تحریر: ممتاز ہاشمی
آج جب کہ پاکستان کی تاریخ کے ایک کلاسیکل اور مشہور کرپشن کیس کی سماعت مکمل ہو چکی ہے اور اس پر فیصلہ محفوظ کر دیا گیا جو23 دسمبر کو سنایا جائے گا۔ اس کرپشن کیس کی سماعت مکمل ہونے میں طویل عرصہ لگا جس کی وجوہات میں عمران خان کی طرف سے اس کو ہر ممکن طور پر روکنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے تھا۔
اس کیس کے دیگر ملزمان جن میں ملک ریاض، فرح گوگی، زلفی بخاری، شہزاد اکبر وغیرہ شامل ہیں وہ ملک سے بھاگ گئے تھے تصور عدالت ان کو مفرور قرار دے چکی ہے۔
اسلئے اس وقت اس کرپشن کیس کا فیصلہ عمران خان اور بشرا بی بی تک ہی محدود ہو گا۔
اس کیس کی تمام کاروائی کی رپورٹنگ میڈیا پر ہوتی رہی ہے۔ اور استغاثہ کے گواہوں اور دستاویزی ثبوت بھی مختلف اوقات میں رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔
جب یہ کیس منظر عام پر آیا تھا اور اس کا تذکرہ میڈیا پر ہوا تو میں نے اس پر ایک مختصر مضمون فروری 19، 2022 کو لکھا تھا یہ مضمون یہاں پر کاپی کر رہا ہوں تاکہ اس کیس کو سمجھنے میں آسانی ہو:
‐----------------------------- ---------------
فروری 19، 2022
تحریر: ممتاز ہاشمی
پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کرپشن سکینڈل
پاکستان کے سب سے بڑے کرپٹ اور مجرم ملک ریاض المعروف بحریہ ٹاؤن کو سب جانتے ہیں اس نے دوسرے کرپٹ عناصر اور حکمران اشرافیہ کی مدد سے اپنے خزانے میں کھربوں جمع کیے ۔ اس کی تمام دولت ان وسائل سے لوٹی گئی رقم سے ہے جو پاکستان کے غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرنا تھی۔ اس کی مجرمانہ سرگرمیوں میں نہ صرف حکومتی اہلکار اور حکمران ملوث ہیں بلکہ یہ پیشہ ور افراد، انجینئرز، آرکیٹیکٹ، منصوبہ ساز، کنسلٹنٹ، ٹھیکیدار، سپلائرز، رئیل اسٹیٹ ایجنٹس، خریدار وغیرہ کی مدد سے انجام پا رہے ہیں کیونکہ یہ تمام عناصر اچھی طرح اس کے غیر قانونی اور کرپٹ پراجیکٹس کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہیں۔ لیکن یہ سب اس کے لیے صرف کرپشن کو فروغ دینے اور اس میں اپنا حصہ لینے کے لیے کام کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں، اس نے ثاقب نثار اینڈ کمپنی کی عدلیہ کی مدد سے اپنی سب سے بڑی بدعنوانی اور غیر قانونی منصوبے کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کا بندوبست طے کر لیے۔ ثاقب نثار نے منصوبوں کو غیر قانونی قرار دینے اور سرکاری اور نجی زمینوں پر قبضے کے لیے بھاری جرمانے کی بجائے کراچی کے مضافات میں غیر قانونی منصوبوں کی اجازت دی اور صرف 460 ارب کا جرمانہ ادا کرنے کا کہا اور وہ بھی خریداروں کے پیسوں سے آسان اقساط میں۔
اس کے بعد اسے برٹش حکومت نے منی لانڈرنگ کے الزام میں پکڑا اور الزام ثابت ہو گیا۔ چنانچہ انہوں نے طریقہ کار کے مطابق معاملہ عدالت سے باہر طے کیا اور اس کے مطابق 190 ملین برطانوی پاؤنڈز کی منی لانڈرنگ کی رقم، جو کہ متاثرہ ریاست (پاکستان) کو واپس کی جانی تھی، اس کو غیر قانونی طور پر ملک ریاض کو جرمانے کی قسط کی ادائیگی کے لیے استعمال کی گئی۔ چنانچہ عمران خان حکومت نے برطانیہ کے ذریعے منی لانڈرنگ سے حاصل شدہ سرکاری رقم ملک ریاض کو واپس کر دی۔ کیا کوئی اس قسم کی کرپشن کا تصور بھی کر سکتا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ عوامی وسائل کو اس بے دردی سے لوٹا جاتا ہے اور اس کے نتیجے کے طور پر عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں جو مہنگائی اور بیروزگاری کا سبب بنتی ہے۔
یہ ہماری کرپشن کی تاریخ کی ایک کلاسیکی مثال ہے۔ ان کرپٹ طریقوں کے خلاف آواز اٹھانا ہر محب وطن پاکستانی شہری کا فرض ہے۔
اس کے علاوہ، ہم سب کو ایسے بدعنوان لوگوں کا حصہ بننے سے خود کو روکنا چاہیے۔ ایسے کرپٹ لوگوں کو پنپنے سے روکنے کا آسان طریقہ صرف یہ ہے کہ ان سے دور رہیں اور انہیں کوئی پیشہ ورانہ خدمات فراہم کرنے سے انکار کر دیں بلکہ ان کے عوامو ملکدشمنایجنڈےکو بے نقاب کرنےمیںاپناکردارادا کریں"
------------------------------ ---------------
ان تمام شواہد کی بنیاد پر یہ بات بالکل یقینی نظر آ رہی ہے کہ عمران خان اور بشری بی بی کا اس کیس میں سزا سے بچنا ناممکن ہے۔ ان ہی وجوہات اور حالات کی نزاکت کا اندازہ کرتے ہوئے عمران خان نے 24 نومبر کو فائنل کال دی تھی تاکہ اسلام آباد پر چڑھائی کرتے ہوئے ملک میں انتشار اور بدامنی کی صورتحال پیدا کر کے اس کیس کے فیصلے کو روکا جا سکے۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اپنی رحمت سے یہ ملک دشمن سازش کو ناکام بنا دیا ہے اور اب جب یہ کیس احتشام پذیر ہو رہا ہے اور عمران خان کو اپنے جرائم کی سزائیں کا مکمل یقین ہے تو اس نے آخری حربے کے طور پر اس فیصلے کے دن سول نافرمانی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جو،اللہ کی رحمت سے مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔ ان شاءاللہ۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام ان پاکستان دشمن عناصر کے ایجنڈے کو سمجھتے ہوئے متحرک اور متحد ہو کر اس کا ناکام بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
تاکہ ان سازشوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کرتے ہوئے پاکستان کو ترقی اور فلاحی ایجنڈے پر تیزی سے گامزن کیا جا سکے۔

0 Comments