Header Ads Widget

سازشی عناصر کے لیے لیول پلینگ فییلڈ کا مطالبہ.ماضی کے جھروکوں سے Demand for Level Playing Field for Conspiracy Elements


ایک برس قبل لکھا گیا مضمون 

دسمبر 22، 2023

تحریر: ممتاز ہاشمی
 

آجکل ہر جگہ پر نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار ملک دشمن کاروائیاں میں ملوث عناصر کے لیے لیول پلینگ فییلڈ کا پراپگنڈہ کر رہے ہیں تاکہ ان کو انتخابات میں حصہ لینے کے جواز پر قید سے رہائی دلائی جائے اور ان پر سنگین جرائم کے مقدمات کی سماعت کو ملتوی کر دیا جائے۔ ایسا کرنا نہ صرف انتہائی خطرناک اور ملک و عوام کے مفادات کے خلاف ہے بلکہ یہ آہین و قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ 

دراصل ان کا ایجنڈا پاکستان کو بحران میں مبتلا کرنے اور استحصالی نظام کو دوام بخشنا ہے۔ جس میں ان کی پشت پر عدلیہ کے وہ عناصر ہیں جنہوں نے ہمیشہ پاکستان میں آئین و قانون کی بجائے مقتدرہ قوتوں کے اشاروں پر کام کیا ہے اسی وجہ سے آج پاکستان کی عدلیہ دنیا میں انتہائ نچلے درجے پر ہے جو کسی بھی ملک کے تمام معاملات میں انخطاط پذیر ہونے کا پیمانہ ہوتا ہے ان قوموں اور معاشروں کی دنیا میں کوئی عزت و وقار نہیں ہوتا۔ اس طرح کے معاشروں کی سیاسی،معاشی اور سماجی ترقی رک جاتی ہے اور وہاں پر جرائم میں اضافہ ہوجاتا ہے۔جو دن بدن بڑھتے بڑھتے ملک و معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لے جاتا ہے۔
 اس کے برعکس جن ممالک اور  
  معاشروں میں عدل و انصاف کا بھول بھالا ہوتا ہے وہاں پر ترقی و خوشحالی کا راستہ کھل جاتا ہے اور جرائم کی شرح میں کمی ہو جاتی ہے لوگوں میں نظام عدل پر اعتماد کی وجہ سے سماجی و معاشرتی مسائل مستقل بنیادوں پر حل کرنے کا اہتمام ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں عدلیہ نے ہمیشہ آئین و قانون کی بالادستی کی بجائے طاقت ور طبقات کو تحفظ فراہم کیا ہے اور اسطرح سے عدلیہ نے ملک پر قابض ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ہمیشہ چمچہ گیری کی ہے۔ جس کے نتیجے کے طور پر آج ملک کا سارا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تمام ادارے انخطاط پذیر ہیں اور معاشی و دیگر عوامی مسائل میں بے پناہ اضافہ نے جرائم کو فروغ دینے کا کام کیا ہے اور آج سب اس کا نظارہ کر رہے تھے۔
اب اس کو درست کرنے کی بہت باتیں کی جا رہی ہیں مگر طویل عرصے سے قابض استحصالی طبقات اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں مصروف ہیں۔
اب جن طاقتوں نے اس نظام کو پنپنے کا اہتمام کیا تھا ان ہی کے ذمہ یہ ہے کہ وہ دہائیوں پر محیط اس گند کو صاف کرنے کا اہتمام کرے۔
اس کو سمجھنے کے لیے صرف ایک مثال ہی کافی ہے۔ پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی سے 2014 میں اسلام آباد میں عمران خان اور طاہر القادری سے جمہوری حکومت کے خلاف سازش کے طور پر ایک طویل دھرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جو جمہوری قوتوں کے اتحاد کی بدولت اگرچہ ناکام رہی مگر اس نے پاکستان کو معاشی طور شدید نقصان پہنچایا۔ اس دوران انہوں نے پارلیمنٹ اور ٹیلی ویژن اسٹیشن پر دھاوا بولا اور نہ صرف ریاست کی رٹ ختم کی بلکہ ملک میں بغاوت کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا۔ اس جرم کو عمران خان، طاہر القادری اور عارف علوی نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کو اپنی فتح سے تعبیر کیا۔ اس سنگین سازشی کو ریاست کے خلاف بغاوت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ان پر ان جرائم کے مرتکب ہونے کے مقدمات بھی درج ہوے مگر اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اسطرح سے باغیوں اور قانون شکن قوتوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ بلکہ اس کے بعد عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے منتخب حکومت کا خاتمہ کیا گیا اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے عمران خان کو تمام غیر قانونی اقدامات اور انتخابات میں دھاندلی کر کے اقتدار میں لایا گیا تھا۔
اس کے بعد کے واقعات سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح سے اس نے ملک کی معاشی تباہی کا شکار کیا اور جب مجبوراً ان قوتوں نے اس سے بھی ہاتھ کھینچ لیا تو ایک اور بغاوت کا سامنا 9 مئی اور اس کے بعد کی صورتحال میں پیش آیا۔ آجتک اس صورتحال سے ملک باہر نہیں نکل سکا ہے اور اس سنگین بغاوت میں ملوث عناصر کو عدلیہ مسلسل تحفظ فراہم کر رہی ہے جس کی وجہ سے اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان عناصر کو کوئی سزائیں نہیں دی جا سکی ہیں اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ ملک و عوام دشمن عناصر مزید سازشیں کرنے اور ملک کو بحران میں مبتلا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ ان کو مقدمات اور سزائیں نہ دی جا سکیں۔
اس صورتحال کا مقابلہ اگر ہم امریکہ سے کریں تو جب ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو پارلیمنٹ پر حملہ کرنے پر اکسایا اور انہوں نے وہاں توڑ پھوڑ کی تو وہاں پر قانون فوری طور پر حرکت میں آیا اور اس ہنگامہ آرائی میں ملوث عناصر کو گرفتار کر کے عدالت کے ذریعے قانون کے مطابق طویل المدت سزائیں دی گئی اور خود ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اس غیر قانونی کام کی حوصلہ افزائی کرنے کے جرم میں صدارتی انتخابات کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔
یہی فرق ہے دو معاشروں کے متضاد معیاروں کا۔ اور یہی ان کی ترقی اور ہماری بدحالی کا راز ہے۔
آج بھی جبکہ ملک میں انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے تو بہت سے لبرل اور نام نہاد انسانی حقوق کی آڑ میں 2014 اور 9 مئی کے واقعات میں ملوث لوگوں کے لیے لیول یلینگ فییلڈ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اور اس کی آڑ میں ان ملک و عوام دشمن عناصر کے لیے رعایتیں حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس میں ان کو عدلیہ کی حمایت حاصل ہے یہ انتہائی خطرناک پہلو ہے جو معاشرے اور ملک کو مزید تباہی کی طرف گامزن کر سکتا ہے 
کیا کہ کوئی زی ہوش انسان اور عدل و انصاف پر قائم معاشرہ اس قسم کے ملک و عوام دشمن عناصر کے لیے کسی قسم کی ہمدردی رکھ سکتا ہے۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان سازشی عناصر کو جلد از جلد قانون کے تحت سزائیں دینے کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے آواز آٹھاہی جائے۔
اس بات کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ اگر اس بار بھی ان سازشی عناصر اور ان کے سہولت کار استحصالی عناصر کو رعایت دی گئی تو یہ پاکستان کے لیے مزید تباہی و بربادی کا باعث بنے گا اور مستقبل میں ان سازشی عناصر کو تقویت ملے گی اور پاکستان کو مزید تباہی و بربادی کے ایجنڈے کو مکمل کرنے کے عمل کو پنپنے کا موقع ملے گا۔ 
اسلئے عوام اور جمہوری قوتوں کو متحد ہو کر ان سازشی عناصر کو ناکام بنانے کیلئے متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔



Post a Comment

0 Comments