Header Ads Widget

پاکستان کے تابناک مستقبل کی امید اور خدشات (ماضی کے جھروکوں سے ایک برس قبل لکھا گیا مضمون ستمبر 7، 2023 )



ستمبر 7، 2023
تحریر: ممتاز ہاشمی 


آجکل پاکستان میں بھاری بیرونی سرمایہ کاری کا بہت تذکرہ ہے جو کہ پاکستان کے تابناک مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے مگر اس تمام صورتحال کوشش کے حقیقی تناظر میں سمجھنے کے لیے ماضی قریب کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔
اس بات میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں مشرف ڈکٹیٹر کے طویک دور میں ملک کی معاشی بحالی کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی جبکہ اس وقت بہت زیادہ بیرونی امداد کے باوجود ملک طویل دورانیہ کی لوڈشیڈنگ اور دوسرے مسائل کا شکار ہوا۔ ملک شدید دہشت گردی کا شکار تھا جس کی وجوہات میں ڈکٹیٹر مشرف کا افغانستان میں امریکی فوج کی امداد اور رسد کے راستے فراہم کرنا تھا 
اس ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے بعد ملک میں آئین کی بحالی کے ساتھ ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے ایجنڈے کو بھی آگے بڑھانے کا عمل شروع کیا گیا تھا۔
 اقتصادی بحالی کا یہ عمل بہت مشکل اور پیچیدہ کام تھا مگر آہستہ آہستہ اس میں کامیابیاں حاصل ہوئی اور نواز شریف کے دور اقتدار میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل ہوئی اور اس کے ساتھ ھی سی پیک جیسے عظیم الشان منصوبہ پر کام شروع کیا گیا تھا۔ اگرچہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اس پورے عرصے میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کی اور عمران خان کو لانچ کیا گیا تاکہ ایک کٹھ پتلی حکومت کے ذریعہ معاملات دوبارہ سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے پاس واپس آ جائیں۔ 126 دن کے عمران خان کے دھرنے جو کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی سے کیا گیا اس نے چائنا کے صدر کے دورہ کو منسوخ کرنا پڑا اور اسطرح سے سی پیک کے عظیم منصوبہ میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا جس کا خمیازہ آجتک پاکستان بھگت رہا ہے۔ اس کے بعد ملک کی اقتصادی ترقی کے لئے ایک جامع منصوبہ بندی کی گئی اور پاکستان کے دوست مسلم ممالک اور چائنا کے ساتھ بہت بڑے منصوبوں پر بات چیت کے عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کے لیے عملی لائحہ عمل ترتیب دینے کی کوشش شروع کر دی گئی اسی دوران ملٹری اسٹیبلشمنٹ مسلسل جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کرتی رہی اور عمران خان و دیگر گروپوں کو اپنے غیر آئینی مقاصد کیلئے استعمال کرتی رہی۔ اس حکومت نے ان تمام سازشوں کے باوجود آی ایم ایف سے مکمل چھٹکارا حاصل کر لیا اور عوام کی معاشی حالت قدرے بہتر ہونے لگی۔ گوادا کے عظیم منصوبہ کو عملی شکل دی جائے لگی۔
اس سلسلے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر مسلم ممالک سے اہم ترین منصوبوں پر کامیابی سے مذاکرات مکمل ہوے اور ایک بہت بڑی تاریخی سرمایہ کاری پاکستان میں آنے کی تفصیلات طے کی گئی جن میں کارپوریٹ فارمنگ، ڈیری فارمنگ, معدنیات، آی ٹی، آئل ریفائنری اور دیگر شعبوں میں پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری شامل تھی۔ اس کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے پاکستان میں زرعی اراضی جو اسوقت ناقابل استعمال ہے اس پر نئے سائنسی انداز میں فارمنگ کر کے بمپر فصلوں کی تیاری کرنا تھا جو نہ ان ممالک کی خوراک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کام تھا بلکہ اس کے ذریعے ملک میں ایک زرعی انقلاب رونما ہو جاتا اور زراعت سے منسلک صنعتوں کو فروغ حاصل ہوتا جس سے ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کو قابو کرنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل ہوتی۔ اس بیرونی سرمایہ کاری سے پاکستان روپے کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوتا اور بیرونی قرضوں میں کمی کی طرف گامزن ہو جاتے۔اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک مثالی کارپوریٹ فارمنگ کا ماڈل بھی تیار کیا گیا تھا۔
مگر یہ تمام عمل رک گیا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ان منصوبوں کو آگے نہ بڑھایا جا سکا۔ اگرچہ اس میں بردار اسلامی ممالک کے لیے بھی فوائد شامل ہیں اور ان کی آنکھوں منصوبوں میں دلچسپی بھی ہے مگر ملکی حالات اور خاص کر عمران خان کے دور اقتدار میں اس سارے عمل کو شدید نقصان پہنچا۔ اس کو سمجھنے کے لیے صرف ایک واقعہ ہی کافی ہے جو کہ ہر ایک کی حلقہ میں مشہور ہے جب عمران خان امریکی صدر سے ملاقات کے لئے جا رہا تھا تو محمد بن قاسم نے اس کو اپنے جہازوں میں سے ایک پیش کیا جو اس کو لیکر امریکی روانہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ سعودی شاہی خاندان کا اپنا جہازوں تھا اسلئے اس میں ہر قسم کی سیکیورٹی آلات دیگر سہولیات فراہم کی گئی تھی اور عمران خان اور اس کے جاہل، نااہل ساتھیوں نے دوران سفر محمد بن قاسم کے متعلق انتہائی گندی گفتگو کی اور پنجابی گالیاں تک استعمال کی گئی۔ جس کی رپورٹ جہاز میں لگے گئے سیکورٹی آلات سے ان کو مل گئی اور اس گفتگو کا ترجمہ کرانے کے لئے لاہور میں خصوصی طور پر اہتمام کیا گیا۔ جس وقت یہ جہاز عمران خان کو امریکہ سے لیکر واپس جا رہا تھا اور آدھے گھنٹے کا سفر بھی کر چکا تھا عین اسوقت اس گفتگو کا مکمل ترجمہ سعودی شاہی خاندان کو موصول ہو گیا جس پر جہاز کو واپس لینڈنگ کرنے اور عمران خان کو چھوڑ کر واپس آئے کا حکم ملا اسطرح سے یہ جہاز عمران خان کو دوبارہ ائرپورٹ پر اتار کر سعودی عرب روانہ ہو گیا جس کے بعد عمران خان ایک پرائیویٹ پرواز پر سعودی عرب گیا اور کئی دن تک کوشش کی کی سعودی شاہی خاندان سے ملاقات کرنے کی مگر ان کے انکار کے بعد اس کو واپس پاکستان جانا پڑا۔ اس کے بعد پاکستان کے نہ صرف سعودی عرب بلکہ دیگر ممالک سے تعلقات انتہائی خراب ہو گئے دوسری طرف سے سی پیک کو امریکہ نواز وزراء نے مکمل طور پر بند کر دیا اور اس کے تمام منصوبوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ اسی طرح اس حکومت نے گوادر بندرگاہ کی صفائی کے کام میں کوتاہی کی جس سے وہاں پر سمندر کی گہرائی میں کمی واقع ہوئی اور بڑے جہازوں کی آمد ناممکن ہو گئی جس پر شہباز شریف کی حکومت نے کام شروع کیا اور اب اگلے چند ماہ میں یہ بندرگاہ دوبارہ سے بڑے جہازوں کی آمدورفت کے لیے استعمال میں آ سکے گی۔
ان حالات میں جب پاکستان معاشی بحران اور تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اندر یہ خیال تقویت پکڑ گیا کہ اب ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دستبردار ہونے اور عمران خان سے ہاتھ اٹھانے کا اعلان کیا جائے۔ جس کے بعد اس کی کٹھ پتلی حکومت فوراً ختم ہو گئی۔
مگر اس کے بعد بھی ریاستی اداروں میں موجود عناصر، ان کے سہولت کاروں پاکستان دشمن اور بھارت نواز اندرونی و بیرونی عناصر اس نظام کو دوبارہ سے بحال کرنے کی کوشش میں مصروف رہے اور جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے میں ہر قسم کی رکاوٹیں کھڑی کئی مگر ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 
جس کے بعد ایک آخری کوشش 9 مئی کو آرمی چیف کی ملک میں عدم موجودگی میں بغاوت کی کوشش کی گئی جس کو اللہ نے اپنی رحمت سے ناکام بنا دیا۔
اس کے بعد حکومت استحکام کی جانب گامزن ہوئی گزشتہ حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے کافی تک و دو کی اور آخرکار اس میں کامیابی حاصل کی اسکے علاوہ اس کی زرعی شعبے میں کی گئی اصلاحات اور کسانوں کو دئے گئے ریلیف پیکج کے خاطرخواہ نتائج سامنے آ رہے ہیں اور اس سال بمپر فصلوں کی امید ہے جس سے ملکی معیشت میں مثبت پیش رفت ہو گی۔
گذشتہ حکومت نے دوبارہ سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے سرگرم عمل رہی اور تمام بردار اسلامی ممالک اور چائنا سے ان منصوبوں پر دوبارہ سے عملدرآمد کرنے کے عمل کا آگے بڑھانے کا لائحہ عمل ترتیب دیا۔ اور اس کے لیے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بردار اسلامی ممالک اور چائنا نے ٹھوس ضمانت طلب کئی۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اس سلسلے میں نواز شریف کے عرب ممالک کے دوروں کے دوران مشاورت کا عمل مکمل کیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ان منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی ذمہ داری ملٹری اسٹیبلشمنٹ اٹھائے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ دوبارہ سیاسی معاملات سے علیحدگی اختیار کر کے جمہوریت کو مضبوط ہونے کا موقع فراہم کرے گئی جس کی جنرل عاصم منیر نے ملٹری کمانڈرز سے مشاورت کے بعد ان ممالک کے حالیہ دوروں کے دوران ان کو ٹھوس ضمانت اور معاملات کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنانے کی مکمل یقین دہانی کرائی ہے اور اب اس یقین دہانی کے بعد ان منصوبوں کو عملی شکل دینے کا موقع میسر آ رہا ہے ۔ اور ان منصوبوں کی تکمیل، حفاظت، قانونی تحفظ کی فراہمی کے لئے قانون سازی کی جائے چکی ہے اور سرمایہ کاری کی سہولت کاری کی کمیٹی میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اہم ذمہ داریاں تقویض کی گئی ہیں۔
یہ بات واضح رہے کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اسی یقین دہانی کی بناء پر آج آرمی چیف میں اہم کرداروں کے مختلف طبقات سے خطاب میں ان منصوبوں پر بات کر رہے ہیں اور ان پر مکمل عملدرآمد کرنے کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے۔ ان خطابات کا مقصد ان طاقتوں طبقات کو اپنے رویے درست کرنے اور کاروباری سہولیات کی فراہمی کی یقین دہانی ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ ان کاروباری طبقات کی اکثریت استحصالی ہے اور پاکستان کے اکثر وسائل پر اس انتہائی چھوٹی سی اقلیت نے ناجائز طور پر قبضہ کیا ہوا ہے جس میں ٹیکس چوری، بجلی چوری، گیس چوری، منی لانڈرنگ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
اگرچہ آرمی چیف کے یہ خطابات ان کی پیشہ وارانہ امور سے جدا ہے اسلئے اس کو میڈیا پر نہیں دکھایا گیا اور نہ ہی اسکی کوئی پریشانی بریفنگ کی گئی اور اس کا ناجائز فائدہ ان طبقات میں موجود چند عناصر آٹھا رہے ہیں اور اپنی پسند کے مطابق ان خطابات کی میڈیا پر تشریح کر رہے ہیں اور اس کو ملکی سیاسی معاملات سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا مقصد شکوک و شہبات پیدا کرنا ہے اسلئے ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آرمی چیف کے خطابات کی مکمل پریس بریفنگ آی ایس پی آر کے ذریعے ہونی چاہیے تاکہ ان مفاد پرست عناصر کو لگام دینے جس سکے۔
اب اس بات کا قوی امکان ہے کہ جلد ہی ان منصوبوں پر کام کا آغاز ہو جائے گا اور ملک میں بھاری سرمایہ کاری کے بعد ملک کی معاشی بحالی میں مدد ملے گی اور اسطرح سے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا اہتمام ہو سکے گا ۔
اس کے باوجود ابھی بھی اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان دشمن اور بھارت نواز اندرونی و بیرونی عناصر اپنے ریاستی اداروں میں موجود سہولت کاروں کی مدد سے ایک آخری مزاحمت کریں گے جس کا اندازہ گزشتہ چند دنوں میں ان مافیاز کی طرف سے کئے گئے مندرجہ ذیل اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے 
ڈالر کی قلت، اس کی اسمگلنگ اور اس روپے کی قیمت میں کمی ہونا اور اس بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں اضافہ،
 چینی کی ذخیرہ اندوزی اور اس کی قیمتوں کا بڑھنا، لاہور ہائی کورٹ کا حکومت کو چینی کی قیمت مقرر کرنے سے روکنا
سوشل میڈیا پر جھوٹ پر مبنی پاکستان دشمن پروپیگنڈہ اور دیگر شامل ہیں۔
ان مافیاز کو لگام دینے اور ان کے خلاف سخت ترین اقدامات کرنے کا ذمہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دیا گیا ہے اور جلد ہی ان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ئو جائے گا اور اس کے نتیجے میں ملک کے معاشی حالات میں بہتری آنے لگے گی  
اسلئے عوام کو آئندہ آنے دنوں میں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
اس بات کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ ملک ایک بغاوت کی سازش سے گزر کر آیا ہے اور ابھی تک اس کے مختلف اثرات باقی ہیں اسلئے ادارے سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہے اور ہمارے کچھ نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار ان اقدامات پر تنقید اور شور مچانے میں مصروف ہیں ان عناصر کو اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ اگر اس بغاوت کو کچلنے کے لیے ریاستی وسائل کو سختی سے استعمال کیا جاتا تو کافی خون خرابہ بھی ہوسکتا تھا اور یہ بغاوت کے تمام اثرات بھی مکمل طور پر ختم ہو سکتے تھے مگر انہوں نے انتہائی صبر اور برداشت سے کام کیا اور ان سازشوں کو اللہ کی رحمت سے ناکام بنا دیا۔ یہ غیر معمولی صورتحال ہے اور ایسی صورتحال میں غیر معمولی اقدامات بھی کئے جاتے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ تمام اقدامات مکمل طور پر قانون کے مطابق ہوں مگر ملکی مفاد میں یہ ناگزیر ہوتے ہیں اسلئے ان اقدامات کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
امید ہے کہ آئندہ دنوں میں پاکستان دشمن اور بھارت نواز طبقات کو عوام کی حمایت اور اللہ کی رحمت سے مکمل طور پر شکست ہو گئی اور ملک میں ترقی، جمہوریت اور امن کی فضا قائم ہو جائے گی۔




Post a Comment

0 Comments