Header Ads Widget

آہینی ترمیم اور ملکی سلامتی کا تقاضا Constitutional Amendment & National Security Challenges


تحریر: ممتاز ہاشمی

 حکومت نے آہین میں ستائیسویں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے خدوخال ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

ان میں شامل کچھ نکات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کا تعلق ملک میں استحکام پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے معاشی مسائل کے حل کے لیے ہیں۔

یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان میں شروع سے ہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کے ساتھ ملکر ملکی اقتدار پر قبضہ کرلیا اور سیاسی قوتوں کو کام کرنے کا موقع نہ دیا بلکہ زیادہ تر عرصے مارشل لاء کی زد میں رہائش اور درمیان میں کبھی کبھار نیم جمہوری ادوار بھی دیکھنے کو ملتے ہیں مگر ان ادوار میں بھی سیاسی حکمتیں اپنی زیادہ توانائیاں اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں سے نمٹنے میں صرف کرتی رہتی تھیں اس طرح سے عوامی فلاح و بہبود کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکیں۔ 

اگرچہ مختلف مراحل پر سیاسی قوتوں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کردار ادا کیا جو ان کی سیاسی پختگی کے فقدان کا اظہار کرتا ہے۔ جس کے بعد ان سیاسی جماعتوں نے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے آپس میں 2007 کو میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ جو ایک انتہائی اہم دستاویز ہے اور آج اس کی بدولت مختلف مواقع پر سیاسی پختگی نظر آتی ہے۔

ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ نے ملکی اداروں میں عدم استحکام پیدا کیا اور ادارے تباہ ہونا شروع ہو گئے جس سے کرپشن کو فروغ ملتا رہا اور تمام ریاستی وسائل سرکاری اداروں کے اہلکاروں اور ان سے ملی بھگت کرنے والے پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں لوٹنے کا عمل تیز سے تیز ہوتا گیا۔ جس کی وجہ سے عوام کو مہنگائی و بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا اور مملکت کو چلانے کے لیے قرضوں کی مقدار بڑھتی ہی رہئ۔ یہاں تک کہ چند برس قبل پاکستان ڈیفالٹ کے قریب پہنچ چکا تھا۔

اس موقع اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اپنی رحمت سے پاکستان میں ایک ایسی راہ دکھائی جس کا تصور بھی محال تھا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں کمانڈ کی اکثریت نے اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات سے الگ کرنے کا اعلان کیا اور ادارے کو پاکستان میں استحکام و ترقی کے لئے ایک اہم کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اللہ کی رحمت سے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف کے عہدے پر فائز کر دیا گیا اور ان کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا گیا۔

اس کے بعد عدلیہ کی اکثریت نے کرپٹ اشرفیہ کے ساتھ ملکر اس نظام کو ناکام بنانے کیلئے تمام تر کوششیں جاری رکھیں۔

واضح رہے کہ عدلیہ میں تقریروں کے اختیارات ججز نے اپنے پاس ہی رکھے اور اس میوہ اپنی پسند کے چیمبرز کے ججز کو ہی تعینات کرتے تھے جس سے اس نظام میں ان کی اجارہ داری قائم رہی۔ اس میں عوام کی منتخب پارلیمنٹ کا کوئی حصہ نہ تھا۔

اگرچہ میثاق جمہوریت میں اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے پارلیمنٹ کو بھی کردار دیا گیا تھا اور جب اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آہین کی روح کی بحالی اور اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی میں پارلیمنٹ کو شامل کیا گیا تو چیف جسٹس افتخار چوہدری نے دھمکی دی کہ وہ پوری کی پوری ترمیم کو منسوخ کر دیں گے اسطرح سے مجبوراً اس کو روک دیا گیا۔

مگر بعد میں 2024 میں ترمیم کی شکل میں نہ صرف پارلیمنٹ کے کردار کو شامل کیا گیا بلکہ ایک آئینی بنچ کی بھی بنیاد رکھی گئی جو صرف آئینی معاملات کو دیکھنے کی مجاز ہو۔ اگرچہ اسوقت بھی آئینی عدالت کی بات کی گئی جو میثاق جمہوریت کا حصہ ہے مگر اسوقت اتحادی حکومت کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہ تھی اسلئے آئینی بنچ پر اکتفا کیا گیا۔

آج جب حکومتی اتحاد کو رو تہائی سے زائد اکثریت حاصل ہے تو اب اس،آئینی عدالت کے قیام کے لئے مجوزہ ترمیم وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ دنیا میں اکثر ممالک میں آئینی معاملات کے لیے الگ کورٹ ہوتی ہیں اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا کام عدلیہ بخوبی اور بلا تعطل فراہم کیا جا سکے۔

اس کے ساتھ ساتھ ججز کی تقرری اور ان کی عمر بھی انتہائی اہم معاملات ہیں ہمارے ہاں ججز عام طور پر 60 سال میں اور اعلی عدلیہ میں 63 سال میں ریٹائرڈ ئو جاتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ ججز کا جتنا زیادہ تجربہ ہوتا ہے اتنے ہی وہ زیادہ اچھی طرح آئینی و قانونی معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک میں اس عمر میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی مثال نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ امریکہ میں سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر تاعمر کے لیے ہوتا ہے۔

دوسری اہم ترمیم کا تعلق آرمڈ فورسز میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کو مستحکم کرنے سے ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام افواج کا ایک سنڑل کمانڈ سسٹم ہو جو آرمی چیف کے تحت ہو۔اسوقت فیلڈ مارشل کی موجودگی کی وجہ سے اس میں مزید ترمیم کی ضرورت ہے کیونکہ فیلڈ مارشل کا دائرہ کار ملک کے دیگر مسائل کو بھی دیکھنا ہوتا ہے اس لیے اس کو آئینی تحفظ فراہم کرتے ہوئے اس سنڑل کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو مربوط کرنے کے لیے اس آئینی ترمیم میں طریقہ کار واضح کیا جائے گا۔

ایک اہم حصہ اس آئینی ترمیم کا صوبوں کو وفاق سے ملنے والے فنانس ایوارڈ سے ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب زیادہ تر عرصے آمریت مسلط رہی تو مرکز کے پاس سارے مالی اختیارات حاصل رہیں اس سے صوبوں میں بداعتمادی کو فروغ ملا اور خاص کر چھوٹے صوبوں میں صوبائی خودمختاری کا نعرہ مقبول عام ئوا۔ اسلئے اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کے فنانس ایوارڈ کا تعین کر دیا گیا جس سے وفاقی حکومت کے زیادہ تر وسائل صوبوں کو منتقل ہونے لگے اور وفاق کے پاس ضروی اخراجات کے لئے کوئی رقم نہ بچی۔ اس پر مزید یہ کہ جو قرض حاصل ہوے ان کی اور ان پر ادائیگی مکمل طور پر وفاق پر ڈال دی گئی اس کے علاوہ بجلی، گیس و دیگر اداروں کے نقصانات بھی وفاق برداشت کرنے کا پابند ہو گیا۔

یہ نظام مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ اس فنانس ایوارڈ پر نظر ثانی کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبوں پر خرچ ہونے والے غیر ملکی قرضوں اور بجلی و گیس کے خسارے میں صوبے بھی برابر کے حصے دار تصور کئے جائیں۔ امید ہے کہ اس اہم مسئلہ پر بھی اتفاق رائے ہو جائے گا۔

ترمیم میں تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی دوبارہ سے وفاق کے سپرد کرنا بھی شامل ہے۔

تعلیم اور خاص کر اعلی و ٹیکنیکل تعلیم وفاق کے پاس ہونا ضروری ہے اور اس کے علاوہ یکساں نصاب کے لیے بھی یہ محکمہ وفاق کے پاس ہونا لازمی ہے۔ البتہ اس بات کا یقینی بندوبست کیا جانا چاہیے کہ ہر اکائی میں ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جائے جس کے ساتھ انگلش اور عربی لازمی قرار دیا جائے اسطرح سے نہ صرف قومی سطح پر دنیاوی تعلیم کے دروازے سب پر کھل جائیں گے بلکہ اس کے ساتھ دینی تعلیم و تربیت بھی ہو سکے گی۔

آبادی کی منصوبہ بندی سب سے اہم معاملہ ہے اور اس میں ہم مکمل طور پر ناکام رہے ہیں ملکی معاشی مسائل میں اضافہ کا ایک بنیادی جز آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہے جو ملکی پیداوار میں اضافہ سے مطابقت نہیں رکھتا جو مہنگائی بڑھنے کا بنیاد سبب بھی ہے۔ اسلئے اس آبادی کی منصوبہ بندی کا وفاق کے پاس لازمی ہونا چاہیے تاکہ ایک ہی پالیسی کے تحت بہتر انداز میں منصوبہ بندی کی جا سکے۔

ان تمام ترامیم کے بعد سب سے اہم مسئلہ جس سے پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہے اس پر توجہ مرکوز کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور وہ خیبر پختون خواہ کی صورتحال ہے۔ اسوقت وہاں پر پاکستان دشمن ایجنڈے پر کام کرنے والے عناصر سرگرم عمل ہیں اور صوبائی حکومت اپنے سیاسی مقاصد کیلئے ان کے ساتھ مصالحت کا رویہ اختیار کر رکھا ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے مختلف مقامات پر اپنی طرف سے ٹیکس وصولی شروع کر دی گئی ہے ان عناصر کو بھارتی حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور افغان طالبان کے ایک دھڑے کی بھی۔

یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ جن طالبان کو پاکستان نے انتہائی بڑے وقت می نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی وہ مدد کی جس کی وجہ سے وہ آج آزاد ہیں وہ لالچ میں ہنود و یہود کے آلہ کار بن کر پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔

اس لیے اب مزید کسی انتظار کئے بغیر خیبر پختون خواہ کے بارے میں اہم فیصلے کرنا ہو گا تاکہ وہاں پر پاکستان کی رٹ بحال کی جائے اور عوام کو ان دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں سے نجات دلائی جائے۔

امید ہے کہ ریاست پاکستان اس اہم موضوع پر جلد ہی پیش قدمی کرے گی اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ ان شاہ اللہ۔

 

 

 

 

Post a Comment

0 Comments