ماضی کے جھروکوں سے
جولائی 19، 2023 ( ایک برس قبل لکھا گیا مضمون )
تحریر: ممتاز ہاشمی
آج پاکستان تاریخ کے جس اہم موڑ پر کھڑا ہے اس کا ادراک عوام کی اکثریت کو نہیں ہے اس کی بنیادی وجہ عوام کی سیاسی امور میں عدم دلچسپی اور تاریخ سے لاعلمی ہے۔
آج کے حالات کو سمجھنے کے لیے ماضی کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہوگا پاکستان کے قیام کا مقصد ایک وفاقی فیڈریشن کا قیام تھا جس میں مختلف قومیتوں کے یونٹس جن میں واحد مشترکہ چیز دین اسلام تھا اس کے عملی نفاذ اور اسکے فوائد سے دنیا بھر کو دوبارہ سے متعارف کرانا تھا جو کہ دو قومی نظریے اور فلسفہ اقبال کی بنیاد پر تھا۔
قیام پاکستان پر جو سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ پاکستان کا حصہ بنیں ان کا پاکستان کے قیام کی جدوجہد یا نظریے سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ اپنے برطانوی آقاؤں کے تحت اس مقصد کے خلاف کام کرتے رہیے تھے ان کے لیے پاکستان ایک شاندار موقع تھا کیونکہ ہندوستان کے اندر نہ ہی وہ ہندو بیوروکریسی کا مقابلہ نہیں سکتے تھے اور نہ ہی بھارت میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے کوئی سیاسی گنجائش موجود تھیں اسلئے ان قوتوں نے قیام پاکستان کے فوری بعد ہی اپنے پر پرزے نکالنے شروع کر دئیے اور ملک میں قابض ہونے کی سازشوں کا آغاز کر دیا. قائد اعظم کی جلد رحلت اور مسلم للیگ کی 21 قیادت ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی اسلئے قیام پاکستان کے فوری بعد ملک میں آئین اور جمہوری نظام قائم نہ ہو سکا اور آخرکار1958 میں ان قوتوں نے عدلیہ کی مدد سے ملک میں جمہوری نظام کو ختم کرنے اور مارشل لاء کی بنیاد ڈال دی۔
اس آمریت کے خلاف جمہوری قوتوں نے ہمیشہ جدوجہد کی اور قربانیاں دیں جس سے عوام میں اس سے نجات حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہونے لگا
آمریت نے تمام اختیارات مرکز کو منتقل کر دیے اور اسطرح وفاقی یونٹس کا استحصال کرنے لگا ملکی وسائل چند بڑے شہروں تک محدود کر دئیے گئے اور اسطرح نہ صرف چھوٹے صوبوں بلکہ سب سے بڑے صوبے مشرقی پاکستان میں احساس محرومی پیدا ہوتا گیا اور دوریاں اور فاصلے بڑھنے لگے۔
اگر جمہوری عمل ہی جاری رہتا تو بھی وسائل کی کچھ حد تک منصفانہ تقسیم سے اس احساس محرومی کو دور کیا جا سکتا تھا مگر ملٹری ڈکٹیٹروں کی سمجھ میں حالات کی نزاکت نہ تھی اور نہ ہی وہ تاریخ کا ادراک رکھتے تھے انہیں صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کی فکر لاحق ہوتی تھی اور اس کے لیے وہ مزید مسائل پیدا کرتے رہے ۔
عوامی جدوجہد کے نتیجے میں ایوب خان کے خلاف شدید عوامی تحریک کو پذیرائی ملی اور اس میں طلباء، مزدور اور سیاسی قوتوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر آمریت کو اقتدار چھوڑنے، ون یونٹ کے خاتمے، صوبائی اکائیاں کی بحالی اور انتخابات کرانے پر مجبور کر دیا۔
70 میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا اور اس کو آئین ساز اسمبلی کا نام دیا گیا۔ ان انتخابات کے انعقاد میں سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹز کا ایک اہم پلان تھا جس میں دائیں بازو کی اسٹیبلشمنٹ کی حامی جماعتوں کی کامیابی کا کامل یقین تھا اور اس کے بعد اپنی گرفت ان اداروں پر برقرار رکھنا تھا۔
مگر 70 میں ایک عوامی انقلاب کے ذریعے عوام نے ان انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے تمام اندازے غلط ثابت کر دیئے اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ واحد بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھری جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی نے واضح اکثریت حاصل کئی۔
اس عوامی انقلاب کو روکنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے مختلف حربوں کا استعمال کیا اور 120 دن کی معیاد جو نئے آئین کو مرتب کرنے کے لئے لگائی گئی تھی اس کو ڈھال بنایا۔ کیونکہ وفاقی یونٹس میں شدید اختلافات تھے اور اس بات کا خدشہ تھا کہ یہ آئین کی تیاری میں صوبائی خودمختاری کے مسائل حل نہیں ہو سکتے اسلئے اس مدت کو ختم کرنے کی بات کی گئی مگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اس کے بجائے مشرقی پاکستان میں عوام کے خلاف آپریشن شروع کر دیا اور اسطرح سے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا موجب بنا۔
اس عظیم سانحے اور فوجی شکست سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ وقتی طور پر اقتدار سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی اور جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کر دیا۔
اس کے بعد پاکستان کو ایک متفقہ آئین نصیب ہوا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ صوبائی خودمختاری کی ضمانت دی گئی تھی۔اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا مگر جلد ہی دوبارہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اس جمہوری عمل کو روک کر دوبارہ سے ملک میں طویل مارشل لاء کا نفاذ کر دیا۔ اس کے لیے ایک سازش دائیں بازو کی قوتوں سے ملکر تیار کی گئی جس میں جماعت اسلامی کا نمایاں کردار تھا۔
اس آمریت نے ملک میں انتشار اور افراتفری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا،کیا اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے لسانی اور نسلی تعصب کو فروغ دینے کے لیے تنظیموں کی بنیاد ڈالی جس سے عوام اور مختلف صوبوں کے درمیان اختلافات نے جہنم لیا جس سے ملی سالمیت خو خطرات لاحق ہوے مگر ملٹری ڈکٹیٹروں کو ان چیزوں کا ادراک نہیں تھا وہ طاقت کے نشے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ایک کو دبانے کے لیے ریاستی اداروں کا استعمال کرتے تھے اس دوران عوامی تحریکوں نے ان کے خلاف ایک اہم کردار ادا کیا اور اس کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے دباؤ ڈالا جانے لگا اور آخرکار ضیاء الحق کی موت کے بعد ملک میں جمہوریت کو دوبارہ سے زندہ ہونے کا موقع ملا۔
اگرچہ یہ نیم جمہوری دور کا آغاز تھا مگر اس میں بھی اہم امور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کلی اختیار تھا۔ اس دوران سازشوں کا جال بچھا رہا اور اس پر شب خون مارنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا اور اس کے لیے جماعت اسلامی کے ذریعے ملین مارچ کے انعقاد اور تحریک عدم اعتماد جیسے اقدامات شامل تھے۔
مگر جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے پیدا کردہ نواز شریف نے اپنی مقبولیت اور عوامی حمایت کے مدنظر ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے تو اس کو بھی اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا ہے اسطرح سے عوامی حمایت کی حامل قوتوں کو توڑنے کا عمل جاری رکھا آخرکار جب نواز شریف نے اپنی سیاسی حمایت کے بل بوتے پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر کاری وار کیا تو دوبارہ سے ملک میں مشرف نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ اور جمہوریت کا خاتمہ کر دیا۔
اس عرصے میں عمران خان کو تیار کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا اور اس کے لیے وسائل کو بروئے کار لانے کا اہتمام کیا گیا۔ ان آمرانہ ادوار میں آہین کی وفاقی حیثیت کو مکمل طور پر مجروح کر دیا گیا تھا اور اس میں ایسی ترامیم کر دی گئی تھیں جس سے ایک یہ وفاقی حیثیت مجروح ئو گئی جس سے صوبوں میں احساس محرومی نے مزید اضافہ کیا۔
عوامی قیادت جو جلاوطن تھی انہوں نے ایک معاہدہ طے کیا جس کو میثاق جمہوریت کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس میں ایک دوسرے کے جمہوری حقوق کے تحفظ اور آئین کی اصل وفاقی حالت میں بحالی کیلئے اقدامات شامل تھے۔
اس کے بعد 2007 میں مجبور ہو کر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی لیڈرشپ کو پاکستان آنے اور سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دینے پر مجبور ہونا پڑا مگر اس دوران بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا اور ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی گئی مگر آصف علی زرداری کی بروقت کارروائی نے ان کے عزائم کو ناکام بنا دیا اور پاکستان ایک بار پھر سے جمہوریت کی جانب گامزن ہو گیا اس موقع پر سیاسی قیادت نے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور متحد ہو کر پاکستان کے آئین میں کی گئی آمرانہ دور کی ترامیم کو ختم کرنے اور آہین کی وفاقی حیثیت کو دوبارہ سے زندہ کیا جس سے صوبوں کو خودمختاری حاصل ہوئی اور ان کے احساس محرومی کو ایک حد تک ختم ہونے کا امکان پیدا ہوا۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ان آئینی اصلاحات میں عدلیہ سے متعلق اصلاحات کو عدلیہ نے نافذ ہونے سے روکنے کیلئے غیر آئینی طور پر اثر انداز ہو کر روکا۔
بہر کیف جو بھی اصلاحات نافذ ہوہی اس سے ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیاسی معاملات میں مداخلت کے راستے بند ہونے لگے اور یہ صورتحال ان استحصالی طبقات کو قابل قبول نہیں تھی اسلئے اس نظام کے خلاف سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے منصوبہ بندی کی گئی۔
ہماری سیاسی تاریخ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ عسکری ادارے مقبول قیادت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے مختلف سیاسی کٹھ پتلی گروپس اور جماعتیں تشکیل دیتے ہیں۔ اس لیے ہر وقت سیاسی مقبول قیادت اسٹیبلشمنٹ کی ان سازشوں کو ناکام بنانے آور حکومت کو غیر مستحکم ہونے سے بچانےمیں مصروف رہتی ہے اور ان کو اپنے دور اقتدار میں اپنے عوامی فلاح و بہبود کے پروگراموں اور ایجنڈوں کو نافذ کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اس سے ملک کی معیشت اور وسائل صرف ایک خاص اشرافیہ کو منتقل رہتے ہیں ہیں اور معاشرے میں کرپٹ کلچر کو مضبوط اور مستحکم کرتا ہے۔
حالیہ تاریخ شاہد ہے کہ کس طرح فوجی اداروں نے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا کے ذریعے عمران خان کو پروموٹ کیا اور اس کے بعد تمام سول اور فوجی اداروں نے 2017 میں غیر قانونی طور پر نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے عدلیہ کا استعمال کیا۔ اور اسےعدلیہ کے سلاخوں سلاخوں کے پیچھے بھج دیا۔ اسکے باوجود وہ نواز شریف کی مقبولیت میں کمی نہ کرسکے آخری حربے کے طور پرانہوں نے انتخابی نتائج چرانے کی پوری کوشش کی اور 2018 کے انتخابی نتائج میں بھرپور دھندلی کی ان تمام کاوشوں کے باوجود اسٹیبلشمنٹ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی اور پنجاب میں نواز شریف کو واضح طور پر برتری حاصل ہوئی۔ اس مرحلے پر انہوں نے مختلف لوگوں کو لالچی اور رشوت کے ذریعے اکٹھا کر کے ایک کھٹ پتلی حکومت تشکیل دی۔
اسٹیبلشمنٹ کے ان تمام تر اقدامات اور حمایت کے باوجود عمران خان کی کٹھ پتلی حکومت پاکستان کی تاریخ کی سب سے
زیادہ ناکام حکومت ثابت ہوئی اس دوران عوامی کے مسائل میں شدید اضافہ ہوا اور اس دوران عمران خان کے ساتھیوں نے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کئے جن کے اثرات عوام اج اور انے والے دنوں میں بھی محسوس کر تے رہے گئیں
عمران خان کے دور کے چند میگا کرپشن کے کیسز مندرجہ ذیل ہیں:
انٹرسٹ کو غیر معمولی طور انتہائی خطرناک حد تک اضافہ۔ اس سے وہ لوگ جنہوں نے عمران خان پر پیسے لگائے تھے ان کو موقع دیا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں اسطرح سے پاکستان میں ہوٹ منی کا آغاز ہوا۔ اس بات کا زکر کرنا ضروری ہے کہ یہ اس وقت کیا گیا جب پوری دنیا میں انٹرسٹ انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گیا تھا اور انہوں نے راتوں رات عربوں ڈالرز کا منافع حاصل کیا اسطرح جب یہ انوسٹمنٹ قومی خزانے سے نکلنے کا عمل شروع ہوا تو اس کا بھیانک نتائج پاکستانی کرنسی پر پڑھا اور پاکستانی روپے تاریخ کی بدترین نچلی سطح پر پہنچ گیا اس سے پاکستان کے معاشی صورتحال انتہائی خطرناک حد تک اثرات مرتب ہوئے۔
چینی اسکینڈل
گندم اسکینڈ ل
پٹرول اسکینڈ ل
سی این جی اسکینڈل
کھار اسکینڈل
ادویات اسکینڈ ل
ملک ریاض کی برطانیہ میں عائد جرمانے کی رقم غیر قانونی طور پر اس کو واپس کر کے اس کے پاکستانی جرمانے کی ادائیگی
ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا تین بار آجرا جس نے کرپشن زدہ دولت کو قانونی تحفظ فراہم کیا
اس کٹھ پتلی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں تمام وسائل مسلم لیگ و دیگر اپوزیشن کے ارکان کو انتقام کا نشانہ بنایا تاکہ وہ اس حکومت کے غیر قانونی طور پر اقتدار میں آنے کے عمل پر خاموشی اختیار کریں لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ اس تمام عرصے میں ڈٹی رہی اور تمام سیاسی ریاستی دہشت گردی کے باوجود اس کی عوامی حمایت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔
ان حالات میں جب کہ مسلم لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو عوام میں مسلسل بے نقاب کیا جس نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اندر ایک ایسی سوچ کے حامل گروپ سامنے آیا جو سیاسی معاملات سے فوج کو الگ رکھنے کا خواہاں تھا اگرچہ اس کے مخالف بہت سے عناصر ان کے درمیان موجود تھے مگر حالات کے جبر نے ان کو مجبور ہوکر اپنے کردار کو کچھ حد تک محدود کرنا پڑا۔
اس سلسلے میں رابطے بحال کرکے معاملات کو حل کرنے پر غور شروع کیا گیا اس سلسلے میں مسلم لیگ نے واضح یقین دہانی کرانے کو کہا جس سے یہ بات ثابت ہو کہ اب سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی کوئی مداخلت نہیں ہو گی اور وہ واضح طور پر غیر جانبدار ہو کر سیاسی جماعتوں کو کام کرنے دیں گی اس واضح یقین دہانی کے بعد اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کا اعلان کر دیا تاکہ اسٹیبلشمنٹ کی یقین دہانی کو آزمایا جائے
ان حالات میں جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھی ہٹا دی گئی توعمران خان کی کٹھ پتلی حکومت فوری طور پر ختم ہو گئی اور ایک متحدہ سیاسی جماعتوں کی حکومت نے اقتدار سنبھالا۔
اس کے بعد یہ سازشی عناصر مسلسل اس بات کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ دوبارہ سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں ملوث کیا جائے اور اپنے استحصالی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا اہتمام کیا جائے جس کے لیے عدلیہ نے اہم کردار ادا کیا اور اس کے ساتھ ساتھ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں موجود عناصر نے منظم ہو کر حکومت کے لیے مسائل پیدا کئے اور گزشتہ برس سے قائم حکومت اپنی تمام تر توجہ اور توانائیاں ان سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے صرف کر رہی ہے اس سلسلے میں ان عناصر کی انتہائی کوشش تھی کہ جنرل عاصم منیر جو کی ایک مکمل طور پر پروفیشنل فوجی ہیں اور جنہوں نے فوج کو سیاست سے الگ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ان کو آرمی چیف بننے سے روکا جائے۔ اس سلسلے میں بیرونی مداخلت کرانے کی بھی کوشش کی گئی اور اس کے لیے نادرہ جیسے ادارے کو استعمال کرتے ہوئے ان کے والد اور خاندان کے متعلق معلومات اور ریکارڈ کو بدلنے اور اس کو سعودی عرب جیسے دوست اسلامی ملک کو فراہم کرنے اور ان سے اس بارے میں مدد حاصل کرنے تک کی کوشش کی گئی جو ناکام ہو گئی اور ملٹری کے نادرہ میں تعینات اہلکاروں اور چیرمین نادرہ کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد ان پاکستان دشمن اندرونی و بیرونی عناصر نے آخری کوشش 9 مئی کو ملک میں بغاوت کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کرنے کا۔ یہ اللہ رحمت اور اس کا کرم ہے کہ اللہ نے ان پاکستان دشمن عناصر کی اس بغاوت کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا اور عوام نے اس میں ملوث عناصر کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کیا اور ان کے خلاف سخت قانونی ِ اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
آج دوبارہ سے ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور وہ تمام استحصالی طبقات متحدہ ہو کر ایک بار پھر سے جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں اور اس میں بندیال کی ہم خیال عدلیہ کا اہم کردار بھی شامل ہے۔
وہ اس وقت کے انتظار میں ہیں کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے عبوری حکومت نگران حکومت کے قیام کے بعد اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے۔
آج جب پاکستان کو 9 مئی کی بغاوت اور اس میں ملوث عناصر سے بچایا جا چکا ہے تو اب پاکستان مخالف اندرونی و بیرونی عناصر اس بغاوت میں ملوث عناصر کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کر رہے ہیں اور نام نہاد انسانی حقوق کے نام پر ان باغیوں کے لیے رعایتیں دینے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔
دنیا بھر میں بغاوت کو کچلنے کے لیے ہمیشہ غیر معمولی اقدامات کئے جاتے ہیں تاکہ ملکی سالمیت اور خود مختاری کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور اگر اس سلسلے میں کچھ زیادتیاں بھی ہو جاتی ہیں تو وہ قابل قبول ہوتی ہیں۔
اسلئے آئندہ آنے والے مہینے جن میں عبوری نگران حکومت کے ماتحت انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس عرصے میں ان سازشی عناصر کو قابو کرنے کے لیے انتہائی متحرک اور ہوشیار، تجربہ کار، اور قابل نگران حکومت کی ضرورت ہے جو کہ نہ صرف ان سازشی عناصر کخلاف قانونی کارروائیوں کو آگے بڑھاتے رہیں اور ساتھ ساتھ جب تک بندیال کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی اس کا اور کی ہم خیال عدلیہ کا مقابلہ کر سکے۔
ان مسائل کے ساتھ ساتھ ایک اور انتہائی اہم مسئلہ جو قابل توجہ ہے وہ ملک میں سیکورٹی کی صورتحال ہے ملک اور خاص طور پر کے پی کے اور بلوچستان میں دہشتگردی اور تخریب کاری بڑھتی جا رہی ہے اس میں قصور ہمارے عسکری اداروں کی پالیسی کا زیادہ ہے اسلئے ان کو ان کے سیاسی حل کی جانب قدم بڑھانا ہوگا اس سلسلے میں ایک تجزیہ جلد ہی پیش کرنے کی کوشش کروں گا
اسلئے حکومتی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو نگران حکومت کے انتخاب میں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا
اس کے ساتھ ساتھ عوام اور جمہوری قوتوں کو بھی مکمل طور چوکنا رہنا ہوگا تاکہ یہ عرصہ خیر و خیریت سے گزر جائے اور نئے انتخابات کے بعد ملک مکمل طور پر جمہوریت پر گامزن ہو سکے۔
۔
.jpeg)
0 Comments