Header Ads Widget

عمران خان کا امریکی سازش کا جھوٹا بیانہ بےنقاب


ماضی کے

جھروکوں سے 

دو برس قبل لکھا گیا مضمون 

ستمبر 28، 2022

تحریر: ممتاز ہاشمی 

 

آجکل مختلف آڈیوز لیک ہونے کا سلسلہ جاری ہے اور یہ تمام آڈیوز پرائم منسٹر ہاوس میں مختلف اوقات میں ہونے والی سرکاری اور غیر سرکاری گفتگو پر مشتمل ہیں ان تعلق مجودہ اور پچھلی حکومت کے ادوار سے ہے یہ ایک بہت بڑی سیکورٹی کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے جو ملکی سلامتی پر سوالیہ نشان ہے اس کی تمام زاویوں سے مکمل تحقیقات کرانے اور ذمہ داران کے خلاف انتہائی عبرت ناک سزائیں دینے کی ضرورت ہے جس کے بغیر ملک کے وقار کی بحالی ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ آڈیوز بظاہر بغیر کسی ایڈیٹنگ کے لیک کی گئی ہیں اسلئے اس میں شامل کسی بھی فریق نے اس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا ہے جب یہ تحقیقات مکمل ہو گئی تو اس بارے میں مزید معلومات حاصل ہوں گی اور اس وقت ان پر تبصرہ کرنا مناسب ہوگا 
 آج ایک آڈیو لیک جو کہ عمران خان اور اس کے پرنسپل سیکرٹری کے درمیان اس کی وزارت عظمی کے دوران ہوئی منظر عام پر آئی ہے اس کا جائزہ لینے کی بہت ضرورت ہے 
اس آڈیو نے عمران خان کے اپنے اقتدار کی خاطر پاکستان کے دنیا بھر سے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش اور ملک کو تباہی و بربادی سے دوچار کرنے کا مکمل ثبوت فراہم کرتی ہے

اس بات میں اس وقت بھی کوئی ابہام نہیں تھا کہ یہ سب کچھ عمران خان صرف اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کر رہا تھااور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس کا واحد مقصد پاکستان اور اس کے عوام کو ایک خطرناک بحران میں مبتلا کرنا تھا 
لیٹر سکینڈل عمران خان کی طرف سے سیاسی فائدے کے لیے صرف ایک افسانہ تھا اور ایسا کوئی مواد میسر نہیں تھا جس کی بناء پر یہ مفروضہ تسلیم کیا جا سکتا تھا کہ امریکہ کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کی کوئی ضرورت تھی؟ یا پاکستانی حکومت کی پالیسیاں خطے میں امریکی مفادات سے متصادم تھیں؟
یقینی طور پر ایسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں تھا ۔ سفیر کی کیبل ایک معمول کی بات تھی اور اسے پختگی اور سفارتی طریقہ کار سے نمٹانے کی ضرورت تھی ۔ مزید برآں، سابقہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور امریکہ میں سابق سفیر ملیحہ لودھی نے اپنے انٹرویوز میں مختلف مواقع پر امریکہ اور پاکستان کے درمیان سفارتی مسائل کے تمام واقعات کو بیان کیا تھا ۔ واضح رہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں سب سے زیادہ تناؤ اس وقت پیدا ہوا جب پاکستان نے سلالہ میں پاکستانی چوکی پر امریکی حملے کے جواب میں نیٹو سپلائی روک دی تھی ۔ اس کارروائی سے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی سلامتی اور سرگرمیوں کو براہ راست خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ اس لیے امریکا نے پاکستان کے اس اقدام پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اس دور میں استعمال ہونے والی زبان اس سے کہیں زیادہ شدید تھی جو نام نہاد خط میں بیان کی گئی تھی۔ لیکن پھر بھی پاکستان نے اسے سفارتی طور پر حل کیا اور اس کے نتیجے کے طور پر امریکہ نے حملے پر معافی مانگی۔ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر نے بھی انکشاف کیا کہ جب سفارت کاروں آپس میں بات چیت کرتے ہیں اور جب وہ کسی قسم کی سخت زبان استعمال کرتے ہیں تو اسی وقت ان کو اسی لہجے میں جواب دیا جاتا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ہمارے سفیر نے اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے جواب نہیں دیا جو کہ ایک سفارتکار کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کیونکہ پاکستانی سفیر نے اس وقت جواب نہیں دیا۔ جواب دینے کے بعد، اسے واقعات کو بیان کرنے والی کیبل بھیجنی چاہیے تھی اور پھر دفتر خارجہ فیصلہ کرسکتا تھا کہ مزید کارروائی کی ضرورت ہے یا نہیں۔
آج جب اس بارے میں مکمل سچائی سامنے اچکی ہیں اور یہ ثابت ہو گیا کہ عمران خان نے ایک سازش کے تحت اس بیانہ کو تشکیل دیا تاکہ اقتدار سے علیحدگی کے بعد عوام کو بیوقوف بناتےہوئے ان کے جذبات کو بھڑکایا جائے اور ملکہ میں انتشار اور افراتفری کی فضا پیدا کی جائے۔ 
اس سے ایک اور مقصد یہ بھی تھا کو اس کے دور حکومت میں ہونے والے میگا کرپشن کیسوں جن میں زیادہ تر اس کے گھر، رشتہ داروں اور دوست شامل ہیں اس سے بچنے کی کوشش تھیں۔
اپنے اس خطرناک ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے اس نے مسلح افواج کو بھی نہیں بخشا بلکہ اس نام نہاد امریکہ سازش کے سہولت کاروں میں مسلح افواج کا نام سرفہرست رکھا۔
اس سے اس کا ایک اہم مقصد مسلح افواج میں بغاوت کی فضا قائم کرنے اور اس ماحول میں اپنے لیے رعایتیں حاصل کرنا تھا۔
آج جب عمران خان کا مکروہ چہرہ اللہ نے مکمل طور پر بےنقاب کر دیا ہے تو آج وہ تمام لوگوں جو عمران خان کی ہر بات پر بغیر سوچے سمجھے یقین کرتے تھے ان کو اپنے عمل پر نظرثانی کرتے ہوئے توبہ کرنی چاہیے اور پاکستان کے عوام کے ساتھ کھڑے ہو کو جھوٹے، مکار، کرپٹ، انا پرست اور ملک دشمن عمران خان کے مذموم مقاصد کو مکمل طور پر ناکام بنانے کیلئے آگے آنا ہوگا۔  
اس سلسلے میں سیکیورٹی اداروں پر سب سے زیادہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مقام پر جب اہم حقائق سامنے آچکے ہیں اس کے تمام کرداروں کو مکمل طور بےنقاب کرتے ہوئے ملکی آئین اور قانون کے مطابق حکومت پاکستان کو ان کے خلاف کارروائی کرنے میں تعاون فراہم کریں اور کسی قسم کی سیاسی مصلحتوں کا شکار نہ ہوں تاکہ اس کے بعد کسی کو بھی ملک کے مفادات کے خلاف ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ہمت نہ ہو۔


Post a Comment

0 Comments