Header Ads Widget

موجودہ سیاسی صورتحال اور ہماری ذمہ داریاںPresent political situation of Pakistan and our responsibilityie



 دسمبر 6، 2024

تحریر: ممتاز ہاشمی 

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بیشتر حصہ سیاہ  داغدار اور ملٹری آمریت پر مشتمل ہے ۔

قیام پاکستان کے فوری بعد ہی سازشوں کا دور شروع ہو گیا تھا اور پاکستان کو،اس کے قیام کے مقاصد سے ہٹانے کے لئے سول بیوروکریسی اور ملٹری بیوروکریسی نے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال شروع کر دیا تھا۔

کیونکہ قائداعظم کی جلد وفات کے بعد مسلم لیگ کی قیادت اس قابل نہیں تھی کہ وہ ان سازشوں کا بروقت اندازہ لگاتے ہوئے ان کو ناکام بنانے کیلئے اقدامات کرتی اسلئے یہ سازشی عناصر مضبوط یوتے چلے گئے اور اس میں عدلیہ بھی شامل ہو گئی۔

اور آخر کار 1958 میں ملک میں مکمل طور پر فوجی آمریت مسلط کر دی گئی جو ایک طویل عرصے تک نہ صرف۔سلط رہی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط بھی ہوتی گئی اور اس آمریت نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے مختلف سیاسی کٹھ پتلیوں کو فروغ دیا جس میں جماعت اسلامی سرفہرست تھی اس کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً مختلف گروہوں اور لسانی قوتوں کو فروغ دیا گیا تھا تاکہ ملک میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والی قوتوں کو قابو کیا جا سکے۔

اس عمل نے ملک میں انتشار اور نفرتوں کو فروغ دینے کا کام سرانجام دیا اور جو پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کے عظیم سانحہ کی شکل میں سامنے آیا۔

اس تمام عرصے میں عوامی حلقوں اور جمہوری قوتوں نے اس فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد جاری رکھی جس میں شاعر انقلاب حبیب جالب بھی شامل تھے۔

انہوں نے اس موقع پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو خبردار کرتے ہوئے یہ تاریخی اشعار کئے تھے:

محبت گولیوں سے بو رہے ہو

وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے 

یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو 

یہ اسوقت حبیب جالب نے کہا تھا جب ملک میں فوجی آمریت مسلط تھی اور وہ اس کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے میں بھی ان کے ساتھ اس جدوجہد میں شامل تھا۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد تھی۔

اس کے بعد کچھ عرصہ جمہوریت کو موقع ملا مگر ساتھ ساتھ ہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اس کے اتحادی قوتوں نے جمہوریت کو لپیٹنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں اور آخرکار 1977  میں دوبارہ سے طویل ملٹری ڈکٹیٹر شپ قائم ئو گی ان تمام عرصے میں جمہوری قوتوں اور تنظیمیں نے جمہوریت اور آزادی اظہار کے لیے طویل جدوجہد کی اور انتہائی قربانیاں دیں جو کہ ایک تاریخ کا روشن باب ہے۔ اور اس کے دوران  ہی مختلف نئے پراڈکٹس پر کام جاری رہا اور اس کے بعد مجبوراً نیم جمہوری ادوار کا سلس جاری رہا اور ایک پرڈاکٹ ایم کیو ایم کو لانچ کیا گیا جس نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کیا۔

اس دوران پرڈاکٹ عمران خان پر کام کا آغاز کیا گیا جس کے بانی جنرل حمید گل تھے اور بعد میں دیگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اہم عہدے داروں نے یہ کام سرانجام دیا۔ مگر جب مشرف نے ملٹری ڈکٹیٹر شپ قائم کر دی تو اسکو مشرف کی حمایت کرنے کے لئے استعمال کیا گیا اور اس سے اقتدار میں حصہ دینے کا وعدہ بھی کیا گیا 

اسوقت سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہو چکی تھی کہ یہ پرڈاکٹ صرف اپنی انا اور اقتدار کا بھوکا تھا اسلئے جب اس نے مشرف سے اپنا حصہ اپنے قد سے زیادہ طلب کیا تو اس کو انکار کر دیا گیا کیونکہ اس کی عوامی حمایت اور حیثیت بہت کم تھی اور الیکشن کے دوران وہ صرف اپنی ہی ایک واحد سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوا وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے۔ اس پر یہ مشرف سے بھی ناراض ہو گیا اور اپنا ووٹ وزیراعظم کے انتخاب میں اپوزیشن کے امیدوار مولانا فضل الرحمن کو دیا۔

جب عوامی تحریک کے نتیجے میں ڈکٹیٹر مشرف کا اقتدار ڈگمگا نے لگا اور جمہوریت کی بحالی کو مجبوراً تسلیم کرنا پڑا۔ اس مرحلے پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان پرڈاکٹ کو لانچ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے اہم کرداروں میں جنرل پاشا اوردیگر اس وقت کے ملٹری کمانڈرز شامل تھے اور اس کے بعد ہر آنے والے آرمی چیف اور دیگر کمانڈرز نے اس کو پروان چڑھیا۔ 

 اس وقت جمہوری قوتوں مضبوط ہو رہی تھیں اور ان سب نے مل کر آئین میں ملٹری ڈکٹیٹروں کی جانب کی گئی ترامیم کو ختم کر کے اس کی وفاقی جمہوری روح کو بحال کر دیا تھا جس سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا تھا پاکستان چائنا راہداری منصوبہ پر کام کا آغاز ئو چکا تھا اور ملک میں بجلی اور گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تمام اقدامات اٹھائے جانے لگے تھے 

 یہ بات ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول نہیں تھی اسلئے ملک میں جمہوریت اور آزادی کو لگام لگانے کے لئے پرڈاکٹ عمران اور عدلیہ کا استعمال کیا گیا۔ اور اس گھناؤنے،  ملک دشمن،  غیر آئینی اقدامات میں اس وقت سے لیکر آجتک کے ملٹری کمانڈرز کی کافی تعداد شامل ہیں 

2018 کے انتخابات میں عمران خان کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ریاستی اور غیر ریاستی  وسائل استعمال کیے گئے۔ لوگوں کو پارٹیاں بدلنے پر مجبور کیا گیا اور اسٹیبلشمنٹ کی مخالف جماعتوں میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود عمران خان  خاطر خواہ نشستیں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا اس لیے ان انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے تاریخی دھاندلی کا فیصلہ کیا۔ رات کو ار ٹی ایس  کو بند کردیا گیا اور نتائج کا اعلان دس بارہ گھنٹے روک کر تمام نتائج کو دوبارہ سے مرتب کرکے اعلان کیا گیا اس دوران انتخابی نتائج کے فارم کو تبدیل کرکے جلد بازی میں اعلانات انتہائی تاخیر سے اعلان کیا گیا جس پر غیر جانبدار حلقوں اور انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والے اداروں کی جانب سے انتہائی اہم اعتراضات اٹھائے گئے

ان تمام تر اقدامات کے باوجود عمران خان مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے بلکہ پنجاب اسمبلی میں تو مسلم لیگ واضح برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اس لیے اس حکومت کو بنوانے کے لئے مختلف حربوں اور لوگوں کو ساتھ ملا کر ایک غیر مقبول حکومت کو بٹھایا گیا

ان انتخابات کے حوالے سے صرف ایک ہی واقعہ ان کی  غیر شفافیت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے  یہ مجودہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے حلقہ انتخاب کی کہانی ہے جس کے نتائج کو جب چیلنج کیا گیا تو اس حلقے کے  انتخابی مواد کو جب الیکشن کمیشن کے تحت قائم کردہ قانونی عدالت نے جائزہ لیا تو اس الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ہزاروں سے زائد ووٹر لسٹ  میں جو انگوٹھے کے نشانات ہیں وہ انسانی ہاتھوں کےانگوٹھے نہیں تھے یہ انتہائی اہمیت کا حامل فیصلہ تھا اور پورے الیکشن کی غیر شفافیت کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے اس کو چھپانے کیلئے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ سے رکوا دیا گیا اور اج  تک اس کا فیصلہ نہیں کیا گیا  عرصہ گزرنے کے باوجود سپریم کورٹ اس کیس کو نہیں لگایا  تاکہ اس پر پردہ پوشی برقرار رہے۔

اس کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ  نے اپنے مستقبل اقتدار پر براجمان رہنے اور اپنے کٹھ پتلی عمران خان کے ذریعے ایک طویل مدتی ایجنڈے پر عمل درآمد شروع کر دیا جس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا قانون بھی شامل تھا تاکہ الیکشن کے بعد کسی قسم کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہ ہو جس سے الیکشن میں کی گئی دھاندلی ثابت ہو سکے اور تمام الیکشن قاسم سوری کے الیکشن کی طرز پر کرانے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

اور بعد میں صدارتی نظام کا شوشا چھوڑا گیا جو کہ ان کے مذموم مقاصد کو مکمل طور پر عیاں کرتا تھا۔

اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر اقدامات اور حمایت کے باوجود عمران خان کی کٹھ پتلی حکومت پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ ناکام حکومت ثابت ہوئی  اس دوران عوامی کے مسائل میں شدید اضافہ ہوا اور اس دوران عمران خان کے ساتھیوں نے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کئے جن کے اثرات عوام اج اور انے والے دنوں میں بھی محسوس ہوتے رہے۔

اس دوران پاکستان دشمن ایجنڈے پر کام کرنے والے عناصر نے عمران خان کی حکومت میں کلیدی حیثیت حاصل کر لی اور وہ اپنے پاکستان دشمن ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کام سرانجام دینے لگے جس میں پاکستان کو معاشی طور پر مکمل طور پر ناکام بناتے ہوئے اس کو ڈیفالٹ کرنا تھا اگرچہ پاکستان دوست اسلامی ممالک اور چین نے ہر موقع پر پاکستان کی امداد جاری رکھی مگر ایک خاص ایجنڈے کے تحت ان سے پاکستان کے تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا تاکہ پاکستان دشمن ایجنڈے کی تکمیل کو ممکن بنایا جا سکے۔

یہ صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی کی رحمت اور کرم ہی تھا کہ اس نے ان پاکستان دشمن عناصر کی سازشوں کو ناکام بنا دیا اور پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس اجاگر ہوا کہ پاکستان کی سالمیت اور بقاء کے لیے فوری طور پر اقدامات اٹھائے کی ضرورت ہے اور اسطرح سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو سیاست سے دستبردار کرنے کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی کٹھ پتلی عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا 

اس کے بعد آجتک پاکستان دشمن عناصر پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دوبارہ سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اور ان پاکستان دشمن عناصر نے پاکستان میں بغاوت کرانے کی ناکام کوششیں کیں جو 9 مئی اور 24 نومبر کے واقعات کی صورت میں منظر عام پر آنے۔ ان کو اللہ سبحانہ و تعالٰی نے ناکام بنا دیا مگر ان سازشی عناصر کو ابتک ان گھناؤنے جرائم کی سزائیں نہیں دی جا سکیں جس کی وجہ عدلیہ کا گھناؤنا کردار ہے۔

آج جب تمام جمہوری قوتوں نے اپنے اتحاد سے ان تمام پاکستان دشمن عناصر کے ایجنڈے کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں مگر ابھی تک میڈیا،  سوشل میڈیا کے ذریعے ڈیجیٹل دہشت گردی بہت تیزی سے جاری ہے اور اس کے سدباب کے لیے انتہائی اقدامات کی سخت اور فوری ضرورت ہے۔

تاکہ اس جھوٹ، فریب اور دروغ گوئی پر مبنی پروپیگنڈہ کو ناکام بنایا جا سکے۔

امید ہے کہ ریاست جلد از جلد اس،سلسلے میں ضروری قانون سازی کرتے ہوئے ان پاکستان دشمن عناصر کو سزائیں دلوانے میں کامیابی حاصل کرنے سکے گی۔

اس سلسلے میں ان عناصر کو جو عدلیہ کی پشت پناہی حاصل ہے اس کو روکنے کے لیے بھی ایک مربوط لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور اعلی عدلیہ سے مشاورت کے بعد مناسب اقدامات لینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ انصاف کے تقاضوں کو جلد از جلد بروےکار لایا جا سکے۔

اس موقع پر یہ ہم سب ایک ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کا شکر ادا کریں کہ اس  نے اپنی رحمت سے ان تمام اسلام،  پاکستان اور عوام دشمن قوتوں کو شکست دیتے ہوئے عبرتناک انجام سے دوچار کر دیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی ان اسلام،  پاکستان اور عوام دشمن قوتوں کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو اس کی تخلیق کے اصل مقصد کی جانب پیش قدمی کی جا سکے۔

اللہ ہم سب کو اس عظیم عمل میں اپنی توانائیوں کو صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

Post a Comment

0 Comments