Header Ads Widget

بینظیر بھٹو شہید کی خدمات کو خراج تحسین Tribute to Shaheed Benaxir Bhutto Services

 دسمبر 27، 2024



تحریر: ممتاز ہاشمی

بینظیر بھٹو شہید کی جدوجہد کو خراج تحسین

 آج بینظیر بھٹو شہید  کی سالگرہ کے موقع پر اس  عظیم لیڈر کو خراج تحسین پیش کرنے   اور اس کی عظیم قربانی کو دوبارہ سے یاد کرنے کا دن ہے جو اس نے پاکستان میں آہین و جمہوریت کی بحالی اور عوامی حقوق کی حکمرانی کے لیے کی تھی ۔

بے نظیر بھٹو شہید کی اس انقلابی جدوجہد کو سمجھنے کے لیے ہمیں اپنی تاریخ کے ان واقعات کو ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے جن میں اس نے نہایت مشکلات اور تکالیف برداشت کرتے ہوئے عوامی حقوق اور جمہوریت کے لیے عظیم جدوجہد کی۔اور اپنی جان کی قربانی دی۔

 پاکستان کے قیام کے  بعد جو سول اور فوجی ادارے پاکستان کے حصے میں آئیں وہ مکمل منظم اور تمام تر امور پر  اختیار رکھتے تھے۔  ان کی پاکستان کے قیام کے مقاصد سے کوئی دلچسپی اور تعلق نہیں تھا بلکہ ان کی غالب سوچ یہ تھی  کہ وہ اس نوزائیدہ مملکت میں اختیار کل حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور ملک میں اصل حکمرانی ان ہی کے پاس ہوگی جبکہ عوامی اور سیاسی قوتوں کو وہ اپنے کنٹرول میں رکھیں گے اور یہ سوچ  بعد کے حالات نے سچ ثابت ہوہی۔ 

قائداعظم کی جلد وفات کے بعد مسلم لیگ کی سیاسی قیادت منظم سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹز کی سازشی سرگرمیوں سے نمٹنے کے قابل نہ رہی۔ اور عدلیہ نے ان کے آئین شکن اقدامات کو تحفظ فراہم کرنے کا بندوبست کیا گیا۔ 

 سول اور فوجی اداروں  نے عدلیہ کی مدد سے جمہوری عمل اور سیاسی قیادتوں کو مسلسل مساہل اور مشکلات سے دوچار کیا اور ان کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں مصروف رہے۔ اور آخر کار جمہوریت کو اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہو گے اس ملٹری ڈکٹیٹروں کی آئین شکن کارروائیوں  نے بعد میں پاکستان کے ٹوٹنے اور بنگلہ دیش کے قیام کی بنیاد فراہم کی۔ 

 ڈکٹیٹر ایوب خان اور یحییٰ خان کے دور میں 1958 سے 1971 تک پاکستانی تاریخ کا  طویل تاریک آمرانہ ادوار کا  حصہ ہے ۔ اس دور میں طلبہ، سیاسی، آزادی صحافت کی تحریکوں کو ریاستی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی ظالمانہ طریقوں سے کچلا گیا اور اس عرصے میں طلباء،  مزدوروں،  کسانوں،  صحافیوں، وکلاء اور سیاسی قوتوں کی لازوال قربانیاں ہماری تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے۔

 یہ ریکارڈ پر ہے کہ اس دور میں بہت سے سیاستدانوں نے بھٹو سمیت غیر قانونی آمریت کا ساتھ دیا۔ اس کی توضیح یہ بھی بیان کی جا سکتی ہے کہ جن حالات میں اور زندگی میں انہوں نے سیاست میں قدم رکھا اس وقت مکمل ڈکٹیٹر شپ نافذ تھی اور اس میں سیاسی عمل میں کردار ادا کرنے کے لئے یہ ہی راستہ باقی تھا۔ یہ بھی واضح رہے کہ بھٹو کو عوامی ہمدردی اور حمایت تب ہی ملتی ہے جب وہ آمر کو چھوڑ کر جمہوریت اور عوام کے حقوق کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔ اس کے بعد بھٹو کو عوام کی بے مثال حمایت حاصل ہوئی اور ملک میں ایک نئی انقلاب کی امنگ نے جنم لیا اور پاکستان کا مستقبل روشن نظر آنے لگا۔ 


 1971  میں بنگلہ دیش کے قیام سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ  کو تاریخی شکست ہوئی اور پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوگیا تھا ۔ اس وقت فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پاس بھٹو کو اقتدار سونپنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔ ان کا مقصد تاریخی شکست کے بعد عوامی غصہ سے بچنا اور ڈرائیونگ سیٹ پر واپس آنے کے لیے نئی حکمت عملی کو دوبارہ تیار کرنے کے لیے وقت حاصل کرنا تھا۔ 

 بھٹو کی بڑی کامیابی 1973 میں ایک متفقہ وفاقی آئین تیار کر کے  باقی ماندہ پاکستان کو متحد کرنا تھا ۔ یہ آئین آج بھی پاکستان کے اتحاد کا ذریعہ ہے،اور پاکستان کی تمام اکائیوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے اگرچہ آمروں کے مختلف ادوار میں اس میں بھاری تعداد میں  غیر جمہوری تبدیلیاں کی گئی ۔ 

 بھٹو کے دور میں اسٹیبلشمنٹ دوبارہ مضبوط ہوئی اور سیاسی معاملات میں مداخلت دوبارہ سے شروع ہوئی  بھٹو حالات کی سنگینی کو محسوس کرنے سے قاصر تھے۔ ان سے کچھ بنیادی سیاسی غلطیاں ہوئیں اور پارٹی کے مخلص سیاسی کیڈر کی حمایت کھو دی۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں میں پھنس گئے اور بالآخر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ عوامی سیاسی تحریک کے نتیجے میں بھٹو کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ 

اس موقع پر جب ضیا آمریت نے بھٹو کو قید کر کے اپنے راستے سے ہٹانے کے لئے ایک کیس میں پھنسانے کی سازشیں کی تو اس وقت بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے اس آمریت کو للکارا اور عوامی تحریک کی قیادت سنبھال لی اس پر آمر ضیا ڈگمگا گیا اور ان کو قید و بند کی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ 

 1977 میں آمر ضیاء نے مارشل لاء لگایا اور ہماری تاریخ کا ایک اور سیاہ دور شروع ہوا۔ اس دور میں جمہوریت کی بحالی اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے عوامی تحریک کو دبانے کے لیے ایک انتہائی سفاک ریاستی مشینری کا دوبارہ استعمال ہوا۔ اس دور میں عوام نے جمہوریت کی بحالی کے لئے بے پناہ قربانیاں دیں جو ہماری تاریخ کا سنہرا باب ہے ۔ 

اس دوران بینظیر بھٹو کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی اور انہوں نے اس جلاوطنی کے دوران ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد کی رہنمائی فراہم کی اور 1983 کی بحالی جمہوریت کی تحریک ایک منفرد مقام رکھتی ہے جس میں آمریت ضیا کا اقتدار ڈوبتا نظر آنے لگا اور آخرکار اس کو مجبور ہو کر 1985 میں الیکشن کروانے پڑے۔ 

 ضیاء کی آمریت 1988 میں ان کی موت تک جاری رہی۔ اس عرصے کے دوران آمر نے آئین کی بنیادی روح کو بدل دیا اور یہ جمہوری اور آمرانہ اقدار کا مرکب بن گیا۔ تاہم ان کے دور میں 1985 کے غیر سیاسی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے نواز شریف کی ایک اور قیادت ابھری۔

آخرکار بینظیر بھٹو 1986 کو  پاکستان واپس آئیں اور اس وقت ان کے استقبال کے لئے عوام نے جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے بینظیر بھٹو کے لاہور اور ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے استقبالی اجتماعات میں عوام کی شرکت کا ریکارڈ شاہد تاریخ میں دوبارہ کبھی بھی نہ دہرایا جا سکے۔

میں خود اس تاریخی اجتماعات کا عینی شاہد اور کردار ہوں۔

بینظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی نے 1988 کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی سخت مخالفت کے باوجود کامیابی  حاصل کی اور ملک کو دوبارہ سے جمہوریت،  آزادی اور آئین پر گامزن کر دیا۔ عوام کو اقتدار میں شمولیت کا احساس پیدا ہوا اور آمرانہ ادوار میں پیدا ہونے والی احساس محرومی میں کمی واقع ہوئی۔ 

اگرچہ اسٹیبلشمنٹ ان تمام حالات میں اس جمہوری حکومت کو ناکام بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرتی رہی۔ مگر بینظیر بھٹو نے انتہائی ہمت اور جرات سے ان سازشوں کا مقابلہ کیا۔ 

  1988 سے 1999   تک نیم خودمختار اور نیم جمہوری سیاسی حکومتوں کا ایک مختصر سا دور دیکھنے میں آیا۔ اس دور میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں  اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں استعمال  بھی ہوئیں۔ جس میں ان کی کچھ سیاسی مجبوریاں اور کچھ اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا اندازہ لگانے میں کوتاہی بھی شامل تھیں۔ تاہم، جب بالآخر نواز شریف نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی سیاسی حمایت کی بنیاد پر فیصلہ کن قدم اٹھایا تو پھر آمر مشرف (جنہیں وزیراعظم نے نوکری سے برطرف کر دیا تھا) نے کچھ جرنیلوں کی مدد سے غیر آئینی طور پر ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔ 

ملک ایک بار پھر فوجی آمر کے طویل دور کا شکار ہو  گیا  اس دور آمریت میں حکومت میں ان کے غیر قانونی اور غیر آئینی کاموں کو چھپانے کے لیے آئین میں ترمیم کی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے  ان غیر آئینی مقاصد کے حصول کے لیے عدلیہ نے کٹھ پتلی کا کردار ادا کیا۔ ہماری اس تمام سیاسی تاریخ میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ایجنٹ سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ جمہوریت اور عوامی تحریک کو دبانے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا جن میں جماعت اسلامی سب سے نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ 

 اس دوران فوجی امریت نے پاپولر قیادت  بینظیر بھٹو  اور نواز شریف  کو جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کیا ۔ بیرونی طاقتوں نے آمریت کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں کارروائیاں پاکستان کا راستہ استعمال کیا۔ جس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ آخر کار دونوں مرکزی دھارے کی جماعتوں نے سول بالادستی، جمہوریت کی بحالی اور عوامی حقوق کے تحفظ کیلئے  کے  ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے  2006 میں "چارٹر آف ڈیموکریسی"  نامی دستاویز پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ کے تحت سیاسی قوتیں نے جمہوریت کی بحالی اور بالادستی کے لیے ایک اہم قدم تھا جس کی وجہ سے جمہوری قوتوں کو تقویت ملتی ہے۔ اس طرح سے سیاسی دباؤ کے باعث آمر ملک میں جمہوریت کی بحالی پر مجبور ہوتے ہوئے پاپولرقیادت کی ملک واپسی کا راستہ ہموار ہو تا ہے 

اس دفعہ دوبارہ بینظیر بھٹو جلاوطنی ختم کر کے جب پاکستان واپس لوٹیں تو عوام نے دوبارہ ان کا فقیدالمثال استقبال کیا مگر اسٹیبلشمنٹ کو یہ برداشت نہ ہوا اور ان کے اس استقبالی جلوس پر حملہ کر دیا گیا جس میں بےشمار کارکنوں نے اپنی جانیں قربان کرتے ہوئے اپنی قائد بینظیر بھٹو کی جان بچائی۔ 

اس دوران انہوں نے ملک بھر میں عوام کو متحرک کیا اور آمر مشرف کو انتخابات کرانے پر مجبور کر دیا۔

اس انتخابی مہم کے دوران  27 دسمبر  2007 کو ان پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں عوامی اجتماع سے خطاب کر کے واپس جا رہی تھی۔ 

ان کی اس قربانی کو کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا اور بینظیر بھٹو پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ایک روشن ستارے کی طرف چھائی رہیں گی۔ اور پاکستان کے عوام ہمیشہ ان کی جدوجہد سے آمریتوں کے خلاف جدوجہد میں ہمت اور توانائی حاصل کرتے رہیں گے۔

ان کی اس بے مثال جدوجہد اور قربانی نے عوام کو متحرک کیا اور انہوں نے جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے قابل قدر جدوجہد کی اور آخرکار پارلیمنٹ نے 73 کے آئین کی وفاقی اور جمہوری روح کو بحال کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گئیں۔

اگرچہ اس کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت اور عوامی قوتوں کو نقصان پہنچانے کے ایجنڈے ہر کام جاری رکھا اور اس کے لیے عمران خان کو لانچ کیا جس نے نہ صرف جمہوریت کو نقصان پہنچایا بلکہ اس نے پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کو نقصان پہنچانے کی بھرپور سازش کی  مگر اللہ کی رحمت سے اس کی سازشوں کو ناکام بنا دیا گیا۔

آج جب  پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے اور اپنی تمام توانائیاں ملک کے استحکام،  معاشی ترقی اور اداروں کی بحالی کیلئے وقف کر دی ہے تا اس کا کریڈٹ بے نظیر بھٹو شہید اور دیگر سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو جاتا ہے جنہوں نے اس مقصد کے لیے عظیم قربانیاں دیں اور ایک تاریخ رقم کی ہے 

آج پاکستان میں ان سازشی عناصر جس میں سابقہ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ و دیگر طبقات و افراد کے گھناؤنے اور بھیانک چہرے بےنقاب ہو رہیں ہیں اس کا اصل کریڈٹ بینظیر بھٹو کو جاتا ہے جس نے اپنی جان کی قربانی دیکر جمہوری قوتوں کو یکجا ہو کر اس عظیم جدوجہد کو جاری رکھنے کا پیغام دیا تھا۔ 

اللہ بے نظیر بھٹو شہید کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین

Post a Comment

0 Comments