Header Ads Widget

پنجاب کے چیف منسٹر کے انتخاب کا قانونی اور آئینی جائزہ تاریخ جولائی 22، 2022 ( دو برس قبل لکھا گیا مضمون )

 


ماضی کے جھروکوں سے

  تحریر: ممتاز ہاشمی

آج پنجاب کے چیف منسٹر کے ہونے والے انتخابات پر ہو قسم کے تبصرے کئے جا رہے ہیں اور ان میں زیادہ تر لوگوں کے تبصرے قانونی اور آئینی تقاضوں کو بغیر سمجھے کئے جا رہے ہیں اسلئے اس کو سمجھنے کے لیے حالیہ تاریخ میں عدلیہ میں دائر  صدارتی 63 اے   اور اس پر ہونے والے فیصلے کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے
اس اہم آئینی مسلے پر دائر ریفرنس کی سماعت کے لیے جو بنچ تشکیل دیا گیا تھا اس پر اسی دن سے سوال اٹھایا گیا تھا اور اس اہم کیس میں سینیر ترین ججوں کی عدم موجودگی نے پہلے دن سے اس کی شفافیت پر سوال پیدا کردیے تھے

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایسے اہم آئینی مقدمات کی سماعت ہمیشہ  مخصوص اور جونیئر ججوں کے  ذریعے ہوتی ہے۔ غیر جانبدار اور سینئر ججوں کی اکثریت ان اہم آئینی مقدمات سے ہمیشہ دور رکھا جاتا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس قسم کے اہم آئینی اور سیاسی مقدمات کو سپریم کورٹ کا فل بنچ جو تمام ججوں پر مشتمل ہوتا تاکہ اس میں کسی قسم کی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہوتی ۔
غور طلب ہے کہ پانچ رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی وضاحت کے صدارتی ریفرنس پر انتہائی متنازعہ فیصلہ دیا ہے۔ یہ فیصلہ 3 سے 2 کی اکثریت کا فیصلہ تھا۔ اس ریفرنس میں 2 ججوں نے اکثریتی فیصلے کو آئین کی ازسرنو تحریر قرار دیا، جو عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ سپریم کورٹ بار کی اکثریتی فیصلے پر نظرثانی کی درخواست ابھی زیر التوا ہے اور اس کی سماعت نہیں ہو رہی۔ یہ ضروری ہے کہ ملک کو آئین کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے فل کورٹ اس متنازعہ فیصلے پر دائر کی  گئی نظرثانی کی درخواست کی سماعت کرے

اسی طرح صدارتی ریفرنس پر مختصر فیصلے کا اج تک تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔ اس اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے جج نے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنا فیصلہ جاری کرتے ہوئے اکثریتی فیصلہ کو آئین کی روح کے خلاف قرار دیا ہے اور اس کے تفصیلی فیصلے کو جاری نہ کرنے پر سوالات اٹھائے ہیں اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کو بھی ابھی تک نہیں سنا گیا ہے
  یہ انتہائی اہم کیس ہے کیونکہ اس کے فیصلے کا انحصار پنجاب میں دوبارہ سے چیف منسٹر کے انتخابات پر بھی ہے۔ کیونکہ آئین کی روح سے منحرف اراکین کے ووٹوں کو شمار نہ کرنا آئین میں ترمیم کرنا ہے جس کا سپریم کورٹ کو کوئی اختیار نہیں ہے۔
آج پنجاب کے چیف منسٹر کے دوبارہ انتخاب میں ڈپٹی سپیکر نے اس فیصلے کا اطلاق کرتے ہوئے منحرف اراکین کے ووٹوں کو گنتی میں شامل نہیں کیا جو کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے عین مطابق ہے
اسلے آج کے انتخاب کو اسی فیصلے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے
اس بات کی انتہائی ضرورت ہے کہ سپریم کورٹ اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی فوری سماعت کرے اور اس کے لیے سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل بنچ تشکیل دیا جائے۔
 تمام مسائل کا تعلق مذکورہ متنازعہ اکثریتی فیصلے سے ہے
یہ بات اہم ہے کہ اگر سپریم کورٹ اپنے پرانے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے اس کی تشریح آئین کے مطابق کرتی ہے تا اس صورت میں آج ہونے والے دوبارہ انتخاب کی کوئی ضرورت نہیں رہتی اور منحرف اراکین کے ووٹوں سے پہلے سے منتخب وزیر اعلی ہی مستقل وزیر اعلی کہلائے گا اور اگر سپریم کورٹ اپنے فیصلے کو برقرار دکھتی ہے تو آج کی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ عین آئینی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔
 

 

Post a Comment

0 Comments