اضی کے جھروکوں سے . دو برس قبل لکھا گیا مضمون
نومبر 26، 2022
تحریر: ممتاز ہاشمی
آخرکار وہ دن بھی گزر گیا جسے ایک طویل عرصے سے عمران خان نے حقیقی آزادی حاصل کرنے کے دن سے منسوب کیا جاتا رہا تھا آج کے اس اجتماع کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع کہا جا رہا تھا اور اس کے لئے پاکستان کے حکومتی وسائل کا بے دریغ استعمال بھی کیا گیا جس میں پنجاب، کے پی کے، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کی صوبائی حکومتوں کے تمام تر وسائل بروئے کار لائے گئے تھے اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے تمام ممبران اسمبلیوں کو خصوصی ٹاسک دیے گئے تھے کہ وہ اپنے ذاتی وسائل سے لوگوں کی اس اجتماع میں شرکت بنائیں ان تمام کاوشوں کے باوجود آج کل اجتماع ایک مکمل طور پر ناکام شو تھا اور اس میں عوام کی شرکت کسی بھی دوسرے جلسوں کی نسبت کم تھی۔ اس بات کو خود عمران خان نے بھی تسلیم کیا اور عوام کی قلیل تعداد کے پیش نظر اس نے راولپنڈی پہنچ کر دو گھنٹے تک انتظار کیا تاکہ کچھ لوگوں کو مزید جلسہ گاہ میں پہنچایا جا سکے مگر اس کا کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔
اگرچہ گزشتہ دن اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر عمران خان کا خطاب مغرب کی نماز سے پہلے ختم کر دیا جائے گا مگر عوام کی قلیل تعداد میں شرکت کی بناء پر اس میں بہت تاخیر کی گئی۔
آج کی تقریر میں عمران خان نے کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ سب کھچ وہی کہا جو وہ گزشتہ چند ماہ سے مسلسل کرتا رہا ہے اور اس پر کافی بحث ہو چکی ہیں اور اس کے جواب میں وہ کسی قسم کے ٹھوس شواہد دینے سے قاصر ہے اسلئے اس بات کرنے کے بجائے جو اہم اعلان اس نے کیا ہے اس پر ہی بات کو محدود رکھنے کی ضرورت ہے
اب عمران خان کے آئندہ کے لائحہ عمل کی بات کرتے ہیں عمران خان کا اعلان تھا کہ وہ اس آزادی مارچ سے حکومت کو گھر بھیجنے اور الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کا باعث بنے گا مگر آج عمران خان نے اپنی مایوسی کا اظہار اسطرح سے کیا کہ اس نے خود ہی اپنے اراکین اسمبلیوں سے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے جس کے نتیجے کے طور پر اس کی تمام موجودہ حکومتیں ختم ہو جائیں گی
اگرچہ کچھ لوگ اس کو عمران خان کی سیاسی کارڈ کے استعمال سے تشبیہ بھی دیں گے مگر اس کے منفی اثرات عمران خان کے لیے انتہائی پریشان کن اور خوفناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
جہاں تک کے پی کے کا تعلق ہے تو عمران خان اس اسمبلی کو تحلیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے وفاق اس صوبے میں گورنر راج نافذ کر سکتا ہے اور اس کی توثیق پارلیمنٹ سے کروائی جائے گی۔
جہاں تک پنجاب اسمبلی کا تعلق ہے اس کے وزیر اعلی کا انتخاب متنازعہ ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اسلئے اس کی تحلیل کو گورنر نا منظور کر سکتا ہے اور سپریم کورٹ سے اس صورت میں رجوع بھی کیا جا سکتا ہے انتہائی ضرورت کے تحت وفاق پنجاب میں گورنر راج نافذ کر سکتا ہے۔
اس صورتحال میں عمران خان کے پاس اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا آپشن موجود ہے اور یہ ملک کے مختلف علاقوں میں ضمنی انتخابات کی طرف جانے کا سبب بن سکتا ہے اس کو نمٹنے کیلئے حکومت انتخابی قوانین میں ترامیم کر سکتی ہے
مگر جب عمران خان سے ان حکومتی تحفظ نہیں ہو گا تو اس کے لیے کافی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور اس کی گرفتاری جو ابھی تک رکی ہوئی ہے وہ عمل میں آجائے گی اور عوام کو اس بحرانی کیفیت سے نجات مل جائے گی۔
جہاں تک آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا تعلق ہے اگر آج عمران خان وہاں کی اسمبلیوں کو تحلیل کرتے ہیں تو وہاں پر دوبارہ انتخابات ہو سکتے ہیں اور آج کی صورتحال میں جب کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات سے دستبردار ہو چکی ہے اسلئے ان حالات میں ان اسمبلیوں میں عمران خان کے لیے دوبارہ سے الیکشن جتنا ناممکن ہے۔
اسلئے لگتا یہ ہے کہ عمران خان کے آج کا اعلان بھی ماضی کی طرح یو ٹرن پر خاتمہ ہو گا۔
ReplyForward |

0 Comments