ماضی کے جھروکوں سے
ایک برس قبل لکھا گیا مضمون
دسمبر 2، 2023
تحریر: ممتاز ہاشمی
اگرچہ ایون فیلڈ ریفرنڈم کا فیصلہ گزشتہ دنوں سنایا گیا ہے جس نے اس جعلی کیس کی حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ہے مگر یہ بات پہلے سے ہی سب کو معلوم تھی کہ یہ سب تماشا سب کیوں اور کن مقاصد کے حصول کے لیے کیا گیا تھا۔ اس اس وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ برابر کی شریک تھیں جنہوں نے اپنے غیر آئینی اقدامات سے پاکستان کو بحران میں مبتلا کر دیا اور یہ ترقی کرتی ہوئی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا جس کا خمیازہ عوام آج بھگت رہے ہیں اور اس کے اثرات مزید بھگتے پڑھے گہے۔
کیا اس فیصلے کے بعد اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان تمام عناصر کو جنہوں نے پاکستان اور عوام کے خلاف اس سازش میں میں کردار ادا کیا ہے ان کو عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ مستقبل میں کوئی طالح آزما ایسی جرات نہ کر سکے۔
اب ذرا تفصیل سے اس کیس سے منسلک حقائق کی جائزہ لیتے ہیں۔
ان حقائق کو پڑھنے کے بعد کسی قسم کی مزید وضاحت کی گنجائش موجود نہیں ہو گی۔
ستر کی دہائی میں قطر ایک غریب ملک تھا اور اسوقت تک دنیا میں گیس کو ایل این جی میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور اس کے حکمران اتھان فیملی اپنے تعلقات سے دنیا بھر لوگوں سے قرض لیکر اور سرمایہ کاری کر کے ریاستی اخراجات پورے کرتے تھے۔ اسی زمانے میں میاں شریف نے بھی ان کو کچھ رقم فراہم کی تھی
پاکستان میں بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی کی وجہ سے جس میں شریف فیملی کی 6 فیکڑیاں حکومت نے تحویل میں لے لی تھیں اور ان کے پاس سرمایہ موجود نہیں تھا اور میاں شریف نے پاکستان سے باہر دبئی میں سٹیل مل لگانے کا فیصلہ کیا۔
سب کچھ ریاست چھین چکی تھی تو مارکیٹ سے جو ریکوری کرنی تھی (مال دینے کے بعد جو وصولیاں ہوتیں ہیں) وہ پیسے اکٹھے کیے۔ زیور اور زاتی پراپرٹیز بیچیں اور وہ زاتی پیسے حوالہ/ہنڈی کے زریعے دبئی میں سٹیل مل لگانے کے لیے شفٹ کر دئیے (یاد رہے 70 کی دہائی میں بینکنگ تقریبا نہ ہونے کے برابر تھی) اور پیسے کی ترسیل اسی طرح ہوتی تھی۔ حوالہ/ہنڈی کچھ سال پہلے"منی لانڈرنگ" کہلانا شروع ہوئی ھے ورنہ یہ طریقہ عام رائج تھا آج بھی بہت سے لوگ اس طریقہ کار کو استعمال کرتے ہیں مگر اب یہ غیر قانونی ہے اور قابل سزا جرم ہے۔
میا شریف کی انتھک محنت سے دبئی سٹیل مل لگی اور اس نے بے پناہ ترقی کی
اسی عرصے میں ضیاء کے مارشل کے بعد بھٹو مرحوم کی نیشنلائزیشن پالیسی ریورس ہوئی اور تمام صنعتی خاندانوں کو ان کی فیکٹریاں واپس مل گئیں۔شریف فیملی کو بھی ان کی فیکٹریاں ملیں اور انہوں نے پاکستان میں دوبارہ محنت کر کے اپنے کاروبار پھر بحال کیے اور انتہائی ترقی کی۔
۔دبئی فیکٹری بھی چلتی رہنے دی۔نواز شریف سیاست میں آ گئے۔۔(میاں شریف نے سیاست میں آنے کی وجہ سے نوازاور شہباز شریف کا نام اپنے کاروبار سے نکال دیا اور خود کاروبار سنبھالتے رہے
80 کی دہائی کے درمیان دبئی سٹیل مل بیچ دی اور پیسے پاکستان لانے کی بجائے قطریوں کے ساتھ سرمایہ کاری میں لگا دئیے۔
اس عرصے میں ایل این جی ٹیکنالوجی کی ایجاد کے بعد قطر کی مالی حالت میں بہت بہتری آنے لگی اور شاہی خاندان اور دیگر قطریوں نے دنیا بھر میں اور خاص طور پر لندن میں بے تحاشا جائیدادیں خریدیں۔ ان میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ قطریوں کی لندن میں برطانوی باشندوں کے بعد سب سے زیادہ جائیدادیں ہیں۔
1992-93میں جب حسین اور حسن نواز شریف لندن پڑھنے گئے تو ان کو وہاں رہائش درکار تھی۔
اسوقت اس قطری خاندان نے قطریوں نے ان کو اپنے ملکیتی"ایون فیلڈز اپارٹمنٹس"رہنے کو دے دئیے۔۔اور حسن/حسین دوران تعلیم وہاں رہائش پزیر ہو گئے۔شریف فیملی بھی جب جاتی تو وہیں رہتی۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ انگلینڈ میں غیر ملکی افراد کے لیے جائیدادیں خریدنے اور ٹیکس میں رعایت کے لیے آف شور کمپنیوں کی اجازت ہے اور زیادہ تر لوگ انہیں آف شور کمپنیوں کے ذریعے جائیدادیں خریدتے ہیں واضح رہے کہ عمران خان نے اپنے لندن فلیٹ کی خریداری کے لیے بھی ایک آف شور کمپنی بنائی تھی جو کہ قانون کے مطابق ہے
اس زمانے (1993)میں ان 4 فلیٹس کی مالیت 40 لاکھ پاونڈ (پاکستانی تقریبا 5 کروڑ) کے لگ بھگ تھی۔اسوقت یہ بات طے ہوئی تھی کہ ان کی قیمت ہماری سرمایہ کاری والے پیسوں سے کاٹ لی جائے , مگر فلیٹ ٹرانسفر نہیں کروائے گئے تھے۔
وہ 4 فلیٹ میاں شریف مرحوم نے اپنی وفات سے 1 سال پہلے 2003 میں اپنے دونوں پوتوں کے نام پر 2 دو ٹرانسفر کروا دئیے۔
کیونکہ قطری فیملی نے وہ فلیٹ اپنے زاتی نام پر رکھنے کی بجائے (آفشور کمپنی" کے نام پر خریدے ہوئے تھے (برطانیہ میں اوورسیز خریداروں کی یہ ٹیکس بچانے کے لیے یہ روٹین پریکٹس ہے)
حسن نواز اور حسین نواز کے نام پر جب یہ فلیٹ ٹرانسفر ہونے تھے تو انہوں نے وہ آفشور کمپنیاں ہی ٹرانسفر کروا لیں۔جن کے نام پر صرف یہ ہی فلیٹ تھے)
اور وہ آفشور کمپنیاں پانامہ میں رجسٹرڈ تھیں۔جس کا بعد لاکھوں لوگوں کا دنیا بھر سے ڈیٹا ریلیز ہوا تو حسن اور حسین کا نام بھی آ گیا۔
اس نام نہاد پانامہ لیکس کو پروپیگنڈا کے طور پر ایک منتخب حکومت کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور اس میں میڈیا کا بے دریغ استعمال بھی کیا گیا ہر روز اسٹیبلشمنٹ کے پے رول پر پلننے والے ایکنرز ان کو دیا گیا اسکرپٹ پڑھنے اور عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے تھے۔
اب جب پیسے حوالے سے 1970 کی دہائی میں گئے تھے تو نواز شریف کو نکالنے کے لیے وہ"کمزوری" اسٹیبلشمنٹ/جنرل باجوہ/فیض کے ہاتھ آ گئی۔۔ اور واویلہ مچایا گیا کہ "رسیداں کڈو"
ان کو پتا تھا کہ نواز شریف کبھی نہیں کہے گا کہ میرے مرحوم باپ نے"حوالہ/ہنڈی"(منی لانڈرنگ) کی۔۔
حسین نواز کی 2 بیویاں اور ان سے بچے ہیں۔
انہوں نے اپنی ایک وصیت بنوائی کہ زندگی کا کچھ پتا نہیں ہوتا اور میری بیویوں/بچوں میں کل کو تنازعہ نا ہو اور مجھے کچھ ہو جائے تو میری بڑی بہن مریم نواز ۔۔۔ان فلیٹوں سمیت میرے اثاثوں کی "نگران" بن کر انصاف سے تقسیم کر دیں۔
صرف یہ وصیت بنوانے اور مریم کو(حسین نواز کی خدانخواستہ زندگی کے بعد) کی صورتحال میں"نگران" مقرر کرنے پر"بینفیشل آنر"(مالک) بنا کر پیش کرتے ہوئے 10 سال سزا سنائی گئی اور کیپٹن صفدر جو کہ اس وصیت کے "گواہ" تھے تو ان کو 1 سال سزا سنا دی گئی۔(حالانکہ حسین نواز زندہ تھے) وہ وصیت 2005 میں بنی تھی اور اسوقت کیلبری فونٹ کا ٹرائل ورژن مارکیٹ میں دستیاب ہے اور اس خو استعمال کیا جاتا تھا ۔
اس ریفرنس کی سماعت کے دوران قطری شاہی خاندان نے پیش کش کی کہ وہ اس میں گواہ کے طور پر پیش ہونے کے لیے تیار ہیں مگر یہاں کی اسٹیبلشمنٹ نے ان کو پروٹوکول اور حفاظت کی ذمہ داری دینے سے انکار کر دیا اور ان کو اس کیس میں گواہی سے روکا گیا۔
اب جب کہ یہ تمام سازشی عناصر بےنقاب ہو چکے ہیں تو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ادارے کے افراد جو اس غیر آئینی اقدامات میں ملوث ہیں ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائیں اور دیگر شخصیات کے خلاف سول حکومت اقدامات کرے۔
یہ انتہائی ضروری ہے تاکہ پاکستان کے تابناک مستقبل کی ضمانت دی جا سکے اور آئندہ کسی بھی ادارے اور افراد کو ملک اور عوام کے خلاف سازشیں کرنے کی ہمت نہ ہو اور ملک میں جمہوریت، ترقی اور آئین کی بالادستی کا دور دورہ ہو سکے۔
ReplyForward |

0 Comments