تحریر: ممتاز ہاشمی
آج پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین دن ہے جب ذوالفقار علی بھٹو شہید کی سالگرہ کا دن منایا جارہا ہے کیونکہ گزشتہ سال ہی سپریم کورٹ نے ایک طویل عرصے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو شہید کو انصاف فراہم کر دیا ہے اور اب بھٹو کو شہید کا درجہ قانونی اور دائمی طور پر حاصل ہو گیا ہے۔
اس تاریخی لمحے پر چیف جسٹس قاضی فائر عیسٰی اور سپریم کورٹ کے دیگر ججز خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے عدلیہ کے غیر قانونی فیصلے کو مسترد کر دیا اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کی سزا کو آئین و قانون سے ماروا قرار دے دیا گیا ہے۔ اور اسطرح سے بھٹو شہید کو سزا سنانے والے مکروہ چہرے بےنقاب ہو گئے ہیں۔ جنہوں نے اپنے حلف سے غداری کرتے ہوئے ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے غیر آئینی اقدامات کا ساتھ دیا اور نظام انصاف کا قتل عام کیا تھا۔
ان ججز نے نہ صرف ڈکٹیٹر کے حکم پر ایک معصوم شخص کی جان لی بلکہ ان کا سب سے بڑا جرم پاکستان کو سیاسی اور معاشی بحران میں مبتلا کرنے کا سبب بنا۔
واضح رہے کہ ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے نہ صرف جمہوریت کا قتل کیا بلکہ ملک کو تاریکی میں دھکیل دیا اور پاکستان میں انتشار اور لسانیت کو فروغ دے کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔
اس کا نقصان قوم آجتک بھگت رہی ہے اور اس نے پاکستان کو معاشی طور پر انتہائی درجے پر متاثر کیا۔
آج پاکستان جس معاشی بحران کا شکار ہے اس کی بنیادوں میں ڈکٹیٹر ضیاء الحق کا بہت بڑا حصہ ہے۔ بھٹو شہید نے نہ صرف ملکی سیاست میں انقلاب برپا کیا اور مظلوم طبقات کو ان کے حقوق کے حصول کیلئے متحرک کیا بلکہ اسلامی دنیا اور تیسری دنیا کے ممالک کو متحد ہو کر استحصالی قوتوں کا مقابلہ کرنے کا راستہ دکھایا۔ جس کی وجہ سے سامراجی قوتوں نے بھٹو شہید کو راستے سے ہٹانے میں اپنا حصہ ڈالا۔
لیکن بھٹو کو وہ منظر عام سے ہٹانے کے بعد بھی وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے بلکہ بھٹو شہید کی شہادت نے ان کے مرتبے اور مقبولیت کو دوام بخشنے کا کام کیا۔
آج کا دن اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم ذوالفقار علی بھٹو شہید کے تاریخی کردار کو دوبارہ سے یاد کریں تاکہ ہماری نئی نسل جس کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا کچھ علم نہیں ہے وہ تاریخی حقائق سے آگاہ ہو سکیں۔ میں ان تمام تاریخی لمحات کا نہ صرف عینی شاہد ہوں بلکہ اس عرصے میں انہوں تمام تحریکوں میں شامل رہا ہوں جو پاکستان میں جمہوریت، آزادی صحافت اور معاشی انصاف کے لیے چلائی گئی تھیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز فوجی آمر ایوب خان کے دورمیں کیا اور ان کے قریبی معاون کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے ایوب کی مسلم لیگ (کنونشن لیگ) کے سیکرٹری کی بھی خدمات انجام دیں۔ لوگ اکثر اس بات پر تنقید کرتے ہیں کہ بھٹو شہید تو آمر جنرل ایوب کی پیداوار ہے ان کے لیے یہ عرض ہے کی جس دور میں بھٹو نے سیاست کا آغاز کیا اس وقت ملک سخت آمریت میں جکڑا ہوا تھا اور کسی بھی ایسے لیڈر کے لیے جس نے تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کرنا تھا اس کے لیے یہ واحد راستہ تھا جس کے ذریعے وہ اہم معاملات میں اپنے آپ کو منوانے کا آغاز کر سکتے تھے۔
لیکن یہ بات ریکارڈ اور تاریخ کا لازمی حصہ ہے کہ بھٹو شہید کو عوامی سطح پر مقبولیت اسی وقت حاصل ہوئی جب اس نے آمریت کے خلاف اور عوامی حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی۔ اور اس کے لیے قربانیاں دیں۔
بھٹو شہید نے ہی اس آمریت کے دور میں عوام کو ان کے بنیادی حقوق کا شعور دیا۔ لوگ عرصے سے ایسی آواز کا انتظار کر رہے تھے اور جیسے ہی یہ عوامی حقوق کا نعرہ بھٹو نے بلند کیا تو عوام نے اس کا تہہ دل سے خیر مقدم کیا۔ انہوں نے ملک کے مزدوروں، طلباء، صحافیوں، وکلاء اور بائیں بازو کے لیڈروں کی مدد سے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ اس کے نتیجے میں مغربی پاکستان کے صوبوں میں زبردست عوامی تحریک شروع ہوئی اور پیپلز پارٹی نے ملک کے مغربی صوبوں میں بہت زیادہ عوامی پذیرائی حاصل کر لی۔ اسی عوامی تحریک کے نتیجے کے طور پر آمریت کو مجبوراً رخصت ہونے اور ملک میں اقتدار عوام کو منتقل کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ اگرچہ آمریت اور کے حمایتی دائیں بازو کی جماعت اسلامی ہمیشہ عوامی حقوق کی تحریک رکاوٹیں کھڑی کرتی رہیں تاکہ آمریت اور استحصالی نظام کو تقویت پہنچائی جائے سکے۔
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے اور اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ 70 کے انتخابات مکمل طور پر غیر جانبدارانہ تھے مگر یہ مکمل سچ نہیں ہے۔ درحقیقت یہ کچھ حد تک منصفانہ تھے کیونکہ انٹیلی جنس رپورٹس بتاتی تھی کہ جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور جمہوری پارٹی کا دائیں بازو کا اتحاد آسانی سے الیکشن جیت جائے گا، ورنہ ان انتخابات کو منعقد ہی نہ کیا جاتا اور صورتحال مختلف ہوتی۔ اس الیکشن کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے کہ اس وقت کے وزیر اطلاعات جو جماعت اسلامی کے ہمدرد جنرل شیر علی خان تھے۔ انطکے زیر اہتمام حکومت نے پہلی بار تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو اپنے منشور اور پروگرام کو عوام کو پیش کرنے کے لیے ٹی وی پر آنے کا اہتمام کیا تھا۔ ان کی تقاریر کی ریکارڈنگ پہلے کی گئی تھی اور فیصلہ کیا گیا تھا کہ پارٹی قائد کے حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق انہیں ٹیلی کاسٹ کیا جائے گا۔
اس اصول کے تحت جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابو الاعلی مودودی کی تقریر سب سے پہلے نشر ہوئی اور آخری تقریر ذوالفقار علی بھٹو شہید کی نشر ہوئی ۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ مولانا مودودی کی تقریر بھٹو شہید کی تقریر کا جواب تھا جو آخر میں ٹیلی کاسٹ کی گئی تھی دراصل وزیر اطلاعات نے جماعت اسلامی کو اپنی تقریر کی تیاری کے لیے بھٹو شہید کی ریکارڈ کردہ ٹیپ افراہم کیا تاکہ وہ اس کا جواب اپنی پہلے نمبر پر نشر ہونے والی تقریر میں کر کے سیاسی فائدہ حاصل کر سکیں یہ انتخابی دھندلی کی ایک بدترین مثال ہے۔
لیکن سرکاری ایجنسیوں کو عوامی سطح پر برپا ہونے والے انقلاب کا اندازہ ہی نہیں تھا جو کہ بھٹو شہید کی قیادت میں مغربی حصے کے صوبوں میں اور مشرقی حصے میں شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں برپا ہو چکا تھا۔ ان انتخابات کے نتائج میں پیپلز پارٹی نے مغربی حصے میں اور عوامی لیگ نے مشرقی حصے میں واضح اور مکمل کامیابی حاصل کیں عوامی لیگ 1970 کے انتخابات میں پاکستان میں سب سے بڑی اکثریتی جماعت بن کر ابھری۔ اگرچہ مزید واقعاتی حقائق بھی موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور دائیں بازو کے اس کے اتحادیوں نے ان انتخابات کے منصفانہ انعقاد میں ہر ممکن طریقے سے رکاوٹیں کھڑی کی تھی لیکن چونکہ یہ تبدیلی اور انقلاب کی آواز تھی اس لیے سب کچھ دفن ہو گیا اور ان انتخابات میں بھٹو شہید اور مجیب کی جماعتیں فاتح بن کر ابھریں ۔
چونکہ انتخابات کے نتائج اسٹیبلشمنٹ اور ان کے حامیوں (دائیں بازو کی جماعتیں خصوصاً جماعت اسلامی) کی توقع کے خلاف تھے اور وہ عوامی فیصلے کو ناکام بنانے کیلئے اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ یحییٰ خان صدر برقرار رہنا چاہتا تھا اور اقتدار کو عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپنے کے لیے آمادہ نہیں تھا جماعت اسلامی اور دائیں بازو اس کے اس ایجنڈے میں مکمل طور پر شریک تھیں ۔ یحییٰ خان کی طرف سے جاری کیا گیا مشہور لیگل فریم ورک آرڈر واضح طور پر ان کی اس سازش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جس کے مطابق منتخب قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کے 120 دنوں کے اندر اندر نیا آئین منظور ہونا لازمی تھا ورنہ اس اسمبلی کو تحلیل کر دیا جانا تھا۔
دونوں اکثریتی جماعتوں کے رہنماؤں نے اسمبلی سے پہلے اتفاق رائے تک پہنچنے کی پوری کوشش کی اور آخر کار بھٹو نے 120 دن کی شرط ختم کرنے کو کہا، تاکہ اسمبلی آئین کے لیے آزادانہ طور پر کام کر سکے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ منتخب افراد کو اقتدار منتقل کرنے کے موڈ میں نہیں تھی، کیونکہ منتخب پارٹیوں کے پاس انقلابی پروگرام تھا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے تحفظ یافتہ مراعات یافتہ طبقات کو چیلنج کر رہی تھیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو شہید اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کو بخوبی سمجھتے تھے اور انہوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کو سمجھانے کی بھرپور کوشش بھی کی تاکہ دونوں ملکر اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو سکیں مگر شاید شیخ مجیب الرحمٰن اس سیاسی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر تھے اور اسطرح سے اس عوامی تحریک کو کچلنے اور عوام کی خواہشات کی حوصلہ شکنی کے لیے اسٹیبلشمنٹ اپنا کھیل کھیلا اور مشرقی پاکستان پر حملہ کرکے جمہوری عمل کو روکنے کا کام کیا جو پاکستان کی شکست اور تقسیم کی شکل میں سامنے آیا۔ یہ ہماری تاریخ کا انتہائی شرمناک حصہ ہے ان دنوں کے سیاسی واقعات کی تفصیلات ایک الگ اور طویل موضوع ہے
"حمود الرحمان کمیشن" کی رپورٹ میں اس بحران کے ذمہ داروں کو واضح کیا گیا ۔ ان تمام حالات میں عوامی لیگ کے غیر لچکدار رویے پر سوالات ہوسکتے ہیں، لیکن اسٹیبلشمنٹ پر ان کے عدم اعتماد کا تاریخی پس منظر ہے، جس پر میں یہاں بحث نہیں کر رہا، کیونکہ یہ ایک الگ باب کا متقاضی ہے۔
پاکستان کی تاریخی شکست کے بعد پاکستان کا جو حصہ باقی بچا تھا اس میں مجبور ہو کر اسٹیبلشمنٹ جو عوام کے غصے کی زد میں تھی نے بھٹو کو اقتدار دینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہ متفقہ فیصلہ نہیں تھا، کیونکہ وہ اب بھی عوام کی مرضی کے خلاف ملک پر حکومت کرنا چاہتے تھے ۔ ایک گروپ نے یو این او سے واپسی پر بھٹو کے طیارے کو فائر کرنے کا مشورہ بھی دیا لیکن پھر اکثریت نے فیصلہ کیا کہ "دیکھنے دو یہ جوکر کیا کر سکتا ہے" اور اقتدار بھٹو کے حوالے کر دیا۔
قومی سطح پر بھٹو شہید کا سب سے بڑا کارنامہ 73 کے آئین کا بنانا ہے جو کہ آج بھی پاکستان کے اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے اس آئین کو قائداعظم کے خیالات اور قرددا پاکستان کی روح کے مطابق تشکیل دیا گیا جو پاکستان کی فیڈریشن کا عکاس ہے ہےاور جو صوبائی اکائیوں کی خود مختاری کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے اور اس کے بعد آمریتوں نے ہمیشہ اس آئین کی وفاقی حیثیت کو متاثر کرتے ہوئے اس میں غیر آئینی تبدیلیاں کی اور ہر دفعہ عوامی جمہوری قوتوں نے دوبارہ سے اس آئین کو اس کی روح کے تقاضوں کے مطابق بحال کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
بھٹو نے عوامی بہبود اور خوشحالی کیلئے جو انقلابی اقدامات کئے تھے وہ ہماری تاریخ کا تابناک باب ہے ان میں زرعی اصلاحات جس کی بدولت نچلے طبقے کے کسانوں کو زمین کی ملکیت ملی اور وہ اپنی محنت کے پھل کا حقدار بنا۔
مزدوروں کو پیداواری عمل میں شرکت کا احساس دلایا گیا اور ان کے حالات زندگی میں بہتری دیکھنے کو ملی۔
تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں کی گئی اور مفت تک میٹرک تک تعلیم کو نافذ کیا گیا جس سے غریب عوام کو بھی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوے۔
صحت کے شعبے میں انقلابی اصلاحات کی گئی اور میڈیسن میں جنرک نام نافذ کیا گیا جس سے ادویات کی قیمتوں میں حیرت انگیز طور کمی واقع ہوئی۔
اس کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی بہت اصلاحات کی گئی۔ ان انقلابی اقدامات سے عوام کو انصاف اور معاشی فوائد حاصل ہوے اور استحصالی طبقات کو کاری ضرب لگی۔
اس لیے تمام استحصالی طبقات نے متحد ہو کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر بھٹو شہید کو اقتدار سے ہٹانے کی سازشیں تیار کیں۔
اور اس سازش کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے پارٹیوں کے اندرونی ذرائع کو بھی استعمال کیا۔
کیونکہ بھٹو شہید تیسری دنیا کے اتحاد اور اسلامی بلاک کو منظم کرنے میں بین الاقوامی محاذ پر بہت مصروف تھے اور ان کو اتنا وقت نہیں تھا کہ ملک اور پارٹی کے اندرونی معاملات پر توجہ دیتے ۔ جس کی وجہ سے ان سے کچھ بنیادی سیاسی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں اور اس کا فائدہ استحصالی طبقات نے آتھایا۔
بھٹو شہید سے جو سیاسی غلطیاں ہوئیں ان کا ذکر کرنا بھی ضروری ہوگا
ذیل میں دیے گئے کچھ واقعات پر غور کریں، جن کو میں بھٹو شہید کے زوال اور اسٹیبلشمنٹ کی مخالف قوتوں کی کامیابی سبب اور پارٹی کی نااہلی کی وجہ سمجھتا ہوں۔
1973 کے متفقہ آئین کی منظوری کے بعد، بنیادی حقوق کو ایک آرڈیننس کے ذریعہ معطل کر دیا گیا تھا اور جو ان کی حکومت کے اختتام تک فعال تھا۔ اس کے تحت پریس سنسر شپ لگائی گئی اوربدنام زمانہ مشہور ڈی پی آر جیسے کالے قانون کے تحت لوگوں کو بغیر کیس کے جیلوں میں قید کر دیا گیا تھا اور اسطرح جمہوری اقدار کا احترام نہیں کیا گیا۔
پیپلزپارٹی کے حقیقی انقلابی جنہوں نے سخت انقلابی جدوجہد اور محنت کی تھی وہ پارٹی سےلاتعلق ہوگئے یا انہوں نے پارٹی کو چھوڑ دیا اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو جیل میں ڈال دیا گیا
پیپلز پارٹی بھٹو شہید نے ڈاکٹر مبشر حسن جیسے حقیقی اور مخلص لیڈروں کی حمایت اور محنت سے بنائی تھی۔ جے اے رحیم، بابائے سوشلزم شیخ رشید اور (کھر اور معراج محمد خان) جنہیں بھٹو نے اپنا جانشین نامزد کیا تھا اور کئی دوسرے مزدور رہنما جیسے مختار رانا اور احمد رضا قصوری وغیرہ سب پارٹی کے انقلابی منشور کے ساتھ مخلص تھے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی بھٹو شہید کے ساتھ نہیں کھڑا تھا جب انہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے چیلنجز کا سامنا تھا۔ معراج محمد کو جیل میں ڈالا گیا اور اس قسم کے دیگر واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اس وقت مرکزی کمیٹی میں زیادہ تر لوگ جو بھٹو شہید کے ساتھ رہ گئے تھے ان کا تعلق اسٹیبلشمنٹ سے تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پارٹی حقیقی چیلنجوں کے وقت کسی مزاحمت نہیں کر سکی ۔
1975 میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بلوچستان کے خلاف مسلح آپریشن کا آغاز۔ یہ بھٹو شہید کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی یہ ان کا سب سے افسوسناک اور غیر ذمہ دارانہ سیاسی فیصلہ تھا کہ انہوں نے بلوچستان میں قائم نیشنل عوامی پارٹی کی صوبائی حکومت کو تحلیل کر دیا اور عوامی نیشنل پارٹی پر پابندی عائد کر دی اور ملٹری کو بلوچوں کے خلاف وہی آپریشن شروع کرنے کی اجازت دےدی، جیسا طرح ملٹری نے 1970 میں بنگالیوں کے خلاف آپریشن کیا تھا۔ اس کے اثرات آجتک ہمارے اوپر ہیں ۔ بھٹو شہید نے بلوچستان کے تمام لیڈروں کو جیل میں ڈال دیا اور زیادہ تر مجبوراً مسلح جدوجہد میں شامل ہو گئے۔ بلوچستان آجتک بحران کا شکار ہے اور ان کی پاکستان سے مایوسیوں کو آمریتوں کے مسلسل اور تسلسل نے انتہائی خطرناک صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔
بلوچ عوام اور سردار فوج سے لڑنے کے لیے پہاڑوں پر چلے گئے اور ان پر فضائیہ کے ذریعے بمباری بھی کی گئی ۔ رد عمل میں جے یو آئی اور ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کی سرحد حکومت نے استعفیٰ دے دیا۔ نیپ کے تمام رہنماؤں کو کے خلاف "بغاوت" کے مقدمے میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور یہ سب ضیاء الحق کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی رہا ہوے تھے۔
بھٹو شہید نے خود تمام جماعتوں کو موقع دیا کہ وہ اس کے خلاف متحد ہو کر تحریک شروع کریں۔ 1977 کی اس تحریک کو بین الاقوامی کھلاڑیوں نے اسپانسر کیا لیکن بھٹو شہید نے اپنے آمرانہ رویے کی وجہ سے بائیں بازو کی جماعتوں اور طلبہ ونگ کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی تھی کہ وہ بھٹو شہید مخالف تحریک سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھ سکیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مجبوراً اس کا حصہ بنے تاکہ ملک میں جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کو پروان چڑھیا جائے۔
پیپلزپارٹی میں کوئی بھی اایسا نہیں بچا تھا جو اس عوامی تحریک کا ادراک کر سکے اور بھٹو شہید کو اصل حقیقت بتا سکے بس وہاں اسوقت سب " ہاں میں ہاں ملانے والے " تھے اور زیادہ تر اپنے ذاتی مفادات کے لیے وفاداری ظاہر کرتے تھے تو پھر ان سے کیسے توقع کر سکتے تھے کہ وہ ایک حقیقی تحریک کا مقابلہ کر سکتے اور ناچار بھٹو شہید اپنے انہی ساتھیوں کے رحم و پر رہتے ہوئے شکست سے دوچار ہوے۔
ان تمام واقعات کے باوجود بھٹو شہید کے خلاف تحریک کو بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل تھی اسلئے اسٹیبلشمنٹ اس میں کامیاب ہوئی اور عوام کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور ملک میں ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے 5 جولائی 1997 کو مارشل لاء نافذ کر دیا۔
آج تمام جمہوری، آزادی، مساوات اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والی قوتیں بھٹو کا حوالہ دینے پر مجبور ہیں اور آج ان کے منشور میں عوامی فلاح و بہبود کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اور یہ جنگ جمہوریت اور آمریت کے درمیان آج بھی جاری ہے اور اس کے بعد بھٹو شہید کے خاندان نے اس جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کر کے اس عظیم جدوجہد کو دوام بخشنا ہے۔
آج تمام جمہوری قوتیں بھٹو کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں اور اس کے تاریخی جدوجہد اور قربانیوں کو سہرانے پر مجبور ہیں۔
آج جب پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے اور اپنی تمام توانائیاں ملک کے استحکام، معاشی ترقی اور اداروں کی بحالی کیلئے وقف کر دی ہے تو اس کا کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو شہید، بے نظیر بھٹو شہید اور دیگر سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو جاتا ہے جنہوں نے اس مقصد کے لیے عظیم قربانیاں دیں اور ایک تاریخ رقم کی ہے
آج پاکستان میں ان سازشی عناصر جس میں سابقہ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ و دیگر طبقات و افراد کے گھناؤنے اور بھیانک چہرے بےنقاب ہو رہیں ہیں
آج اس موقع پر تمام استحصالی طبقات پر کاری ضرب لگانے کے عزم کے اعادہ کرنے کا دن بھی ہےہے جو آج دوبارہ سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں ملوث کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں اور جو 9 مئی کی بغاوت میں ملوث ہیں یا ان کی سہولت کاری کر رہے ہیں ان ملک، عوام اور اسلام دشمن عناصر جو عمران خان کی سرپرستی میں مختلف اداروں میں ابتک موجود ہیں اسلئے اسوقت عوام اور تمام جمہوری قوتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متحد ہو کر ان سازشی عناصر کو ناکام بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ تاکہ ملک کو دوبارہ سے جمہوریت و معاشی ترقی پر گامزن کیا جا سکے۔
اللہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین
.jpeg)
1 Comments
اتنی خوبیاں تو خود بھٹو صاحب کو نہیں معلوم تھیں اپنے بارے میں؟
ReplyDeleteدوسری بات اس مضمون میں جو قابل توجہ ہے وہ بھٹو صاحب کی کسی بھی کمی یا کوتاہی غلطی کی نشاندہی نہ ہونا ہے !!!!