تحریر: ممتاز ہاشمی
سانحۂ سقوطِ حڈھاکہ (۱۹۷۱ء) کو نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہےاور ہماری اکثریت اس سانحہ کو بھول چکی ہے۔ مزید یہ کہ نئی نسل کو اس بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں ہیں‘اس لیے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس تاریخی شکست اور سانحہ کو یاد کرتے ہوئے اپنی اصلاح کریں۔ سب سے پہلے ہمیں تصوّرِ پاکستان اور اس کے قیام کے پس منظر پر غور کرنا ہوگا اور تمام حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ پاکستان کیوں بنایا گیا تھا۔ پاکستان کی تخلیق ایک معجزہ ہے اور اس کی بہترین وضاحت ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے یوں بیان کی ہے کہ اگر غور وفکر کیا جائے تو ہمیں اس کا تذکرہ قرآن حکیم میں ملتا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
"اور یاد کرو جس وقت تم تھوڑے تھے ‘ملک میں کمزور سمجھے جاتے تھے‘ تم ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اُچک لیں‘پھر اس نے تمہیں ٹھکانا بنا دیا اور اپنی مدد سے تمہیں قوت دی اور تمہیں ستھری چیزوں سے رزق دیا تاکہ تم شکر کرو۔" ( الانفال:۲۶)
یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین پر "دین اسلام" کوقائم کرنے کے حوالے سے ہمارے بزرگوں کے عزم کو جانچنے کا موقع فراہم کیا ۔
پاکستان کے قیام کی فکری بنیاد علامہ اقبال نے رکھی۔ اُس وقت پوری ملت ِاسلامیہ شکست خوردہ اور غلامی میں جکڑی ہوئی تھی اور زمین کے کسی بھی خطے میں اسلام کا نظام بالفعل نافذ نہیں تھا۔ دین اسلام کا تصوّر مکمل طور پر ختم ہو گیا تھا اور مسلمانوں میں ذہنی غلامی اور پسماندگی سرایت کر چکی تھی۔ ان حالات میں جب کہ دین اسلام مکمل طور پر مغلوب ہو چکا تھا اور مسلمانوں میں اسلام صرف مذہبی عبادات اور رسومات تک محدود ہو کر رہ گیا تھا، اللہ تعالیٰ نے علامہ اقبال کو یہ صلاحیت عطا کی کہ وہ مسلمانوں کو اپنا بھولا ہوا سبق یاد دلا کر ان میں دوبارہ سے اسلام کی عظمت کو بحال کرنے کا عزم پیدا کریں۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو ان کے زوال کی وجوہات سے آگاہ کرتے ہوئے اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ دکھایا۔ انہوں نے اپنے پیغام کو اردو اور فارسی اشعار کا جامہ پہنا کر اسے مسلمانوں کی بیداری کے لیے استعمال کیا اور اس کے لیے عملی لائحۂ عمل فراہم کیا۔
علامہ اقبال نے دنیا میں احیاء ِاسلام کے لیے پاکستان کا تصوّر پیش کیا‘ جس کے مطابق اس نئی مسلم مملکت ‘جو کہ ہندوستان کے اکثریتی مسلم آبادی والے صوبوں پر مشتمل ہوگی‘اس میں اسلام کے نظام کومکمل طور پر نافذ کرنے کا موقع ملے گا اور اس طرح اسلام کا حقیقی تصوّر جو کہ خلافت راشدہ کا ماڈل ہو گا، وہ پوری دنیا کے لیے ایک واضح پیغام ہو گا کہ تمام دنیا اس نظام کے ثمرات کو دیکھے اوراسلام کی طرف مائل ہو۔
علامہ اقبال نے اس کام کی تکمیل کے لیے قائداعظم ، جو کہ مسلم لیگ کے رہنماؤں کے رویے سے مایوس ہو کر لندن جا چکے تھے‘کو قائل کیا اوروہ اقبال کے فلسفہ پر عمل کرنے کے لیے واپس ہندوستان آئے اور پاکستان کی تخلیق کے لیے انتہائی محنت کی۔ انہوں نے قیامِ پاکستان کو دین اسلام کے بنیادی مقاصد سے مکمل طور پر منسلک کر دیا۔ قائداعظم نے اس جدّوجُہد میں علامہ اقبال کے بیان کردہ راستے کی روشنی میں کامیابی حاصل کی اور آخرکار ۱۴/اگست ۱۹۴۷ء کو دنیا میں ایک نئی ریاست دین اسلام کے نفاذ کے لیے وجود میں آئی۔
قیامِ پاکستان کی جدّوجہد میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں، عزتیں اور جائیدادیں کھوئیں اورلاکھوں مسلمانوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ اس ہجرت میں مسلمانوں کو درپیش مشکلات اور اس بارے میں ہزاروں کہانیاں ہماری تاریخ کا لازمی حصہ ہے۔
ہماری نسل علامہ محمد اسد کے نام سے بھی واقف نہیں ہے ‘ جنہوں نے۱۴ /اگست۱۹۴۷ء کو بانی قوم کے ذریعہ پاکستانی شہریت حاصل کی۔ قائد اعظم نے انہیں پاکستان کا سیاسی، معاشرتی، معاشی اور تعلیمی نظام تیار کرنے کا کام سونپا تھا اورانہیں شعبہ اسلامی تعمیر نو کا ڈائریکٹر بنایا گیاتھا۔ وہ ایک یہودی تھا جس نے اسلام قبول کیا تھا۔ ہندوستان کے دورے کے دوران علامہ اقبال نے انہیں اس بات پر راضی کیا کہ وہ مشرق کی طرف اپنا سفر ملتوی کر دیں اورنئی وجود میں آنے والی اسلامی ریاست کو اپنا مسکن بنالیں تاکہ ان کی خدمات سےآئندہ اسلامی ریاست کے فکری احاطے کی وضاحت کرنے میں مدد ملے۔
قیامِ پاکستان کے بعد علامہ اسد نے انتہائی محنت اور لگن سے اس کام کو تکمیل تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی سفارش میں نیا نصاب تیار ہونے تک تمام پرائمری اسکولوں کو بند رکھنے کی تجویز پیش کی کہ ہم نئی نسل کو اس وقت کی رائج تعلیم سکھانے کے بجائے گھروں میں کھیلنے دیں ۔
انہوں نے اپنا کام عقیدت کے ساتھ کیا اور بہت سارا مواد منظوری اور عمل درآمد کے لیے تیار کیا، لیکن بدقسمتی سے قائداعظم وفات پاگئے اورعلامہ اسد کی سفارشات پر کچھ بھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ہاں کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ممبران کی بڑی تعداد اپنے برطانوی آقاؤں کی وفادار تھی اور انہوں نے پہلے ہی دن سے اس کام میں رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کردیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم کی وفات کے فوراً بعد محکمہ اسلامی تعمیر نو کو ختم کرکے علامہ اسد کے قیمتی سامان اور کاموں کو تباہ کردیاگیا۔ اس صورتحال کی وجہ سے وہ یہاں سے سعودی عرب چلے گئے۔
اس بات کو ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان کے اتحاد اور یکجہتی کی بنیاد صرف اور صرف "دین اسلام" تھی، ورنہ پاکستان کے مختلف صوبوں اور علاقوں میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جو ایک قومی وحدت کی علامت بن سکے۔ تمام صوبوں کی زبانیں، رہن سہن اورثقافت ورسومات میں کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ اس لیے پاکستان کی بقا، اور ترقی کا واحد راستہ دین اسلام کے نفاذ میں پوشیدہ تھا جس سے دانستہ طور پر صرفِ نظر کیا گیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد سب سے بڑی غلطی "اردو" کو قومی زبان قرار دینے کا حکم نامہ تھا۔ اس کا بہت زیادہ ردّ ِعمل مختلف صوبوں میں ہوا، خاص طور پر مشرقی پاکستان میں اس پر شدید احتجاج ہوا جو کہ پاکستان کی تقسیم کی جانب پہلا قدم ثابت ہوا۔ اس دوران مشرقی پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے احتجاج کو روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا اور ۲۱ فروری۱۹۵۲ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہونے والے عوامی مظاہرے پر پولیس نے فائرنگ کر دی جس سے بہت سی اموات ہوئیں اور سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ اس واقعہ نے تاریخ میں بہت شہرت حاصل کی اور آج دنیا بھر میں اس واقعہ کی یاد میں مادری زبانوں کا عالمی دن۲۱ فروری کو اقوام متحدہ کے ڈیکلریشن کے تحت منایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کے حصے میں جو بھی سول اور ملٹری بیوروکریسی آئی تھی، وہ اپنے برطانوی آقاؤں کی وفادار تھی اور ان کا پاکستان یا اسلام کے لیے نہ تو کوئی کردارتھا اور نہ انہیںاس مقصد سے کوئی غرض یا ہمدردی تھی۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق پنجاب یا ہندوستان کے اردو بولنے والے علاقوں سے تھااوران کا واحد مقصد کمزور ملکی نظام پر قابو پانا اور سول اور سیاسی حکومت پر اپنا اقتدار قائم کرنا تھا۔
پاکستانی تاریخ کے بعد کے واقعات اس بات کے ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ یہ ادارے کس طرح اقتدار کے ڈھانچے میں داخل ہوئے اور آخر کار۱۹۵۸ء میں فوجی اداروں کے ذریعہ مطلق اختیارات حاصل کیےا ور اس وقت کے بنگالی وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ اس واقعہ نے بنگالی عوام کے ذہنوں میں یہ بات مکمل طور پر بٹھا دی کہ ان کی حیثیت اس ملک میں غلاموں کی سی ہے۔ اس کے نتیجے میں اُن میں اپنے حقوق لینے کا جذبہ بیدار ہوااور آزادی کی تحریک کو جنم دیا۔
ملٹری ڈکٹیٹر، عدلیہ اور اس کی معاون سول اسٹیبلشمنٹ نے کبھی بھی ان حالات کو سمجھنے اور ان کے حل کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ سب لوٹ کھسوٹ کے استحصالی نظام کو مضبوط کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ڈٹےرہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرنے والے عقیدت مند مسلمانوں کو کنارے لگا دیا گیااور اقتدار کے ایوانوں پر لالچی، بے ضمیراور استحصالی طبقات حاوی ہو گئے۔ ان حالات میں کرپشن ، اقربا پروری اوررشوت خوری کا نظام رائج ہوگیا اور اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے اس ملک پاکستان میں دین اسلام کے نفاذ کے وعدوں کو مکمل طور پر فراموش کردیا گیا۔
اس دوران بنگالی عوام نے اپنے تحفظ اور حقوق کے لیے عوامی لیگ کو خوب پذیرائی دی اور بنگالی عوام پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور ملٹری ڈکٹیٹر شپ کے خلاف بھرپور کردار ادا کرتے رہے۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ایوب خان اور فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخاب کے دوران شیخ مجیب الرحمٰن‘ محترمہ فاطمہ جناح کے چیف پولنگ ایجنٹ کے فرائض انجام دے رہے تھےجس میں تاریخی دھندلی کے ذریعے ایوب خان کو فاتح قرار دیا گیا جس سے بنگالی عوام کا احساسِ محرومی مزید گہرا ہو گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ اس ملک پاکستان میں اللہ کی نافرمانی مزید بڑھتی رہی اور ہم شرک ، سود ، انسانی استحصال پر مبنی نظام کو مضبوط بنانے میں مصروف رہے۔ اس کے بعد ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں بنگالی عوام نے مکمل طور پر عوامی لیگ پر اپنے غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا اور وہ مشرقی پاکستان کی واحد جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی۔ لیکن یہ بات ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو کسی طرح بھی منظور نہیں تھی، لہٰذا اس نے اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں جس کا شدید ردّ ِعمل بنگالی عوام کی طرف سے ظاہرہوا۔اس پر نااہل اور کرپٹ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے بجائے بنگالی عوام پر ملٹری ایکشن شروع کر دیا جس کے نتیجے کے طور پر پاکستانی فوج کو تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑااور ہم نے مشرقی پاکستان کھودیا۔
اللہ تعالیٰ نے۱۹۷۱ء میں ہمیں بڑی شکست دے کر اور اس ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ہم پر عذاب کا کوڑا برسایا، لیکن ہم نے اس شکست سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اورآج نصف صدی گزرنے کے بعد بھی اپنی تمام صلاحیتوں اور قابلیت کے ساتھ اللہ کی نافرمانی کوجاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کا نتیجہ مزید تباہی و بربادی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے کہ آج پاکستان بھر میں زبان، فرقہ پرستی، سماجی اور علاقائی حدود کی بنیاد پر تقسیم پر مبنی نفرت میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ۱۹۷۱ء کے واقعات کی تحقیقات کے لیے حمود الرحمٰن کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی تھی جس میں اس کے ذمہ داروں کے گھناؤنے کرداروں کو بےنقاب کیا گیا تھا، لیکن اس رپورٹ کو دبا دیا گیا اور دوبارہ سے ملک میں ملٹری ڈکٹیٹر شپ نافذ کر دی گئی۔
اگرچہ بنگلہ دیش کا قیام ہمارے لیے ایک بہت بڑا سانحہ تھا مگر اس کا ایک آزاد اور الگ وجود آج بھی دو قومی نظریہ کی سچائی کی گواہی دے رہا ہے۔
اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان کی تخلیق اللہ سبحانہ و تعالٰی کا ایک معجزہ ہے اور اس کی تخلیق ایک خاص مقصد کے لیے ہے اور جو دنیا میں دوبارہ سے احیاء اسلام کے لیے ایک مرکزی کردار ادا کرنے کا ہے۔ اسلئے اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ سبحانہ و تعالٰی کے سپرد ہے۔
ہماری تاریخ گواہ ہے کہ اسلام دشمن قوتوں نے پوری توانائیوں کے ساتھ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور اس کے خاتمے کے متعدد سازشیں کیں ہیں اور جو آج بھی انتہائی شدت سے جاری ہیں ان اسلام دشمن قوتوں کو کچھ گمراہ اندرونی عناصر کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ مگر یہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی رحمت ہے کہ اس نے ان تمام سازشوں کو ہمیشہ ناکام بنایا ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ ناکامی سے دوچار کرے گا۔
ہمارے موجودہ حالات و معاملات ہماری ناکامیوں کو نمایاں طورپر ظاہر کرتے ہیں ۔ یہ اب بھی اللہ کی طرف سے ایک انتباہ ہے جو ہمیں دوبارہ راستے پر واپس آنے کا ایک اور موقع دے رہا ہے۔ آج ہمارے پاس اس دنیوی اور مستقل زندگی میں بقا اور کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ اللہ ربّ العزت سے سچے دل سے معافی مانگیں،اپنے اصل مقصد ِ تخلیق کی طرف واپس لوٹیں اورقیامِ پاکستان کے مقصد یعنی " دین اسلام " کے عملی نفاذ کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں اور وسائل کواس کے لیے وقف کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقصد کے لیے جدّوجُہد کرنے کی طاقت اور ہمت سے نوازے۔ آمین!
.jpeg)
0 Comments