Header Ads Widget

موجودہ صورت حال اور اہل ایمان کی ذمہ داری - ممتاز ہاشمی ٹورنٹو کینیڈا

 



ممتاز ہاشمی ٹورنٹو کینیڈا

اللہ، اُس کے رسولوں، اُس کی نازل کردہ تمام کتابوں، غیب، قیامت اور آخرت کے دن پر کامل یقین ہر مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزوہے۔ اللہ اور اُس کے رسولﷺ پر ایمان کا تقاضا قرآن حکیم میں یوں بیان کیا گیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ 1 (محمد: 33)

’’ اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔ ‘‘

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ 1 (الذاريات : 56)

’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔‘‘

اگرچہ اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا خالق ہے اور تمام مخلوقات اس کی تابع ہیں لیکن یہاں پر صرف انسانوں اور جنوں ہی کو کیوں مخاطب کیا گیا ہے؟ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کائنات میں انسان اور جن کے علاوہ کسی بھی مخلوق کو یہ آزادی نہیں دی گئی ہے کہ وہ اپنی مرضی اختیار کر سکے ۔ انسانوں اور جنوں کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چاہیں تو خالق کائنات کی بندگی اختیار کریں یا پھر کسی اور کی۔ اس اختیار کی وجہ اور ان کے عمل کی بنیاد پر ہی قیامت کے دن ان کا حساب ہو گا۔ ابدی زندگی میں کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اور معیار اسی بندگی پر محیط ہو گا ۔ اس لیے اس زندگی میں کامیابی کا انحصار صرف اور صرف اللہ کی بندگی میں پنہاں ہے۔ یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ بندگی کا تعلق صرف عبادات تک محدود نہیں جو بندگی کا محض ایک حصہ ہیں ۔بندگی کا حقیقی تصور اللہ کے تمام احکام کی ہمہ وقت پابندی اور عمل داری ہے۔ اس کا واحد راستہ تمام خلافِ شریعت احکام کو ختم کرنے اور دین اسلام کے نفاذ کی جدوجہد میں پنہاں ہے۔

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام احکامِ الٰہی پر جو بذریعہ وحی پیغمبر آخرالزماں محمد ﷺ کی وساطت سے امت مسلمہ کو پہنچائے گئے‘ایسے مکمل عمل درآمد کرنا جس طرح سے محمد ﷺ نے بتایا اور جو سنت رسول ﷺکی صورت میں محفوظ ہیں۔

آج دنیا تیزی سے اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ اس دور میں اہل ایمان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کی تجدید کے ساتھ اپنے عمل صالح کو مستحکم بنانے کی کوشش کریں۔ موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے ذیل کی احادیث کو سامنے رکھنا ضروری ہو گا ۔

امام احمد بن حنبل ؒ نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہ آنحضور ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مخاطب ہو کر فرمایا:

’’تمہارے مابین نبوت موجود رہے گی (آپ ؐ کا اشارہ خود اپنی ذاتِ اقدس کی جانب تھا) جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر جب اللہ چاہے گا اسے اٹھا لے گا۔ اس کے بعد نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہو گی اوریہ بھی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ قائم رہے‘ پھر جب اللہ چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا۔ پھر کاٹ کھانے والی (یعنی ظالم) ملوکیت آئے گی اور وہ بھی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر جب اللہ چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا۔ پھر مجبوری کی ملوکیت (غالباً مراد ہے مغربی استعمار کی غلامی) کا دور آئے گا اور وہ بھی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر جب اللہ چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا ---- اور پھر دوبارہ نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی!‘‘

راوی کے قول کے مطابق اس کے بعد آپﷺ نے خاموشی اختیار فرمالی۔ اس حدیث کی ایک دوسری روایت میں صراحت ہے کہ جب وہ نظام دنیا میں دوبارہ قائم ہو جائے گا تو آسمان بھی اپنی ساری برکات نازل فرمادے گا اور زمین بھی اپنی تمام برکتیں باہر نکال کر رکھ دے گی۔

اس کے علاوہ دو اور احادیث بہت اہم ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اب جو خلافت علیٰ منہاج النبوت کا نظام قائم ہو گا وہ پورے عالم انسانیت اور کل روئے ارضی کو محیط ہو گا۔ چنانچہ :

(۱) صحیح مسلمؒ میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ (آنحضورﷺ کے آزاد کردہ غلام) سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’اللہ نے میرے لیے پوری زمین کو سمیٹ یا سکیڑ دیا۔ چنانچہ میں نے اس کے سارے مشرق بھی دیکھ لیے اور تمام مغرب بھی‘ اور سن رکھو کہ میری اُمت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہو کر رہے گی جو مجھے سکیڑ کر یا لپیٹ کر دکھا دیے گئے!‘‘

(۲) مسند احمد بن حنبل ؒ میں حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا:

 ’’کل روئے ارضی پر نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر باقی رہے گا نہ اونٹ کے بالوں سے بنا ہوا خیمہ جس میں اللہ کلمۂ اسلام کو داخل نہ کر دے‘ خواہ کسی عزت کے مستحق کے اعزاز کے ساتھ اور خواہ کسی مغلوب کی مغلوبیت کے ذریعے۔ یعنی یا تو اللہ انہیں عزت دے گااور اہل اسلام میں شامل کر دے گا یا انہیں مغلوب کر دے گا‘ چنانچہ وہ اسلام کی بالادستی قبول کر لیں گے!‘‘ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس پر میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ ’’تب وہ بات پوری ہو گی (جو سورۃ الانفال کی آیت ۳۹میں وارد ہوئی ہے) کہ دین کل کا کل اللہ ہی کے لیے ہو جائے!‘‘

آج کے حالات ان احادیث کی سچائی کی مکمل گواہی دیتے ہیں ۔اب کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں کہ ہم تیزی سے آخری دور کی جانب گامزن ہیں۔ اس یہ دور میں قیامت سے پہلے پوری کائنات پر دین اسلام کا مکمل نفاذ ہو گا ۔ ایمان اور عمل صالح کے حامل مسلمانوں کو دنیا کی خلافت عطا ہو گی ۔ نئی نسل کے لیے اس وقت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہونے کے بھرپور مواقع میسر ہیں ۔وقت کو بہترین طور پر استعمال کرتے ہوئے وہ اپنی آخرت سنوارنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ یہ حقیقت اس عہد کے مجدد علامہ اقبال نے اپنی نگاہ سے دیکھ لی تھی اور اس انداز میں اہل ایمان کو پیغام دیا کہ ؎

وقتِ فرصت ہے کہاں ‘کام ابھی باقی ہے

نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!

علامہ اقبال کے نزدیک آج سب سے اہم کام دین اسلام کے نفاذ کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنا ہے۔ اس طرح ہم اپنی تخلیق کے جواز کو صحیح ثابت کرنے اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اپنے روز مرہ کے معمولات اور مصروفیات کا جائزہ لے کر ہم اخروی فلاح کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں ۔ ہمیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ کی راہ میں جدوجہد کر کے ہم کسی پر احسان نہیں کریں گے بلکہ اس میں ہمارا اپنا ذاتی مفاد ہے۔

نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ نے عالمی سطح پر اسلام کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات اور جدوجہد کی بشارت دی تھی۔ یہ سارا لائحہ عمل سنتِ رسول ﷺکی شکل میں ہمیشہ کے لیے ہماری رہنمائی کا ذریعہ ہے ۔اس عمل کے بنیادی اجزاء یہ ہیں :

۱) دعوت ِاسلام بذریعہ قرآن

۲) حزب اللہ (اللہ کی جماعت) کی تلاش اور اس کا حصہ بننا

۳) نظام ِباطل کے خلاف اور اقامت دین کی جدوجہد

علامہ اقبال نے اس سنہرے مستقبل کے خدوخال کچھ یوں بیان کیے ہیں: ؎

آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود

پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے!

  اللہ تعالیٰ ہم سب پر کرم کرے۔ ہمیں اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں اسلامی احکام کے نفاذ کے لیے مختص کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

(مندرجہ بالا مضمون کے ماخذ ڈاکٹر اسرار احمد ؒکے دروس و خطابات ہیں۔)

 

 

 

Post a Comment

0 Comments