ماضی کے جھروکوں سے دو برس قبل لکھا گیا مضمون نومبر 1،
2023
تحریر: ممتاز ہاشمی
گزشتہ دنوں جب سے نگران
وزیراعظم نے لمز یونیورسٹی کا دورہ کیا ہے اور طلباء سے خطاب کیا اور ان کے سوالات
کے جوابات دئیے ہیں اسوقت سے میڈیا میں ایک بحث مباحثہ چل رہا ہے اور جو وہاں پر
موجود چند طلباء کے سوالات کو مثالی بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اس بات کی کوشش میں
ہے کہ نگران وزیراعظم ان سوالات کے جوابات نہیں دے سکے۔ یہ پاکستان کی مہنگی ترین
یونیورسٹی ہے اور صرف اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ہی اس کے تعلیمی اخراجات کو
برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اسلئے اس کے ماحول اور ان کے ذہنی رحجان کے بارے
میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔
یونیورسٹیوں میں سائنس
اور سوشل سائنس کے مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے جن میں قانون، اکنامکس، سیاست وغیرہ
اہمیت کی حامل ہیں۔
جب بھی کوئی اس قسم کا
پروگرام منعقد کیا جاتا ہے تو اس میں ان طلباء کو مدعو کیا جاتا ہے جن کا ان
مضامین سے تعلق ہو جس کا مہمان خصوصی کی حیثیت اور عہدے سے براہ راست تعلق بنتا
ہو۔ تاکہ طلباء ان سے متعلقہ شعبہ جات کے متعلق سوالات ترتیب دے سکیں اور وہ ان کے
جوابات کی روشنی میں متعلقہ شعبوں میں اپنی معلومات کو وسعت دے سکیں جو ان کے لیے
فائدہ مند ثابت ہو سکے۔ ایسے طلباء اپنے سوالات کو ترتیب دیتے ہوئے ان کے متعلق
مکمل معلومات حاصل کرتے ہیں۔
مگر لمز یونیورسٹی میں
کئے گئے سوالات کو سن کر اس میں زیر تعلیم افراد کی تعلیمی قابلیت مکمل طور پر
عیاں ہو گئی ہے اس نے اس یونیورسٹی کے تعلیمی معیار پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے
ہیں اور اس پر ہونے والے اخراجات کے بعد ان نتائج پر انتہائی مایوسی اور افسوسناک
ہے بلکہ یہ پوری دنیا میں پاکستان طلباء کی ذہنی پسماندگی کا سبب بن رہا ہے۔
لمز کے سٹوڈنٹس کے
رویے، سطحی اور بیوقوفانہ سوالات ان کی ذہنی پسماندگی کے عکاس تھے۔
ان کے کئے گئے سوالات
کا احاطہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
الیکشن کب ہونگے
آپ لیٹ کیوں
آئے
آپ یہاں کیوں آئے
عمران خان جیل میں کیوں
ہے
کے پی کے اور پنجاب میں
انتخابات کیوں نہیں کراتے
اقلیتوں کے لیے قانون
سازی کیوں نہیں کرتے
ہمارے شہر کی فلاں سڑک
کیوں مکمل نہیں ہوئی
وغیرہ وغیرہ
یہ سوالات کسی پرائمری
سکول کے تیسری کلاس کے کوئی طالب علم نہیں بلکہ پاکستان کی ٹاپ یونیورسٹی کے طلباء
پوچھ رہے ہیں اور یوتھئیے صحافی اسے علمی سوالات اور شعور کی معراج قرار دے رہے
ہیں۔
کیا نامعقول اور بے تکے
سوال اٹھائے گئے ہیں ان اشرفیہ طبقے کے بچوں نے انہیں کیا معلوم پاکستان کے عام
بچوں کے مسائل کا۔اور اخلاقی اقدار کا ان سے کوئی تعلق بنتا ہی نہیں۔
لمز میں کسی طالب علم
نے معیشت، امن ،ہیومین رائٹس ، تاریخ (خارجہ پالیسی )انٹرنیشنل پالیٹیکس قومی
سلامتی، پر کوئی با مقصد سوال و جواب نہی کیا
ان تمام حقائق سے یہ
بات معلوم ہوتی ہے کہ جہالت کی انتہائی بلندی پر ہیں جو اس ادارے میں پڑھ رہے
ہیں
ان سوالات کے جوابات کا
میں اکثریت کا تعلق نگران وزیراعظم سے بنتا ہی نہیں تھا
ایک معمولی سیاسی
سوچ رکھنے والے انسان کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ الیکشن کمیشن نے ہی انتخابات کے
انعقاد کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے ناکہ نگران وزیراعظم نے۔
آئین کے تحت 90 روز میں
انتخابات کا انعقاد لازم ہے اور اس کے ساتھ ہی آئین میں یہ بھی درج ہے کہ الیکشن
تازہ ترین مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے اور اس کا طریقہ کار اور ٹائم فریم بھی
اس میں فراہم کیا گیا ہے اور آئین میں یہ بھی درج ہے کہ اگر کوئی کام آئین میں
مقرر کردہ وقت میں انجام نہیں ہوتا تو وہ اس وجہ سے غیر آئینی نہیں کہلائے گا
اس مکمل وضاحت کی
موجودگی میں ان سوالات کرنے والوں کی عقل پر ماتم کرنا چاہیے اور یا وہ صرف ایک
سیاسی ایجنڈے کی تحت اس قسم کے جہالت پر مبنی سوالات کرنے پر مامور کئے گئے تھے۔
یہ بات واضح ہے کہ الیکشن کمیشن بہت پہلے ہی ایک مکمل ٹائم فریم فراہم کر چکا ہے
جس کے مطابق حلقہ بندیوں پر اعتراضات کی سماعت مکمل ہونے کے بعد نومبر 30 کو فائنل
لسٹ شائع کر دی جائے گی اور اس کے ساتھ ہی انتخابی شیڈول کا اجراء بھی ہو جائے
گا۔۔
عمران خان جیل میں
قانون کے مطابق دی گئی سزا کی وجہ اور دیگر کیسز کی وجہ سے ہے۔
اقلیتوں کے لیے قانون سازی
کا سوال اسوقت ہوسکتا ہے جب قانون ساز اسمبلی موجود ہو۔
کسی شہر کی سڑک کا مکمل
ہونا صوبائی اور شہری حکومت کے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے ناکہ وزیراعظم
کے
ان تمام جوابات سنے یہ
بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان طلباء کی ذہنی استعداد کیا ہے اور ان میں سوچنے سمجھنے
اور تحقیق کی صلاحیتیں ناپید ہیں۔
مگر یہ صرف ایک سیاسی
ایجنڈے پر عملدرآمد کرنے کے لئے ہی استعمال ہوتے رہے ہیں اور اس میں ان اشرفیہ کے
طبقاتی مفادات منسلک ہیں۔
اور یہ وہ زمینی
حقائق ہیں جن سے اکثر میڈیا والے نظر انداز کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ
کا شکار ہوتے ہیں اور کسی قسم کے پروفیشنل انداز میں تحقیق کی زحمت گوارا نہیں
کرتے۔

0 Comments