Header Ads Widget

ملک میں انتشار اور بحران پیدا کرنے کی مذموم کوششیں

                                

 ستمبر 24، 2024

تحریر: ممتاز ہاشمی


گزشتہ دو برسوں سے زائد عرصہ سے مختلف اندرونی و بیرونی طاقتیں پاکستان میں انتشار اور بحران پیدا کرنے کے مذموم مقاصد کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کو پاکستان کے تمام استحصالی طبقات کی حمایت حاصل ہیں۔

دراصل اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دو برسوں سے پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو سیاست سے دستبردار کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے سول اداروں کو مضبوط کرنے کے عمل میں شریک ہیں۔ یہ بات ان ملٹری اسٹیبلشمنٹ، سول بیوروکریسی، عدلیہ اور دیگر استحصالی طبقات کو پسند نہیں آئی کیونکہ ان سب کے مفادات ماضی کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں سے وابستہ تھے اور یہ تمام قوتیں اور ان کی پشت پناہی پر موجود سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ناقابل قبول تھا اسلئے ان تمام قوتوں نے پاکستان دشمن بیرونی طاقتوں سے ملکر پاکستان کو انتشار اور بحران سے دوچار کرنے کے لیے سرگرم ہیں اور اس کے لیے بھارتی، اسرائیلی و دیگر پاکستان دشمن قوتوں نے بھاری فنڈنگ اور دیگر سہولیات فراہم کی ہیں۔

پاکستان کی موجودہ ملٹری قیادت نے بڑے صبرواستقامت سے ان سازشوں سے نمٹنے کا اہتمام کیا اور 9 مئی کی بغاوت کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا اور اس میں ملوث اسٹیبلشمنٹ کے افراد کے خلاف کارروائیوں کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے مگر ابھی تک اس میں ملوث دیگر طبقات و سیاسی قوتوں کے خلاف کاروائی کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کو ہماری کرپٹ عدلیہ کی پشت پناہی حاصل ہیں۔

اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اپنی کرپٹ عدلیہ کے ماضی پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

قیام پاکستان کے دن سے ہی سول اور ملٹری دونوں ادارے عدلیہ کی فعال حمایت کے ساتھ جمہوریت اور اداروں کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ نے محض اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی بن کر اور عدالتی دفتر کو غیر قانونی طور پر استعمال کرکے آمروں کو غیر آئینی تحفظ فراہم کیا۔ یہ ظاہر ہے کہ جب آئین ختم ہو جائے تو سپریم کورٹ کا وجود غیر موثر ہو جاتا ہے۔ لہذا ان حالات میں ان کے پاس آئین کو ختم کرنے والے آمروں کو قانونی تحفظ دینے کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔ عدلیہ کی بقاء اور وجود کا تحفظ اسی صورت میں ہو سکتی تھا جب وہ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے ان ملٹری ڈکٹیٹروں کے اقتدار پر قابض ہونے

کو غیر قانونی قرار دیں اور آئین اور آئینی حکومتوں کی بحالی کا حکم دیں۔

مگر تاریخ شاہد ہے کہ عدلیہ نے ہمیشہ اپنے آئینی کردار سے روگردانی کرتے ہوئے آئین شکنی کی حوصلہ افزائی کی اور اس جرم میں برابر کی شریک ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔

ہماری سیاسی تاریخ کے کچھ حالیہ واقعات اس حقیقت کا ثبوت ہیں ۔ ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے 90 دن میں الیکشن کروانے کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی اور طویل عرصے بعد آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر سیاسی بنیادوں پر الیکشن کروائے۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ عسکری ادارے مقبول سیاسی قیادت سے خوفزدہ تھے۔ ان انتخابات نے فرقوں، برادریوں، زبانوں اور جغرافیائی حدود کی بنیاد پر لوگوں میں تقسیم پیدا کرنے کا ایک بھرپور کردار ادا کیا۔ اور لوگوں کے درمیان نسلی، اور صوبائیت کو فروغ دیا۔ مگر عدلیہ نے نہ صرف خاموشی اختیار کی بلکہ ملٹری ڈکٹیٹروں خو آئین میں ترمیم کرنے تک کا اختیار تک دے دیا جس کا اختیار ان کے پاس خود بھی کوئی اختیار نہیں تھا اور یہ اختیار صرف اور صرف عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔

اس آمریت کے دوران آئین کو اس کی اصل روح سے مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا۔ آرٹیکل 58-2B ضیاء الحق نے متعارف کرایا، جس نے آئین کو وفاقی پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا۔ یہ صدر کو منتخب اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا مکمل اختیار دیتا ہے۔ یہاں تک کہ ضیاء الحق نے اپنے ہاتھ سے چنی ہوئی غیر سیاسی اسمبلی کو تک کو برداشت نہیں کیا اور اپنے ہی وزیر اعظم جونیجو کوصدارتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوےاس کی حکومت کو تحلیل کر دیا۔

 ضیاء کی موت کے بعد اگرچہ سیاسی جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے لیکن فوجی اداروں نے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے قائم ہونے والی حکومتوں پر اپنا قبضہ جمائے رکھا۔ انہوں نے اس صدارتی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے 88 سے 96 تک کئی بار اسمبلیاں تحلیل کیں اور بالآخر 97 میں تمام سیاسی جماعتوں نے آئین میں ترمیم کی اور آئین سے آرٹیکل 58-بی2 بی کو ہٹا دیا۔ اب فوجی اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں پر اپنا ایجنڈا ڈکٹیٹ کرنے کے قابل نہیں تھی اس لیے انہوں نے 1999 ڈکٹیٹر مشرف کے ذریعے دوبارہ غیر قانونی طور پر ملک پر قبضہ کرلیا۔ اس مرحلے پر سپریم کورٹ نے ایک بار پھر غیر قانونی آمریت کو قانونی تحفظ دے کر اور آمر کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دے کر ملٹری ڈکٹیر کو تحفظ فراہم کیا۔ یہ سپریم کورٹ کی طرف سے سب سے بڑی غیر قانونیت ہے جس کے پاس خود آئین میں ترمیم کا کوئی اختیار نہیں ہے وہ ڈکٹیٹر کو اس میں ترمیم کی اجازت کس طرح دے سکتی ہے۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء سے پہلے سیاست میں کرپشن کا دور بہت کم تھا۔ لیکن یہ آمریت ہے جس نے سیاست میں کرپشن کو فروغ دیا اور زمینوں کی الاٹمنٹ کی سیاست کو سیاسی حمایت حاصل کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ مختلف مقامی حکام اور سول ادارے آمریت کے مقاصد کے حصول میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے سیاسی شخصیات کو زمینیں/پلاٹ اور ٹھیکے الاٹ کیے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اور اپنے خاندانوں کے لیے فوائد حاصل کیے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ کے ڈی اے، ڈی جی، نظامی اور ملک کے دیگر علاقوں میں سول بیوروکریسی کو آمر ضیاء نے اپنی وفادار سیاسی شخصیات اور دیگر حمایت کنندگان کو زمینوں کی الاٹمنٹ اور دیگر مراعات کی فراہمی کے لیے من مانے طور پر استعمال کیا۔ اس طرح بدعنوانی آمریتوں میں ہماری سیاست کا اہم ترین حصہ بن گئی۔ سیاسی حکومت کے دور میں یہ کرپشن پروان چڑھی کیونکہ یہ حکومتیں اس پر قابو نہیں پا سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حکومتیں صرف اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں پر نظریں جمائے رکھنے پر مرکوز تھیں اور اس طرح وہ اپنے اصلاحات اور فلاحی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی۔

ایک طویل عرصے کے بعد ان سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ سے نمٹنے کے لیے اپنے اتحاد کی اہمیت کا احساس ہوا اور آخر کار انہوں نے 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کر دیے۔ اس کے تحت اہم سیاسی جماعتوں نے کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت اور انہیں اپنے دائرے میں رکھنے کی کوشش کی۔ اس دستاویز میں فیڈرل آئینی عدالت کے قیام اور ججز کے تقرر کے طریقہ کار میں شفاعت لانے اور اس میں پارلیمنٹ کے کردار کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے۔

آخرکار سیاسی جماعتوں کی جدوجہد کے نتیجے میں 2008 میں دوبارہ سے ملک میں جمہوری حکومت قائم ہوئی اور اس نے آئین میں ملٹری ڈکٹیٹروں کی عدلیہ کی مدد سے کی گئی ترامیم کو ختم کرنے اور آئین کو اس کی اصل روح میں بحال کرنے کا عزم کیا اور اس میں تمام جماعتوں نے حصہ لیا اور ایک طویل اور صبر آزما کوششوں سے آئین میں آٹھویں ترمیم متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ اس میں عدلیہ میں ججز کے تقرر کے عمل میں پارلیمنٹ کا کردار بھی شامل کیا گیا تھا۔ مگر اس وقت کی عدلیہ نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر کام کرتے یوے پارلیمنٹ کو دھمکی دیکر اس میں سے عدلیہ کے متعلق ترامیم کو نکالنے کا کام کیا اور مجبوراً پارلیمنٹ کو انیسویں ترمیم کرنا پڑی۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ اعلی عدلیہ میں ججز کے اختیارات مکمل طور پر ججز کے پاس ہیں اور اس میں مختلف وکلاء کے چیمبز کلیدی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کے منتخب کردہ ججز نہ صرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کام سرانجام دیتے ہیں بلکہ وہ مکمل طور پر کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو انصاف کی فراہمی ناپید ہے۔

آئینی طور پر ہائی کورٹ اپنے دائرہ اختیار میں تمام ماتحت عدلیہ کی کارکردگی کا ذمہ دار ہیں اور سپریم کورٹ ہائی کورٹس کی کارکردگی اور انصاف کی فراہمی کا ذمہ دار ہے۔

مگر اس عدلیہ کی کرپشن کی وجہ سے نہ صرف پاکستانی عدلیہ دنیا بھر میں سب سے نچلے درجے پر ہے بلکہ اس وقت ملک کی عدالتوں میں عوام اور حکومت کے لاکھوں کیسز زیر التوا ہیں اور سالوں سے ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔

اس کا سب سے بڑا اور اہم پہلو بلین مالیت کے ٹیکس کیسز زہر التوا ہیں جس کی وجہ سے حکومت اپنے جائز وسائل سے محروم ہے اور اس کے اثرات عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکامی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ مگر کرپٹ عدلیہ ان تمام ٹیکس چوروں کر تحفظ فراہم کرتے ہوئے ان کیسز کو برسوں تک التوا میں ڈال دیتی ہے۔

ان حالات میں جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو سیاست سے دستبردار کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور وہ سول اداروں کی بحالی کیلئے اہم کردار ادا کر رہی ہے تو عدلیہ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ اور اس کے لیے آئین سے روگردانی کرتے ہوئے مختلف فیصلے دئے جا رہیں ہیں۔

اس وقت ملک کی جمہوری قوتوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اب اس کرپٹ عدلیہ کے دباؤ میں نہیں آئے گی اور آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے عدالتی اصلاحات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عمل مکمل کریں گی۔

یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے تاکہ اداروں کو ان کے دائرہ اختیار میں رکھا جائے اور پارلیمنٹ کو بااختیار بنایا جا سکے تاکہ عوام کو ریلیف پہنچانے کے ایجنڈے پر کام کیا جا سکے۔

یقیناً اس کام میں بہت سی اندرونی و بیرونی طاقتیں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لا رہی ہیں مگر اس پر پختہ یقین ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی ان تمام پاکستان دشمن عناصر کے ایجنڈے کو ناکام بسے دوچار کرے گا اور پاکستان خو اس کی تخلیق کے اصل مقصد کی طرف لوٹانے کا بندوبست کرے گا۔ ان شاءاللہ۔

اس وقت تمام تمام پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ ان پاکسان دشمن سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔




Post a Comment

0 Comments