ماضی کے جھروکوں سے
دو برس قبل لکھا گیا مضمون
دسمبر 1، 2022
تحریر: ممتاز ہاشمی
آج پاکستان اپنی سیاسی زندگی میں ایک نئے موڑ پر کھڑا ہے اس کو سمجھنے کے لیے ماضی قریب کی تاریخ کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
پاکستان کے قیام کے فوری بعد ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ نے مسلم لیگ اور قائداعظم کو ناکام بنانے کے لیے اتحاد کیا اور اس کام میں عدلیہ نے ایک اہم کردار ادا کیا جس کی بدولت ملک ابتدائی دنوں سے ہی منزل سے دور ہوتا گیا اور ملک جو کہ وفاقی فیڈریشن کے اصول پر تشکیل دیا گیا تھا اس میں غیر جمہوری اور صدارتی آمریت کا راستہ ہموار کیا گیا اس سے وفاق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور آخرکار ملک عبرت ناک شکست اور تقسیم سے دوچار ہوا۔
اس کے بعد کچھ عرصہ جمہوریت کو موقع ملا مگر ساتھ ساتھ ہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اس کے اتحادی قوتوں نے جمہوریت کو لپیٹنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں اور آخرکار 1977 میں دوبارہ سے طویل ملٹری ڈکٹیٹر شپ قائم ئو گی ان تمام عرصے میں جمہوری قوتوں اور تنظیمیں نے جمہوریت اور آزادی اظہار کے لیے طویل جدوجہد کی اور انتہائی قربانیاں دیں جو کہ ایک تاریخ کا روشن باب ہے۔ اور اس کے دوران ہی مختلف نئے پراڈکٹس پر کام جاری رہا اور اس
اس کے بعد مجبوراً نیم جمہوری ادوار کا سلسلہ جاری رہا اور ایک پرڈاکٹ ایم کیو ایم کو لانچ کیا گیا جس نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کیا۔
اس دوران پرڈاکٹ عمران خان پر کام کا آغاز کیا گیا جس کے بانی جنرل حمید گل تھے اور بعد میں دیگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ایم عہدے داروں نے یہ کام سرانجام دیا۔ مگر جب مشرف نے ملٹری ڈکٹیٹر شپ قائم کر دی تو اسکو مشرف کی حمایت کرنے کے لئے استعمال کیا گیا اور اس سے اقتدار میں حصہ دینے کا وعدہ بھی کیا گیا
اسوقت سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہو چکی تھی کہ یہ پرڈاکٹ صرف اپنی انا اور اقتدار کا بھوکا ہے اسلئے جب اس نے مشرف سے اپنا حصہ اپنے قد سے زیادہ طلب کیا تو اس کو انکار کر دیا گیا کیونکہ اس کی عوامی حمایت اور حیثیت بہت کم تھی اور الیکشن کے دوران وہ صرف اپنی ہی ایک واحد سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوا وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے۔ اس پر یہ مشرف سے بھی ناراض ہو گیا اور اپنا ووٹ وزیراعظم کے انتخاب میں اپوزیشن کے امیدوار مولانا فضل الرحمن کو دیا۔
جب عوامی تحریک کے نتیجے میں ڈکٹیٹر مشرف کا اقتدار ڈگمگا نے لگا اور جمہوریت کی بحالی کو مجبوراً تسلیم کرنا پڑا۔ اس مرحلے پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان پرڈاکٹ کو لانچ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے اہم کرداروں میں جنرل پاشا اوردیگر اس وقت کے ملٹری کمانڈرز شامل تھے اور اس کے بعد ہر آنے والے آرمی چیف اور دیگر کمانڈرز نے اس کو پروان چڑھیا۔
کیونکہ اس وقت جمہوری قوتوں مضبوط ہو رہی تھیں اور ان سب نے مل کر آئین میں ملٹری ڈکٹیٹروں کی جانب کی گئی ترامیم کو ختم کر کے اس کی وفاقی جمہوری روح کو بحال کر دیا تھا جس سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا تھا پاکستان چائنا راہداری منصوبہ پر کام کا آغاز ئو چکا تھا اور ملک میں بجلی اور گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تمام اقدامات اٹھائے جانے لگے تھے
یہ بات ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول نہیں تھی اسلئے ملک میں جمہوریت اور آزادی کو لگام لگانے کے لئے پرڈاکٹ عمران اور عدلیہ کا استعمال کیا گیا۔ اور اس گھناؤنے، ملک دشمن، غیر آئینی اقدامات میں اس وقت سے لیکر آجتک کے ملٹری کمانڈرز کی کافی تعداد شامل ہیں
2018 کے انتخابات میں عمران خان کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ریاستی اور غیر ریاستی وسائل استعمال کیے گئے۔ لوگوں کو پارٹیاں بدلنے پر مجبور کیا گیا اور اسٹیبلشمنٹ کی مخالف جماعتوں میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود عمران خان اب بھی خاطر خواہ نشستیں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا اس لیے ان انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے تاریخی دھاندلی کا فیصلہ کیا۔ رات کو ار ٹی ایس کو بند کردیا گیا اور نتائج کا اعلان دس بارہ گھنٹوں کے دوران
روک کر تمام نتائج کو دوبارہ سے مرتب کرکے اعلان کیا گیا اس دوران انتخابی نتائج کے فارم کو تبدیل کرکے جلد بازی میں اعلانات انتہائی تاخیر سے اعلان کیا گیا جس پر غیر جانبدار حلقوں اور انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والے اداروں کی جانب سے انتہائی اہم اعتراضات اٹھائے گئے
ان انتخابات کے حوالے سے صرف ایک ہی واقعہ ان کی غیر شفافیت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے یہ مجودہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے حلقہ انتخاب کی کہانی ہے جس کے نتائج کو جب چیلنج کیا گیا تو اس حلقے کے انتخابی مواد کو جب الیکشن کمیشن کے تحت قائم کردہ قانونی عدالت نے جائزہ لیا تو اس الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ہزاروں سے زائد ووٹر لسٹ میں جو انگوٹھے کے نشانات ہیں وہ انسانی انگوٹھے نہیں ہے یہ انتہائی اہمیت کا حامل فیصلہ تھا اور پورے الیکشن کی غیر شفافیت کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے اس کو چھپانے کیلئے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ سے رکوا دیا گیا اور اج تک اس کا فیصلہ نہیں کیا گیا عرصہ گزرنے کے باوجود سپریم کورٹ اس کیس کو نہیں لگا رہی تاکہ اس پر پردہ پوشی برقرار رہے۔
اس کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مستقبل اقتدار پر براجمان رہنے اور اپنے کٹھ پتلی عمران خان کے ذریعے ایک طویل مدتی ایجنڈے پر عمل درآمد شروع کر دیا جس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا قانون بھی شامل تھا تاکہ الیکشن کے بعد کسی قسم کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہ ہو جس سے الیکشن میں کی گئی دھاندلی ثابت ہو سکے اور تمام الیکشن قاسم سوری کے الیکشن کی طرز پر کرانے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
اور بعد میں صدارتی نظام کا شوشا چھوڑا گیا جو کہ ان کے مذموم مقاصد کو مکمل طور پر عیاں کرتا تھا۔
ان تمام تر اقدامات کے باوجود عمران خان مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے بلکہ پنجاب اسمبلی میں تو مسلم لیگ واضح برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اس لیے اس حکومت کو بنوانے کے لئے مختلف حربوں اور لوگوں کو ساتھ ملا کر ایک غیر مقبول حکومت کو بٹھایا گیا
اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر اقدامات اور حمایت کے باوجود عمران خان کی کٹھ پتلی حکومت پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ ناکام حکومت ثابت ہوئی اس دوران عوامی کے مسائل میں شدید اضافہ ہوا اور اس دوران عمران خان کے ساتھیوں نے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کئے جن کے اثرات عوام اج اور انے والے دنوں میں بھی محسوس ہوتے رہے گئے
ان چند میگا کرپشن کے کیسز میں شامل:
انٹرسٹ کو غیر معمولی طور انتہائی خطرناک حد تک اضافہ ۔ اس سے وہ لوگ جنہوں نے عمران خان پر پیسے لگائے تھے ان کو موقع دیا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں اسطرح سے پاکستان میں ہوٹ منی کا آغاز ہوا۔ اس بات کا زکر کرنا ضروری ہے کہ یہ اس وقت کیا گیا جب پوری دنیا میں انٹرسٹ انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گیا تھا اور انہوں نے راتوں رات عربوں ڈالرز کا منافع حاصل کیا اسطرح جب یہ انوسٹمنٹ قومی خزانے سے نکلنے کا عمل شروع ہوا تو اس کا بھیانک نتائج پاکستانی کرنسی پر پڑھا اور پاکستانی روپے تاریخ کی بدترین نچلی سطح پر پہنچ گیا اس سے پاکستان کے معاشی صورتحال انتہائی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے
چینی اسکینڈل
گندم اسکینڈ ل
پٹرول اسکینڈ ل
سی این جی اسکینڈل
کھار اسکینڈل
ادویات اسکینڈ ل
ملک ریاض کی برطانیہ میں عائد جرمانے کی رقم غیر قانونی طور پر اس کو واپس کر کے اس کے پاکستانی جرمانے کی ادائیگی
ٹیکس ایمنسٹی ااسکیموں تین بار متعارف کروایا گیا تاکہ کرپشن کی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کرنا
یہ وفاقی حکومت کے بڑے اسکینڈلز میں سے کچھ وہ ہیں جو منظر عام پر اچکے ہیں مزید حکومت کے خاتمے کے بعد ظاہر ہو جائیں گے۔ صوبائی حکومتیں کے اسکینڈلز الگ ہیں ۔
عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں تمام وسائل مسلم لیگ و دیگر اپوزیشن کے ارکان کو انتقام کا نشانہ بنایا تاکہ وہ اس حکومت کے غیر قانونی طور پر اقتدار میں آنے کے عمل پر خاموشی اختیار کریں لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ اس تمام عرصے میں ڈٹی رہی اور تمام سیاسی ریاستی دہشت گردی کے باوجود اس کی عوامی حمایت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔
ان دوران ملک تیزی سے معاشی بحران کا شکار ہوتا گیا اور ملک دیوالیہ کے قریب پہنچ گیا
ان حالات میں جب کہ مسلم لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو عوام میں مسلسل بے نقاب کیا
جس سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں موجود کمانڈرز کے درمیان تقسیم واضح ہو کر سامنے آئی اور آخرکار ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو حالات کے جبر اپنے کردار کو کچھ حد تک محدود کرنے کے بارے میں سوچنا پڑہا۔ اس سلسلے میں رابطے بحال کرکے معاملات کو حل کرنے پر غور شروع کیا گیا اس سلسلے میں مسلم لیگ نے واضح یقین دہانی کرانے کو کہا جس سے یہ بات ثابت ہو کہ اب سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی کوئی مداخلت نہیں ہو گی اور وہ واضح طور پر غیر جانبدار ہو کر سیاسی جماعتوں کو کام کرنے دیں گی اس واضح یقین دہانی کے بعد اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کا اعلان کر دیا تاکہ اسٹیبلشمنٹ کی یقین دہانی کو آزمایا جائے لیکن اس دوران دوبارہ سے ایک حلقے سے کچھ مداخلت کی خبریں موصول ہوئیں جس کی بروقت نشاندہی مسلم لیگ نے کی اور اس کا فوری نوٹس بھی اسٹیبلشمنٹ نے لیا اور ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کو غیر جانب رہنے کا حکم جاری کیا ۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جب عمران خان کو اپنی حکومت کی شکست کا یقین ہوگیا اور اس ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اس کے ہمدردوں کی تعداد کم ہو گئی تو اس نے نہ صرف ملک دشمنی میں ایسے معاشی فیصلے کئے جن کو خود اس کے وزیر نے معیشت میں بارودی سرنگیں لگانے سے تشبیہ دیا ہے تاکہ آئندہ آنے والے دنوں میں ملککو تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑے۔
ان حالات میں نہی حکومت نے انتہائی نامساعد حالات میں انتہائی بھرپور کوششوں سے اس بحران سے نکالنے میں مصروف ہیں اور دوسری طرف عمران خان مسلسل آٹھ ماہ سے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے ملک دشمن ایجنڈے پر کاربند ہے۔
اس مہم میں اس کے تمام حمایتوں جو کہ پچھلے نظام حکومت سے وابستہ اور مسفید ہوتے رہے ہیں ان کے وسائل کا استعمال اور بیرونی ممالک میں مقیم لوگوں سے ملک دشمن پروپگنڈہ کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال شامل ہے۔
اس مہم کا واحد مقصد پاکستان میں انتشار، افراتفری اور مسلح افواج میں اپنے ہمدردوں کے ذریعے کسی ایسے شخص کو آرمی چیف بننے سے روکنا تھا جو کہ ملٹری کو اپنے آئینی کردار تک محدود رکھنے کا عزم رکھتا ہو۔
جنرل عاصم منیر کا راستہ روکنے کیلئے عمران خان نے جنرل باجوہ کو توسیع کی تجویز دی۔ اور آخری وقت تک مارشل لاء کی دھمکی بھی دی۔
جنرل عاصم منیر نے اس مقصد کے حصول کے لیے ذاتی طور پر انتہائی کوششیں کیں اور اس سلسلے میں ان کو ذاتی طور پر مختلف مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جب جنرل عاصم منیر نے آہی ایس آئی کے چیف کی حیثیت سے عمران خان کو اس کی بیوی، اسکی سہیلی فرح گوگی، ملک ریاض، عثمان بزدار اور دیگر کی کرپشن کے ثبوت پیش کیے تاکہ وہ اس پر ایکشن لے۔ اس نے اپنا کام انتہائی دیانت داری اور اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے دیا تھا لیکن کیونکہ عمران خان خود ان تمام افراد کی کرپشن کا بینفشری تھا تو اس کو یہ بات ناگوار گزری اور وہ اپنی کرپشن بےنقاب ہونے پر غصے میں آ گیا اور اس نے آرمی چیف کو جنرل عاصم منیر کو اس عہدے سے ہٹانے کے لئے زور دیا۔ یہ آرمی قوانین کے برخلاف تھا اور آئی ایس آئی چیف کو اس کی مدت مکمل کئے بغیر ہٹایا نہیں جاتا۔ مگر کیونکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ پوری طرح عمران خان کی حمایت میں ہر غیر قانونی کام کر رہی تھی اسلئے اس نے اپنے ادارے کی روایت کو بھی عمران خان کی خواہش کے نظر کر دیا اور صرف چند ماہ میں ہی جنرل عاصم منیر کو اس عہدے سے ہٹا دیا اور عمران خان کے منہ پسند فیض حمید کو اس جگہ پر تعینات کر دیا گیا جس کے بعد آرمی کی تمام سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کے واقعات ہماری تاریخ کا بدترین باب ہے۔
جنرل عاصم منیر ایک پیشہ ور سپاہی ہیں اور ہمیشہ اپنے فرائض آئینی دائرے میں رہ کر انجام دیتے رہے انہوں نے ملٹری کی اعلی قیادت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے آپ کو سیاست سے دستبردار کرتے ہوئے اپنے آئینی کردار تک محدود ہو جائے تاکہ ملک میں جمہوریت اور آئینی تقاضوں کو پورا کیا جا سکے مگر اسوقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جنہوں نے عمران خان کو لانچ کرنے اور اقتدار میں لانے کے لیے تمام غیر قانونی اقدامات کئے تھے اسلئے انہوں نے جنرل عاصم منیر اور اس کے ساتھیوں کی بات نہیں مانی۔ جن میں اہم کردار جنرل باجوہ، فیض حمید، آصف غفور اور دیگر شامل ہیں مگر جب حالات قابو سے باہر نکل گئے اور عمران خان کی نااہلی اور اس کی کرپشن نے ملک کو شدید بحران میں مبتلا کر دیا اور دنیا سے پاکستان کے تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ گیا تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں ان لوگوں کی اکثریت ہو گئی جو ملٹری کے سیاسی کردار سے دستبردار ہونے کے لیے زور دیتے تھے اسطرح پچھلے سال ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو سیاست سے دستبردار کرتے ہوئے اپنے آپ کو آئینی کردار تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے میں سب سے اہم کردار جنرل عاصم منیر اور جنرل ساحر شمشاد اور دیگر کا ہے اگرچہ اس میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے عمران خان اور اس کے ہمدردوں نے بھرپور کوشش کی حتی کہ کل تک عمران خان نے جنرل عاصم منیر کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے آخری حربہ بھی استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ قانون اور آئین کے مطابق اس پر کھیلیں گے مگر حکومت نے اس کے تمام حربوں کو ناکام بنانے کیلئے تمام قانونی اقدامات کا اعلان کر دیا جس پر عمران خان اپنے اس اعلان پر چند گھنٹے بھی کھڑے نہ رہے اور چند گھنٹوں میں ہی جنرل عاصم منیر کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
اس کے بعد عمران خان کے پاس مایوسی کی علاوہ کچھ نہیں بچا اور آخری کوشش کے طور پر اس نے اب پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا ہے مگر اس پو ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔
یہ صورتحال انتہائی دلچسپ ہے ابھی تک پنجاب کے وزیر اعلی کا انتخاب ایک متنازعہ فیصلہ سے ہوا ہے اور اس کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس کے نتیجے پر بھی بہت سے قانونی اور آئینی معاملات کا انحصار ہے اس کے باوجود اگر ان اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جاتا ہے تو وہاں پر عبوری غیر جانبدار حکومتوں کا قیام عمل میں آے گا جو عمران خان کے لیے شدید مشکلات پیدا کر سکتا ہے اسوقت صوبائی حکومت عمران خان کو وزیراعظم سے زیادہ پروٹوکول دے رہی ہے جو کہ مکمل طور پر ختم ہو جائے گا اور وہ تمام کیسز جن کا تعلق عمران خان اور اس کے خاندان اور دیگر ساتھیوں سے منسلک ہیں اور جن کو موجودہ حکومت نے بند کر دیا تھا وہ دوبارہ سے شروع ہو جائیں گے اور عمران خان کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
دوسری طرف ان صوبائی الیکشن میں عمران خان اور اپوزیشن کو اپنی عوامی حمایت ثابت کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔
یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ اسوقت عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم اور میڈیا میں اس کے حمایتی اس قسم کا تاثر دے رہے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت بہت زیادہ ہے اور وہ الیکشن آسانی سے جیت سکتا ہے۔ ان باتوں کو بغیر تحقیق کے کوئی بھی ثابت نہیں کر سکتا۔ حالیہ لانگ مارچ اور آخری اجتماع جس کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہونے کے دعوے کئے گئے تھے وہ صرف چند ہزار افراد تک ہی محدود تھا باوجود کہ اسمیں تمام حکومتی اور پارٹی وسائل کا بھرپور استعمال کیا گیا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں کل پیپلزپارٹی نے بغیر کسی پبلسٹی کے کراچی میں ایک ایسا ہی مقامی جلسہ منعقد کیا ہے۔
اس سلسلے میں چند دن پہلے آزاد کشمیر میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے جہاں پر عمران خان کی پارٹی جو اقتدار پر فائز ہے خو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے
اسلئے آئندہ ہونے والے انتخابات کے نتائج کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ اور جب انتخابات کا انعقاد ہو گا تو اس وقت انتخابی حلقوں کی سیاست اور اتحادیوں کی صف بندیوں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔
مگر اسوقت ملک کو دوبارہ سے انتخابات کے ماحول میں داخل کرنے سے ملک میں معاشی بحران سے نکالنے کے ایجنڈے میں رکاوٹیں کھڑی ہو سکتی ہیں کیونکہ دنیا پھر اس بات کا انتظار کرنے کو ترجیح دی گئی کی الیکشن کے نتائج کے بعد والی حکومت سے معاملات طے کئے جائیں۔
دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں سیاست کا کیا رخ متعین ہو گا۔
.jpeg)
0 Comments