ماضی کے جھروکوں سے
دو برس قبل لکھا گیا مضمون
دسمبر 17، 2024L
تحریر: ممتاز ہاشمی
آج آخرکار عمران خان نے دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے دن کا اعلان کر دیا ہے اور اس کی تحلیل کے لیے 23 دسمبر کو منتخب کیا ہے اس کے قانونی اور آئینی تقاضوں پر نظر ڈالنے سے پہلے اس وقفے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
دراصل اس تاخیر کا اصل مقصد عمران خان کے اتحادی باجوہ اینڈ کمپنی اور اس کے ان کرداروں کو جو ابھی تک ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہے ان کو موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ ایک اور کوشش کرکے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دوبارہ سے سیاست میں مداخلت کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف دائر مختلف کیسز سے ریلیف کا راستہ نکالنا ہے ورنہ اس کے خلاف مکمل شواہد اور ثبوت موجود ہیں اور اس میں عمران خان کو قید کی سزا لازمی ہے۔ ان تمام ہتھکنڈوں کا واحد مقصد عمران خان کا اپنے اور اپنی بیوی کے لیے مقدمات سے نجات
کا کوئی راستہ نکالنا ہے۔
اس بارے میں پنجاب اسمبلی کی آئینی اور قانونی پوزیشن کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ پنجاب حکومت کے چیف منسٹر کا انتخاب صوبائی اسمبلی سے نہیں ہوا بلکہ اس کو ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے اس عہدے پر فائز کیا گیا ہے اور اس فیصلے کو عدلیہ میں چیلنج کیا ہوا ہے اور کئی ماہ سے اس کیس کی سماعت نہیں ہوئی۔ اسلئے جب تک چیف منسٹر کی اپنی آئینی حیثیت متعین نہیں ہوتی ان کو اسمبلی کے تحلیل کے اختیارات استعمال کرنے کی قانونی اجازت نہیں ہے۔
غالب امکان ہے کہ اگر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی تحلیل کرنے کی سمری پیش ہوتی ہے تو اس پر کوئی عدالتی حکم کے ذریعے عملدرآمد روک جائے گا
دوسری طرف قاف لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی درخواست بھی زیر سماعت ہے جس میں ان کی پارٹی سربراہ کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہوئے ان کی ہدایات پر عمل درآمد کرنے کا کہا گیا ہے اور اس پر کوئی بھی فیصلہ پرویز الٰہی کی اپنی حیثیت کو متنازعہ بنا سکتا ہے اور ان کی اپنی اسمبلی کی رکنیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
دوسری جانب حکومت کو صوبائی انتخابات میں کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ اگر اج پنجاب اور کے پی کے میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو عمران خان کے لیے کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ وہ تمام ادارے جنہوں نے پچھلے انتخابات میں عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے تمام غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے استعمال کیے تھے وہ اب اپنے اس کردار سے دستبردار ہو چکے ہیں اور آئندہ انتخابات میں عمران خان کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں گے اور اسطرح سے ان انتخابات میں عمران خان کی شکست یقینی ہے۔
حکومت کو صرف اس بات کی تشویش ہے کہ اگر اس وقت ملک انتخابات کی طرف چلا جاتا ہے اور نگران حکومتوں کو فائز کیا جاتا ہے تو پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ دنیا کے ادارے اپنے معاملات صرف منتخب حکومتوں سے طے کرتے ہیں اور اس وقت پاکستان ایک نازک معاشی بحران سے دوچار ہے جس طرح سے آج پوری دنیا میں معاشی بحران شدت اختیار کر چکا ہے اور مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور دنیا کے انتہائی دولت مند اور ترقی یافتہ ممالک بھی اس کا کوئی سدباب کرنے میں ناکام رہے ہیں اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں اس کی شدت بہت زیادہ محسوس کی جا سکتی ہے اسلئے اس وقت انتخابات کی طرف جانے سے ملک کے مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
جہاں تک عمران خان کا یہ دعوی ہے کہ وہ ہر حال میں ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گا اس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آج ہی کے اجتماع کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آج جس اجتماع کو انتہائی اہمیت کے اعلان کے لیے منتخب کیا گیا تھا اس میں لاہور جیسے شہر میں پانچ ہزار افراد کی شرکت ہی کافی کچھ بتا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر جس طرح سے صوبائی حکومتوں اور دیگر اشرافیہ کے وسائل سے جو جھوٹ پر مبنی مہم چلائی جا رہی تھی اج اس میں بھی نمایاں طورپر کمی دیکھنے کو ملتی ہے خاص طور پر ٹوہیٹر کے نئے مالک کی پالیسی کے تحت جب جعلی اکاؤنٹس کا سراغ لگا کر ان کو بند کردیا گیا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ لاکھوں کی تعداد میں عمران خان کے فالورز کے اکاؤنٹس بلاک ہو گئے ہیں۔
بہرحال آئندہ کے دنوں میں سیاست میں تیزی آئے گی اور معاملات کا رخ کیا صورت اختیار کرے گا جلد ہی واضح ہو جائے گا۔
.jpeg)
0 Comments