Header Ads Widget

پاکستان کی حالیہ صورتحال میں اداروں کے جانبدارانہ روپے کا جائزہ


 ماضی کے جھروکوں سے 

جولائی 19، 2022 ( دو برس قبل لکھا گیا مضمون )

تحریر: ممتاز ہاشمی 

اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے ہمارے اداروں خصوصی طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے اپنا آئینی کردار ادا نہیں کیا اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے مملکت کے امور میں ناجائز مداخلت کی۔جس کی وجہ سے آج پاکستان دنیا بھر میں بدنامی اور رسوائی سے دوچار ہے ان کرداروں کی تاریخ ایک لمبی داستان ہے جس کو الگ سے بیان بھی کر چکا ہوں۔
آج ان اداروں کے مجودہ صورتحال کا تذکرہ کرنا ضروری ہے 
ملٹری اسٹیبلشمنٹ 
ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے غیر آئینی طریقے سے نوازا شریف کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی اور اپنے ایجنٹ اور اقتدار کے بھوکے عمران خان کو استعمال کیا۔ اس سے اسلام آباد میں دھرنا کرایا اور نواز شریف سے استفئ کے لیے ای ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام سے دباؤ ڈالا مگر نواز شریف کی مزاحمت نہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اس سازش کو ناکام بنا دیا اس کا نقصان پاکستان کو اقتصادی طور پو بھگتنا پڑا اور چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے میں تاخیر ہوئی۔
اس کے بعد پانامہ لیک کے نام نہاد کیس کی بنیاد پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے منتخب وزیراعظم کو غیر آئینی طور پر عہدے سے ہٹایا۔
اس منصوبے میں عمل کرتے ہوئے اپنے ایجنٹ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے تمام غیر آئینی طریقے استعمال کیے جس میں مسل لیگ کے لیڈروں کے خلاف کیسوں کی بھرمار اور ان کو توڑنے کے تمام ہتھکنڈوں کو استعمال کیا گیا اسی طرح پیپلزپارٹی کے لوگوں کو توڑ کر عمران خان کی پارٹی میں شرکت پر مجبور کیا گیا اور دیگر لوگوں کو جنوبی محاذ بنا کر عمران خان کے ساتھ کھڑا کیا گیا ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود جب الیکشن کے نتائج آنے شروع ہوے تو اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ عمران خان مکمل شکست سے دوچار ہو رہا ہے اس مرحلے پر اسٹیبلشمنٹ نے ار ٹی ایس سسٹم کو بند کر کے پاکستان کی تاریخ میں دھاندلی کے نئے ریکارڈ قائم کئے اگرچہ وہ پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں دھاندلی کے ذریعے نتائج کو تبدیل کرنے کامیاب ہوئے لیکن سندھ میں پیپلزپارٹی کی مزاحمت سے وہ سواے کراچی کے اس میں کامیابی حاصل نہ کر سکے جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو اکثریت دلانے میں ناکام رہی اور اس کو حکومت بنانے کے لئے دوسری پارٹیوں کا محتاج بنا دیا۔

ان انتخابات کے حوالے سے صرف ایک ہی واقعہ ان کی غیر شفافیت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے یہ مجودہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے حلقہ انتخاب کی کہانی ہے جس کے نتائج کو جب چیلنج کیا گیا تو اس حلقے کے انتخابی مواد کو جب الیکشن کمیشن کے تحت قائم کردہ قانونی عدالت نے جائزہ لیا تو اس الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ 50 ہزار سے زائد ووٹر لسٹ میں جو انگوٹھے کے نشانات ہیں وہ انسانی انگوٹھے نہیں ہے یہ انتہائی اہمیت کا حامل فیصلہ تھا اور پورے الیکشن کی غیر شفافیت کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے اس کو چھپانے کیلئے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ سے رکوا دیا گیا اور اج 3 سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود سپریم کورٹ اس کیس کو نہیں لگا رہی تاکہ اس پر پردہ پوشی برقرار رہے۔
ان تمام تر اقدامات کے باوجود عمران خان مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے بلکہ پنجاب اسمبلی میں تو مسلم لیگ واضح برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اس لیے اس حکومت کو بنوانے کے لئے مختلف حربوں اور لوگوں کو ساتھ ملا کر ایک غیر مقبول حکومت کو بٹھایا گیا
اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر اقدامات اور حمایت کے باوجود عمران خان کی کٹھ پتلی حکومت پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ ناکام حکومت ثابت ہوئی اس دوران عوامی کے مسائل میں شدید اضافہ ہوا۔
اس عرصے میں مسلم لیگ کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت اور عمران خان کی کٹھ پتلی حکومت کی مکمل ناکامی نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر دیا جس کی بناء پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اپنے کردار پر نظرثانی پر مجبور کیا اور انہوں نے اپنے آپ کو اپنے آئینی کردار تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا اگرچہ یہ صرف وقتی طور پر ہی ہے۔ اس بناء پر عمران خان کی کٹھ پتلی حکومت یک دم منہدم ہو گی۔
اس کے بعد عمران خان نے اپنی ناکامی کا سارا ملبہ اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ پر ڈالنے کی مہم شروع کر دی جو اج بھی جاری ہے اس مہم میں اس نے اداروں بشمول ملٹری کمانڈرز اور سیاست دانوں پر غداری کے متعدد بار الزامات لگائے اور اج تک اس بات کی گردان کر رہا ہے کی ان لوگوں نے امریکی ایجنٹوں کا کردار ادا کرتے ہوئے اس کی حکومت کے خاتمے کی سازش کی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی قوتوں، صحافیوں سمیت تمام دیگر انسانی حقوق کے کارکنوں کی خلاف شدید قسم کی کارروائی عمل میں لائی جنہوں نے ان کے غیر آئینی اقدامات کی زرا برابر بھی مذمت کی تھی اس سلسلے میں قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کی مثال سامنے ہے جن کو فوج پر تنقید کے الزام میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے دو سال سے زائد عرصے سے حراست میں لے رکھا ہے اور اب پر غداری کا مقدمہ درج کیا ہے جس کی سماعت بھی نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس عمران خان کے فوج اور کمانڈرز پر غداری اور امریکی ایجنٹ کے لگائے جانے والے مسلسل الزامات کے باوجود ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے جو کہ ان کے متضاد روپے کا عکاس ہے اس سے اس بات کا شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار نہیں ہے اور کسی خاص مقصد کے لیے عمران خان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔

عدلیہ 
عدلیہ کی تاریخ بھی انتہائی شرمناک ہے اس نے ہمیشہ فوجی آمریتوں کا ساتھ ملکر پاکستان میں جمہوریت کے خلاف کام کیا اور اسطرح اپنے آئینی کردار سے انحراف کیا۔ حالیہ تاریخ میں ملک میں سیاسی انتشار پھیلانے میں عدلیہ کا اہم کردار ہے جسمیں مجودہ چیف جسٹس اور اس کے کچھ ساتھیوں کا انتہائی اہم حصہ ہے۔ تحریر عدم اعتماد کے دوران لئیے گئے نوٹس کا تفصیلی فیصلہ کئی ماہ کی تاخیر سے اب جاری کیا ہے جس کی رو سے صدر علوی، عمران خان، اس قیصر اور قاسم سوری آئین کی پامالی کے مرتکب ہوئے ہیں اسلئے ان پر غداری کے مقدمے دائر کرنے کا اکثریتی فیصلہ میں ذکر نہ کرنا دوبارہ سے نظریہ ضرورت کا اجراء ہے اس بار یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ سولین کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو کہ عدلیہ پر ایک بڑا دھبہ ہے۔ اسی طرح صدارتی ریفرنس پر مختصر فیصلے کا اج تک تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔ اس اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے جج نے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنا فیصلہ جاری کرتے ہوئے اکثریتی فیصلہ کو آئین کی روح کے خلاف قرار دیا ہے اور اس کے تفصیلی فیصلے کو جاری نہ کرنے پر سوالات اٹھائے ہیں اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کو بھی ابھی تک نہیں سنا گیا ہے یہ انتہائی اہم کیس ہے کیونکہ اس کے فیصلے کا انحصار پنجاب میں دوبارہ سے چیف منسٹر کے انتخابات پر بھی ہے۔ کیونکہ آئین کی روح سے منحرف اراکین کے ووٹوں کو شمار نہ کرنا آئین میں ترمیم کرنا ہے جس کا سپریم کورٹ کو کوئی اختیار نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن 

مجودہ الیکشن کمشنر کی تعیناتی عمران خان نے خود کی تھی اور متعدد مواقع پر اس کے غیر جانبداری کی تعریف کی ہے اور پرانے الیکشن کمشنر پر تنقید کی ہے لیکن اب جب کہ مجودہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کیس کی سماعت مکمل کر چکا ہے اور فیصلے کو محفوظ کیے ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے تو اس وقت میں عمران خان کی الیکشن کمشنر پر شدید تنقید کا واحد مقصد ان کو دباؤ میں لانا اور تحریک انصاف کے کیس کے فیصلے کو روکنے کی کوشش ہے 
ان تمام حقائق سے واضح ہے کہ اب تک اداروں کی غیر آئینی حمایت عمران خان کو حاصل ہے جس کی بناء پر وہ اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کرتے ہوئے ملک میں انتشار اور لاقانونیت پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے 
آج ان اداروں کو اپنے طرز عمل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور عمران خان کے خلاف قانونی تقاضوں کے مطابق فوری اقدامات عمل میں لانے چاہیے تاکہ عمران خان ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے سے روکا جائے۔




Post a Comment

0 Comments