Header Ads Widget

ملک میں قدرتی آفات سے تباہیاں اور بہتری کے لیے تجاویز (ماضی کے جھروکوں سے دو برس قبل لکھا گیا مضمون اگست 26، 2022)


تحریر: ممتاز ہاشمی 

پاکستان میں حالیہ تاریخ کے بدترین قدرتی آفات جو شدید بارشوں اور سیلاب کی صورت میں نازل ہوا ہے اس نے ہمیں اپنی کوتاہیوں اور طرز عمل کا جائزہ لینے اورسوچنے کا ایک اور موقع اللہ تعالٰی نے فراہم کیا ہے
اس سے پہلے بھی مختلف اوقات میں ملک میں قدرتی آفات آتی رہی ہیں اور ہم نے ان سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
ان حالات و واقعات خو سمجھنے کے لیے رہنمائی یقیناً قرآن مجید سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے اسلئے ہمیں قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے۔

"اللہ تعالٰی تمہیں سزا دے کر کیا کرے گا؟ اگر تم شکر گزاری کرتے رہو اور با ایمان رہو ، اللہ تعالٰی بہت قدر کرنے والا اور پورا علم رکھنے والا ہے ۔"
سورہ النِّسَآء 147

"اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے ۔"
سورہ اِبْرٰهِیْم آیت 7

"اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی ، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے ۔ "
سورہ طٰهٰ آیت 124
ان آیات کی روشنی میں اس تاریخی حققت اور عہد کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے جو ہمارے بزرگوں نے پاکستان کے قیام کے لیے اللہ تعالٰی سے کیا تھا۔ 
پاکستان کی تخلیق ایک معجزہ ہے اور اس کی بہترین وضاحت قرآن مجید کی اس آیت سے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے ثابت کیا ہے:

اور اس حالت کو یاد کرو! جب کہ تم زمین میں تھے اس اندھیرے میں تھے کہ تم لوگوں کو نوچ کھسوٹ نہ کرو ، سو اللہ تم کو جگہ دے اور تم اپنے نصرت سے طاقت اور تم کو نفس کی چیزیں عطا کرو۔  
سورہ الانفال آیت 26

یہ کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن اللہ نے اس سرزمین پاکستان پر ’’ اسلام ‘‘ قائم کرنے کے ہمارے بزرگوں کے عزم کو جانچنے کا موقع دیا۔
اللہ نے اس کام کو سرانجام دینے کے لیے قائداعظم کو منتخب کیا جنہوں نے قرآن کے عظیم مفکر علامہ محمد اقبال کے نظریہ اور فلسفہ کو اپنا کر پاکستان کے قیام میں کامیابی حاصل کی۔

اس جدوجہد میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی 
جانوں، عزت اور مال کی قربانی دی تھی جو کہ ہجرت مدینہ سے مماثلت رکھتی ہے 
 
لاکھوں مسلمانوں کی نئی تخلیق شدہ پاکستان میں مکمل ہجرت تھی جس پر دین اسلام کے قیام کا عزم تھا۔
اس ہجرت میں مسلمانوں کو درپیش مشکلات اور مشکلات کے بارے میں ہزاروں کہانیاں
ہماری تاریخ کا لازمی جزو ہے۔

 قائداعظم اور دیگر قیادت پر بہت زیادہ دباؤ تھا۔ اس کے نتیجے میں قائداعظم قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد فوت ہو گئے۔
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کے حصے میں جو بھی سول اور ملٹری بیوروکریسی آتی ہے ، وہ اپنے برطانوی آقاؤں کے وفادار تھے اور ان کا پاکستان یا اسلام کے لیے کوئی کردار یا ہمدردی نہیں 
تھی 
ان کا واحد مقصد کمزور ملکی نظام پر قابو پانا اور سول اور سیاسی حکومت پر اپنا اقتدار قائم کرنا تھا۔
پاکستان کی تاریخ کے بعد کے واقعات حقیقی کہانیاں بیان کرتے ہیں ، اور وہ کس طرح اقتدار کے ڈھانچے میں داخل ہوئے اور آخر کار 1958 میں فوجی اداروں کے ذریعہ مطلق اختیارات حاصل کیے۔

المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرنے 
والے مخلص لوگوں کو نظر انداز کر دیا گیا اور ملکی معاملات ان لوگوں کے پاس جانے لگے جن کا پاکستان کے قیام کے مقاصد سے دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا

ان حالات میں کرپشن ، اقربا پروری اور لالچی روز کا معمول بن گئے ہیں۔
یہ تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے کیونکہ ہم سب اللہ کے ساتھ اس سرزمین پر دین اسلام کے قیام کے وعدوں کو مکمل طور پر بھول گئے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ، اللہ کی نافرمانی بڑھتی ہے اور ہم صرف شرک ، سود ، انسانی استحصال پر مبنی نظام کو مضبوط بنانے میں مصروف ہیں۔
ملک نتیجے کے طور پر اللہ کا عذاب 
میں لسانی، علاقائی، فرقہ واریت کی صورت میں نازل ہوتا ہے۔

اللہ نے 1971 میں ہمیں بڑی شکست دے کر اور اس ملک کو دو حصوں میں توڑ کر متنبہ کیا۔
لیکن ہم نے 1971 کی شکست سے کوئی
سبق حاصل نہیں کیا 
اس کے بعد بھی اللہ تعالٰی نے مختلف اوقات میں ہمیں تنبیہ کے طور پر عذاب کو مختلف قدرتی آفات کی شکل میں بھیجا مگر ہم نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا بلکہ ہر آنے والے دنوں میں اللہ کی نافرمانی بڑھتی جا رہی ہیں۔
ان واقعات و حالات کے پس منظر میں مجودہ قدرتی آفات ہمارے لیے اللہ کا ایک امتحان ہے اور یہ ایک بار پھر ہمیں اللہ سے معافی مانگنے اور توبہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ اجتماعی توبہ ہے اور اللہ سے اپنے عہد کی تجدید پر منحصر ہے۔ اس اجتماعی توبہ کا تقاضا ہے کہ ہر ایک انفرادی طور پر اپنے عمل کو اللہ کے احکامات کے تابع کر دے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان آفات سے زیادہ متاثرین غریب عوام ہوتے ہیں جو کہ ہر قسم کے جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرتے ہیں اور اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقات اس کے اثرات سے محفوظ رہتے ہیں مگر اللہ کے ہاں ان غریب اور وسائل سے محروم لوگوں کے لئے بڑا اجر محفوظ ہو جاتا ہے اور مراعات یافتہ طبقات کے طرز عمل کی بناء پر ان کے لیے آخرت میں عذاب کی نوعیت میں اضافہ کا باعث بن جاتا ہے۔

آج تاریخ کے سب سے بڑے بحران جو کہ قدرتی آفات کی شکل میں ہمارے اوپر نازل ہیں جس نے تقریباً 30 ملین افراد کو متاثر کیا۔ ہزاروں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور اکثریت کےپاس کوئی رہنے کے لیے چھت نہیں ہے نم اور وہ اپنا جانور جو کہ ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھا اس سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔

یہ قوم اور حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور صرف اجتماعی اقدامات ہی بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔ اسلئے اللہ سے اجتماعی توبہ کرنے کے بعد ہمیں آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا 
اس بحران سے نمٹنے کے لیے کچھ تجاویز ہیں؛
1. این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو امدادی کارروائیوں اور متاثرہ لاکھوں افراد کی عارضی منتقلی کے لیے تفویض کیا جائے۔
2. کئی این جی اوز کو ریلیف اور بحالی کے کاموں کے لیے مختلف علاقے/علاقے تفویض کیے جائیں۔ اس سے امدادی کارروائیوں کو اوورلیپ ہونے سے بچا جا سکتا ہے اور محدود وسائل کی بہتر طور پر استعمال کرنے میں مدد ملے گی۔
3. یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ زیادہ تر لوگ سرکاری اداروں پر بھروسہ نہیں کرتے اور انہیں عطیات دینے سے گریز کرتے ہیں لیکن اس مقصد کے لیے این جی اوز کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سرکاری اداروں کی خراب ساکھ اور ان کے کام میں بدعنوانی ہے۔ بین الاقوامی ڈونرز کی جانب سے کورونا ریلیف فنڈ میں حالیہ غبن اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
4. اس لیے، حکومت کو ان این جی اوز کے ذریعے بحالی کے کاموں کو پورا کرنے کے لیے ایک معیار تیار کرنا چاہیے اور اس مقصد کے لیے انھیں فنڈ فراہم کرنا چاہیے۔
5. مخیر حضرات کو بھی مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے وسائل اور صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس امدادی کارروائیوں حصہ لیں۔ لیکن کو انفرادی سطح پر انجام دینے کی بجائے ان بڑی رفاہی تنظیموں کے ذریعے کریں جن کے پاس امدادی کارروائیاں کرنے کے لیے انفراسٹرکچر اور صلاحیت موجود ہے 
۔ تمام افراد اپنے روزمرہ کے معمولات میں ایمان داری خو اپنائیں اور تمام غیر قانونی کاموں سے روکے۔
 ۔ افراد اپنے سماجی تقریبات میں سادگی کے اپنائیں اور اپنے وسائل متاثرین کی امداد کیلئے وقف کر دیں۔
۔ میڈیا میں تمام تفریح اور کھیل کود کے پروگراموں پر فوری پابندی لگا دی جائے۔
۔ میڈیا کو اللہ کے احکامات کی پابندی کی اور دین اسلام کی نفاذ کے لئے عملی اقدامات کی تشریح کے لیے استعمال کیا جائے۔

اب اس دنیا اور مستقل زندگی میں بقاء اور کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ اللہ سے پورے دل سے معافی مانگیں۔
تخلیق کے اپنے اصل مقصد کی طرف واپس لوٹیں۔
اللہ ہمیں دین اسلام کے نفاذ کیلئے عملی جدوجہد کرنے کی ہمت، جرآت اور طاقت عطا فرمائے تاکہ قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل ہوسکے آمین ۔


Post a Comment

0 Comments