس کے نتیجے میں کبھی کبھی عبوری جمہوری دور بھی دیکھنے کو ملے جن کو ختم کرنے کے لیے ہر بار ملٹری سازشوں میں مصروف رہیں اور اس کے نتیجے کے طور پر پاکستان کے حالات اندرونی اور بیرونی طور پر تباہی اور بربادی کی جانب بڑھتے رہیں اور اج جب ملک انتہائی مسائل سے دوچار ہے تو مجبوراً ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اپنے آپ کو سیاست سے دستبردار کرنا پڑا۔ لیکن وی تمام افراد جو کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ، سول بیوروکریسی اور کاروباری افراد جنہوں نے آمریت کے ہر ادوار میں ناجائز مفادات حاصل کیے اور اج تک ان سے مستفید ہوتے رہے ہیں اور آج انکی اولادیں اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں تاکہ اپنے کاروباری اور دیگر مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور اس طرح بلا روک ٹوک اس کرپشن کے نظام کو جاری رکھا جا سکے ان سب کو یہ صورتحال قبول نہیں ہے اس سے ان کو مفادات کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ جب جمہوریت قائم اور مضبوط ہوگی تو عوام کو سہولتوں کی فراہمی سیاسی قوتوں کا ایجنڈے میں سرفہرست ہو گا اور وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خوف سے بالاتر ہو کر اپنی تمام توانائیاں اپنے سیاسی منشور پر عملدرآمد کرنے کے لیے استعمال کرسکیں گے اور اسطرح چند اعلیٰ طبقات کی بالادستی کمزور ہوگئی اسلئے ان تمام قوتوں نے عمران خان کے ساتھ ملکر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں جس سے دوبارہ سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت کا کام جاری رکھنے پر مجبور کیا جائے
اس ناسور کو روکنے کا واحد راستہ ملک میں جمہوریت اور اداروں کی مضبوطی ہے جب ایک مستحکم نظام وجود میں آئے گا تو اس سے تمام شعبہ جات میں جواب دہی اور احتساب کا عمل شروع ہو جائے گا اور ملک کی جمہوری قوتوں کو اپنی توجہ اور ترجیحات میں واضح تبدیلی نظر آئے گی اور ان کا سارا زور اپنی حکومت کو بچانے اور اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں سے محفوظ کرنے میں صرف نہیں ہو گا۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان عناصر کو بےنقاب کیا جائے جو ملک میں جمہوریت کو پنپنے میں رکاوٹ ڈالتے رہیں ہیں اور آج بھی عمران خان کے ساتھ اس ایجنڈے کو جاری رکھنے کے لیے تمام وسائل استعمال کر رہیں ہیں۔
اللہ سے امید ہے کہ وہ ان عوام دشمن، جمہوریت دشمن قوتوں کے ایجنڈے کو ناکام بناتے ہوئے ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر دے گا۔
.jpeg)
0 Comments