Header Ads Widget

7، اکتوبر 2023- غزہ کی تباہی کے آغاز کا دن

 تحریر : ممتاز ہاشمی 



اکتوبر 7، کا دن وہ بد قسمت دن ہے جب آج سے دو برس قبل حماس نے اسرائیل پر  تاریخی حملے کرتے ہوئے بھاری تعداد میں اسرائیل کو  شدید جانی نقصان پہنچایا ایک محتاط اندازے کے مطابق اس میں 1200 اسرائیل ہلاک ہوگئے اور تقریباً 250 افراسیاب کو حماس نے یرغمالی بنا کر لے گئے۔ اگرچہ یہ مسلح کارروائیاں اسرائیل کے فلسطینی عوام پر طویل عرصے سے جاری ظالمانہ اور مجرمانہ سرگرمیوں کا ایک رد عمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر دنیا بھر کے امن پسند عوام نے حماس کی اس کارروائی کی مذمت کی اور اس میں معصوم لوگوں کی ہلاکت اور ان کو یرغمالی بنانے کی مذمت کی۔ اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔


 اگرچہ فلسطینی عوام پر جاری ظلم و ستم  کی ایک  طویل کہانی ہے اور فلسطین کے مسلمان عرصہ دراز سے نہ صرف اپنے گھروں سے بےگھر کردہے گئے تھے بلکہ ان کو ایک علاقے میں محصور کر دیا گیا تھا گویا وہ ایک طرح سے قید میں ہیں ان کی مختلف زمینی اور سمندری راستوں سے ناکہ بندی کر دی گئی تھی تاکہ ان کو اپنے دفاع اور وطن کی آزادی کے لیے کسی قسم کے وسائل دستیاب نہ ہو سکیں۔


ان تمام نامساعد حالات میں بھی فلسطینی مسلمانوں نے اسرائیل کے خلاف جدوجہد جاری رکھی اور دنیا کو مختلف طریقوں سے اس سنگین مسئلہ کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی مگر کیونکہ دنیا کی اکثریت کے مفادات اسرائیلی لابی سے وابستہ ہیں اسلئے کسی نے بھی ان کو اہمیت نہیں دی صرف زبانی جمع خرچ کر کے اپنے آپ کو اس جدوجہد میں شامل کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔


ان تمام حالات و واقعات سے اسرائیل کی نہ صرف ہمت افزائی ہوئی بلکہ انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ مزید علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا اور یوں فلسطینی کو ایک طرح سے محصور  کر دیا گیا۔ 


واضح رہے کہ اسرائیلی کی ان تمام کارروائیوں کو حوصلہ افزائی نام نہاد مسلم ممالک کی طرف سے ہوئی جن میں وہ   تمام مسلمان ممالک خصوصاً وہ شامل ہیں جن کی سرحدیں فلسطین سے ملتی ہیں اس طرح سے  محصور فلسطینی عوام کے پاس مزاحمت یا موت کے علاوہ کوئی  دوسرا راستہ باقی نہ رہا۔


ان حالات میں  فلسطینیوں نے  اپنے آپ کو ایک اہم مزاحمت کے لیے  حماس کی شکل میں منظم کیا اور ایک طویل جدوجہد  کا آغاز کیا۔ اس وقت ان مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو اس بات کا یقین تھا کہ ان کی اس بہادرانہ جدوجہد کے نتیجے میں دنیا بھر کے انسانی حقوق،  آزادی اور مساوات کے علمبردار ممالک،  تنظیمیں اور  خصوصاً مسلمان ممالک اورعوام ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کے غاصبانہ عزائم کو ناکام بنانے کیلئے ان کا عملی ساتھ  دیں گے ۔


مگر آج انتہائی افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا تو دور کی بات ہے کوئی بھی مسلمان ملک ان کا عملی  طور ساتھ  دینے کو تیار نہیں ہوا وہ بیانات کی حد تک تو ظاہری طور میں ان کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت کرتے نظر آتے رہے لیکن ان کو اندرون خانہ اسرائیل کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے غلامانہ زندگی بسر کرنے کا مشورہ دیتے رہے۔ 


یہی حال تقریباً تمام نہاد مسلمانوں کا ہے جو سواے احتجاجی  جلسہ و جلوس اور مذمت تک ہی محدود رہے کوئی بھی ان کی عملی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں یوا۔ اور نام نہاد مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی میں عیاشیوں، تفریحات اور کھیل کود میں مکمل طور پرنہ صرف مگن رہے مگر ہر روز ان میں اضافہ دیکھنے کو ملا ۔

ان تمام حالات و واقعات سے مایوس ہو کر حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو ایک آخری اور بڑا حملہ کر دیا۔

یہ ایک جذباتی ردعمل تھا مگر اس نے اسرائیل کر ننگی اور بربریت پر مبنی جارحیت کا جواز فراہم کر دیا۔

اس دن کے بعد آجتک  دنیا  تاریخ کے سب سے بدترین سانحہ کا شکار ہے جس میں انسانیت کی تذلیل کی انتہا کی جا رہی ہے اس کا منظر پوری دنیا گزشتہ دو برسوں سے غزہ میں محصور مسلمانوں کی خون ریزی کی شکل میں دیکھتی آ رہی ہے اور پوری دنیا بشمول مسلمان ممالک سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ بھی نہیں کر سکے۔


اس ننگی جارحیت اور انسانی قتل عام نے ان تمام نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار کے بھیانک چہروں کو بےنقاب کر دیا ہے۔ 

 آج دنیا گزشتہ دو سال سے غزہ میں محصور مسلمانوں کی خون ریزی کی شکل میں دیکھ رہی ہے۔ اس میں نہ صرف 67 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں بلکہ ایک لاکھ  66 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوگئے ہیں جن میں ایک بہت بڑی تعداد معصوم بچوں،  عورتوں اور بوڑھوں کی ہے۔ ان پر ڈھائی گئے مظالم کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر دنیا بھر کے امن پسند عوام شدید غصے میں ہیں اور اپنے مظاہروں سے دنیا بھر میں اس کا اظہار کیا جا رہا ہے 


اسرائیل نے جس طرح مصوم و مظلوم فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں وہ اس انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے اس نے تمام پرانے ظلم و ستم کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں نہ صرف ان کو خوراک،  پانی،  ایندھن،  دوائیں اور تمام دیگر اشیاء ضرورت کی فراہمی بند کر رکھی ہے بلکہ تاریخ کا سب سے بدترین ظلم ہسپتالوں پر بمباری کر کے ان کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے اور اس میں مریضوں اور طبی عملے کو جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔


اس ننگی جارحیت نے غزہ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے اور اس کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔   اور تمام رہائشی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں یا رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ اس تباہی و بربادی کا اندازہ کھربوں ڈالرز سے بھی زائد ہو گا۔ جبکہ انسانی جانوں کی قیمت کا تو کوئی نعم البدل ہی نہیں ہو سکتا۔


غزہ کے لاکھوں لوگ کیمپوں میں منتقل ہو رہے ہیں اور ان کو خوراک کی دستیابی بھی ممکن نہیں ہے جب بھی کہیں سے کی  خوراک و دیگر اشیاء ضرورت پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ان پر اسرائیل حملے کر کے ان بھوکے لوگوں کو شہید کر دیتا ہے۔


آج کے انسانی حقوق کی چارٹر میں نہ صرف شہری علاقوں کو نشانہ بنانا جنگی جرائم میں شامل ہے اور اس کی انتہائی شکل غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی شکل میں ساری دنیا دیکھ رہی ہے اور اس پر کوئی عملی قدم آٹھانے میں ناکام رہی ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تمام ممالک اس جارحیت اور قتل عام میں کسی نہ کسی طرح شامل ہیں۔


اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادیں  کو ویٹو کرنے کا عمل سب کے سامنے ہے اس سے ان تمام نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کے عزائم اور مقاصد واضح طور پر سامنے آ گئے ہیں

اگر ہم غور کریں تو اہل ایمان کی اس پر خاموشی اور عملی اقدامات سے گریز آخرت میں عذاب کا جواز فراہم کرنے کے لیے کافی ہو گی۔


اس سلسلے میں مندرجہ ذیل مشہورحدیث کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے:


(صحیح بخاری: کتاب المظالم و الغضب أعن أخاك ظالما أو مظلوما.)


"انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وه ظالم ہو یا مظلوم – صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں، لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑلو۔ (یہی اس کی مدد ہے)"


(صحیح مسلم: كتاب البر والصلة والآداب، باب نصر الأخ ظالما أو مظلوما.)


"جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، اگر وہ ظالم ہے تو اس کو ظلم سے روکو اور اگر مظلوم ہے تو اس کی مدد کرو-"


 مگر یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے لیے احتجاجی تحریک مسلمان ممالک سے زیادہ غیر مسلم ممالک میں چلی اور انہوں نے اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کا اہم کردار ادا کیا جس پر دنیا اس مسئلے کے حل کی جانب متوجہ ہوئی۔

ان حالات و واقعات کی بنیاد پر امریکہ اور مسلم ممالک نے اس مسئلے کے حل اور اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لئے متحرک ہوئے۔ مسلم ممالک نے حماس اور امریکہ و یورپی ممالک نے اسرائیل کو مجبور کیا اور آخر کار طویل مشاورت کے بعد ایک امن منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔

 امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خاتمے اور علاقے میں امن و امان قائم کرنے کے لیے ایک قابل عمل منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ 

آج اس منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے دن قریب نظر آ رہے ہیں۔

آج اس موقع پر اسرائیلی کی ننگی جارحیت میں شہادت کا رتبہ حاصل کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور تمام زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لئے دعا گو ہوں۔

امید ہے کہ مخیر مسلم ممالک غزہ کی تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کریں گے اور ان مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔ ان شاءاللہ۔

Post a Comment

0 Comments