گلگت بلتستان انتخابات اور قومی صورتحال
اشراق احمد ہاشمی
س دوران یہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماں کے ہنگامی دورے،وعدے اور دعوے حسبِ روایت عوامی لہو گرماتے رہے، ہر جماعت کی کوشش تھی کہ وہ اس علاقے میں حکومت سازی کرے،جس کے سیاست و حکومت پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کی وجہ بہت حد تک واضح تھی کہ اگر حکومتی پارٹی فتح یاب ہوتی ہے تو اپوزیشن جماعتوں کا بیانیہ خود بہ خود دم توڑ جائے گا،اس کے برعکس اگر اپوزیشن جماعتیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو حکومت کی رٹ و مقبولیت اور مستقبل کے قومی الیکشن پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ 1839 سے قبل یہ خطہِ زمین گلگت، بلتستان و ہنزہ کے علاقوں پر مشتمل تھا، جسے بعدازاں اس وقت کے مہاراجہ نے ریاست جموں و کشمیر میں شامل کر لیا۔مگر آزادکشمیر کے حکمرانوں نے کبھی بھی جی بی کو کشمیر کے حصے کے طو رپر ڈیل نہیں کیا۔
1947 میں پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے ایک سال بعد ہی اس علاقے کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک محدود جنگ کے بعد خود کو ریاست جموں و کشمیر سے الگ کر کے آزادی و خود مختاری حاصل کر لی۔ بلتی اور شینا یہاں کی مقامی زبانیں ہیں، یہاں کے عوام پاکستان کی محبت سے اسی طرح سرشار ہیں،جس طرح کشمیر کے عوام پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ اس لئے یہ خطہ آزادی و خود مختاری کے بعد سے ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے پیش پیش تھا۔ اس خطے کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس اسی خطے سے شاہراہ ِ ریشم گزرتی ہے، اس کے علاوہ موجودہ حکومت کے گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے جانے کے اعلان کے بعد چین و پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ، یعنی سی پیک کی تکمیل کے مراحل تیری سے طے پا جائیں گے، کیونکہ یہ واحد خطہ ہے،جس کی سرحدیں تین ممالک سے ملتی ہیں جو سی پیک کی کا میابی کی ضمانت ثابت ہو سکتا ہے۔ 1948 میں کارگل وسیاچن جنگ کا مرکز بھی یہی علاقہ رہا، جو کشمیر کی آزادی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
2009 میں یہاں پہلی مرتبہ عام انتخابات ہوئے جس کا سہرا پیپلز پارٹی کی حکومت کے سر ہے، اس وقت اس خطے کو نیم صوبائی حیثیت بھی دی گئی۔ پیپلز پارٹی کے سیدمہدی شاہ نے پہلے وزیراعلی کی حیثیت سے قلم دان سنبھالا، اس کے بعد دوسرے عام انتخابات میں مسلم لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اور حفیظ الرحمن نے وزار ت اعلی کا منصب حاصل کرلیا۔
اس وقت سیاسی جماعتوں کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ انتخابات کی شفافیت اور اس کے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا ہے۔ اگر گزشتہ دھائی کے انتخابی نتائج کا جائزہ لیا جائے توعوام کا رویہ تو بظاہر خیبر پختونخوا کے عوام سے مختلف نظر نہیں آ رہا کہ جیسے وہاں ہر پارٹی کو صرف ایک مدت کے لئے آزمایا جاتا ہے،اگر وہ اپنے وعدے پورے کرے تو پی ٹی آئی کی آخری ٹرم کی طرح دوبارہ منتخب کیا جاتا ہے ورنہ بہت محبت سے خیرباد کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح گلگت بلتستان کے عوام بھی بہت ذہین و ذی شعور معلوم ہو رہے ہیں۔ ان کی سوچ بھی خیبر پختونخوا کے عوام کی طرح منقسم ہونے کی بجائے اپنے مقصد میں یکسو دکھائی دے رہی ہے جو ایک خوش کن آغاز ہے، مگر میرے نزدیک سب سے اہم بات ان معصوم عوام سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری ہے کیونکہ اگر ان کے ساتھ بھی وہی روایتی سیاسی رویہ اختیار کیا گیا تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان عوام کے ساتھ نئی منتخب حکومت کا رویہ بہت اہم ہے جو پاکستان بالخصوص اس خطے کے مستقبل کے لئے اہم ہے۔
اب ذرا عالمی سطح پر جائزہ لیں تو ان انتخابات پر بھارت کی بہت گہری نظر ہے، بھارتی میڈیا و حکومت اس پر مختلف انداز سے زہر اگلنے میں مصروف ہیں جو ان کا معمول تو ہے، مگر اس خطے کی سی پیک کے اعتبار سے اہمیت کی وجہ سے بھارت عالمی سطح پر پروپیگنڈہ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ امریکہ سی پیک پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے، مگر جو بائیڈن کے حکومت میں آنے کے بعد حالات میں بہتری کی امید کی جا رہی ہے، جنوری کے بعد ہی امریکی حکومت کی پالیسی مزید واضح ہو گی۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد خریف کا حالیہ دورہء پاکستان اہم ہے۔ پاکستانی حکومت کو پاکستان میں گلگت بلتستان کے علاوہ ملک بھر میں فری و فیئرالیکشن کروانے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے اس لئے الیکشن کمیشن کے نظام کو بدل کر مزید شفاف نظام،جو تحفظات سے پاک ہو، متعارف کروانا مستقبل کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے بھارتی پروپیگنڈے کو عالمی سطح پر زائل کرنا اور نئی امریکی حکومت کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنا، ایران و چین کے ساتھ معا ملات میں کسی بیرونی دبا کو تسلیم نہ کرنا، حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
بڑا شور تھا کہ شاید اس بار ان ''جی بی انتخابات ''سے ہی پاکستان کی تقدیر بدل جائے مگر زمینی حقائق ٹس سے مس نہ ہوئے اور وہی ہوا جو ہر الیکشن کے بعد ہوتا ہے یعنی ایک طرف جیت کاجشن اور دوسری طرف دھاندلی کے دھواں دار الزامات، ہمیں مرزا غالب کا شعر یاد آ رہا ہے جو واقعتا انہوں نے سنگدل محبوب کے بارے میں لکھا تھا مگر آج وہ ہماری جمہوریت کا عنوان ہے۔
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
پاکستانی جمہوریت کی ایک کوالٹی یہ ہے کہ بڑے صوبے کے نتائج چھوٹے صوبوں کی حکومت سازی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ نئے پاکستان میں بھی یہ پرانی روایت برقرار رہی ہے۔ جب وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو GB الیکشن میں پیپلزپارٹی 14 نشستوں کے ساتھ وہاں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ پھر ن لیگ کی باری آ گئی جس نے GB میں 13 سیٹیں جیت کر حکومت اپنے نام کر لی۔ اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت ہے تو اولین تاثر یہی تھا کہ یہ الیکشن حکمران جماعت ہی جیتے گی جیسا کہ ہر بار ہوتا رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف چونکہ یہ جماعت سیاسی روایت شکنی کا دعوی کرتی رہی ہے، اس لیے ایک خیال یہ بھی تھا کہ اگر اپوزیشن جماعتوں کو مساوی بنیادوں پر level playing کا موقع دیا گیا تو عوام مہنگائی کے ہاتھوں جتنے تنگ ہیں ہو سکتا ہے اس الیکشن کا نتیجہ روایتی انداز سے مختلف ہو۔ مگر حکمران جماعت کو اس خطرے کا احساس تھا لہذا انہوں نے رسک نہیں لیا اور حکومت پر اس ساری انجینئرنگ کے الزامات لگ رہے ہیں جو ہماری سیاست کا حصہ ہے۔ حکومت کی مجبوری یہ تھی کہ اگر GB الیکشن ہار جاتے تو اسے حکومت کے خلاف ریفرنڈم سمجھ لیا جاتا لہذا تحریک انصاف بھی کچی گولیاں نہیں کھیلتی کہ آسانی سے ایسا ہونے دیا جاتا۔ بالآخر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ حکومت جیت گئی۔
اعداد و شمار پر غور کیا جائے تو پی پی اور ن لیگ اپنے اپنے دور میں سادہ اکثریت لے کر جیت گئے تھے مگر تمام الزامات کے باوجود پی ٹی آئی حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ حکومت بنا سکے۔ جو 7 آزاد امیدوار جیتے ہیں ان کی وفاداری کا راستہ پاکستان کے بچے بچے کو پہلے سے پتہ ہے کہ انہوں نے کن شرائط پر کس کے ساتھ جانا ہے بقول حبیب جالب:
دلدار بنو گے کتنے میں؟
تم پیار کرو گے کتنے میں؟
یہاں پر GB-2 گلگت حلقے کا ذکر کرنا ضروری ہے جہاں پی ٹی آئی کے امیدوار فتح اللہ خان نے 6696 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدوار جمیل احمد نے صرف 2 ووٹ کے فرق سے 6694ووٹ لیے۔ پیپلزپارٹی کا دعوی ہے کہ رات تک وہ جیتے ہوئے تھے راتوں رات حلقہ کا نتیجہ Tamper کر کے انہیں اگلے دن ناکام قرار دیا گیا ہے۔ یہ بڑی دلچسپ اور نازک صورت حال ہے جس کا اخلاقی تقاضا یہ ہے کہ اس پر دوبارہ گنتی کریں یا وزیراعظم عمران خان کی زبان میں یہ حلقہ کھول دیا جائے مگر میرا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف ایسا کبھی نہیں کرے گی کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی یہ سیٹ چلی جائے گی۔
''اب بحران بند گلی کی جانب''کی مصداق اپوزیشن جماعتیں حکومت پر پری پول رگنگ کا الزام لگا رہی ہیں کہ کس طرح انتخابی کمیشن کے اعلی افسران حکومتی وزرا سے کھلم کھلم ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ کسی طرح ن لیگ کے امیدواروں کو منظم طریقے سے وفاداری بدلنے پر مجبور کیا گیا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ حکومتی وزرا کتنے تواتر کے ساتھ جلسوں میں ترقیاتی کاموں کا جھانسا دیتے رہے۔ ویسے حکومتی وزرا کی سرکاری پروٹوکول کے ساتھ جلسوں میں آمد اور مراعات کے عہدو پیمان پری پول دھاندلی کے ضمن میں آتے ہیں۔ گزشتہ تمام انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات میں اس پر پابندی تھی مگر پتہ نہیں اپوزیشن جماعتوں نے امین گنڈا پور اور زلفی بخاری کے جلسوں پر پابندی کے لیے کسی عدالت سے کیوں رجوع نہیں کیا۔ یہاں پر امین گنڈا پور کی سر عام جلسوں میں مریم نواز پر ذاتی حملے کرنے اور کیچڑ اچھالنے کا ذکر ضروری ہے جس کا سب سے افسوسناک پہلو یہ تھا کہ تحریک انصاف نے ان کے غلیظ موقف سے لاتعلقی اختیار کرنے یا ان کی سرزنش کرنے کے بجائے ان کے الزامات کو own کیا اور ایک غلط اور گھٹیا روایت کی بنیاد رکھی۔
یہاں پر اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ ن لیگ اور پی پی ویسے تو حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک PDM کے ممبر ہیں لیکن ان کے دل اندر سے پھٹے ہوئے ہیں الیکشن کے اعداد وشمار پر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ اگر ان دونوں جماعتوں کے ووٹ پاور کو اکٹھا کیا جاتا تو PDM کا ووٹ بینک اکاونٹ حکومت سے زیادہ ہو جاتا ان دونوں جماعتوں کو چاہیے تھا کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے ایک دوسرے کے خلاف امیدوار کھڑے نہ کرتے مگر واقفان حال کا کہنا ہے کہ نتیجہ پھر بھی یہی ہونا تھا کیونکہ GB کے اندر سینہ در سینہ پہنچنے والی قیاس آرائیوں میں خبردار کر دیا گیا تھا کہ پہلا نمبر حکومت کا اور دوسرا پی پی پی کا ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا جو کوئی سرپرائز نہیں تھا۔ GB اور بلوچستان یا سابقہ فاٹا علاقوں کی جغرافیائی کیمسٹری یہ ہے کہ یہاں مرضی کے نتائج حاصل کرنا گنجان آباد صوبوں کی نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں الیکشن میں وفاداریوں کی خریدو فروخت اور حتی کہ عام ووٹرز کو خریدنے کا عمل بھی پایا جاتا ہے جس وجہ سے سیاست پیسے کا کھیل بن چکی ہے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح تحریک پاکستان اور الگ ملک کے 1930 کے مطالبے سے پہلے جب آل انڈیا سیاست میں سرگرم تھے تو اس وقت وہاں مذہب کی بنیاد پر جداگانہ انتخابات کی بات ہوتی تھی اس وقت پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان جتنی واضح خلیج پائی جاتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں اس بنیاد پر جداگانہ انتخابات کرانے کو نوبت آجائے کہ امیروں اور غریبوں کے حلقے الگ کر دیئے جائیں۔ پھر فائلر اور نان فائلر کی بنیاد پر انتخاب ہو گا اور ارب پتی اور کروڑ پتی سیاستدان نان فائلر ووٹرز کے نمائندے نہیں بن سکیں گے یہ بظاہر تو ایک مضحکہ خیز تصور ہے مگر حالات جس نہج کی طرف بڑھ رہے ہیں اس کے سوا چارہ تو رہے گا۔ یاد رہے بالغرض اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ کروڑ پتی سیاستدان اپنی ساری دولت اپنے بچوں کے نام کر کے خود غریبوں کی صف میں کھڑے ہوں گے تا کہ ان کے ووٹ لوٹ کر اسمبلی میں جا سکیں پاکستانی سیاست اتنی نیرنگ خیال اور دلکش ہے کہ برطانیہ میں وزارت کے مزے لینے والے چودھری سرور نے اپنی برطانوی شہریت محض اس لیے سرنڈر کر دی کہ وہ پاکستان میں سیاست سے لطف اندوز ہو سکیں۔
کچھ بھی کہاجائے مگر اب جبکہ میاں نواز شریف مکمل طور پر سامنے آکر نام لیکر مخاطب کرکے ''احتیاط کرنے'' کا کہہ چکے ہیں تو پھر ان پر کچھ عمل ہوتا نظر بھی آرہا ہے ۔ جیسے کراچی انکوائری کمیشن کے فیصلے نے محتاط الفاظ استعمال کیے مگر پھر بھی بہت کچھ سامنے آگیا ۔ کہ بھائی ''آپ کو جذباتی ہونے کی کیا ضرورت تھی کیا سول معاملات میں آپ کادخل ضروری ہے'' کیا حکومت سے بڑھ کر آپ کو کچھ کرنا چاہیے ۔ بہرحال یہ تبدیلی کی ایک جھلک ہے اور مستقبل قریب میں معاملات جمہوری قدروںکی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ جلسے نون لیگ کے بہت بڑے ہوئے مگر تین ماہ لیٹ کرکے الیکشن کروانے والوں اور حافظ حفیظ الرحمان کی حکومتی غلطیاں کوتاہیاں بھی آڑے آئی ہوں گی ۔۔۔

0 Comments