ماضی
کے جھروکوں سے ایک برس قبل لکھا گیا مضمون اکتوبر 25، 2024
تحریر: ممتاز ہاشمی حال مقیم کینیڈا
آج جب پاکستان کی تاریخ کے سب سے ایماندار، محنتی اور آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے قاضی فائز عیسٰی چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں تو پوری قوم ان کو ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتی ہے ان کا ایک سال کا مختصر عرصے بطور چیف جسٹس پاکستان ہماری عدلیہ کی تاریخ کا تابناک حصہ ہے۔ ان کی ان خدمات کو یاد کرنے سے پہلے ان کے ماضی کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ عوام کی اکثریت کو ان کا علم نہیں ہے۔
ان امیدوں کی وابستگی کی وجہ ان کے ذاتی اور خاندانی پس منظر ہے ان کے والد قاضی عیسٰی قائداعظم کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے اور تحریک پاکستان کے جوان ترین راہنما تھے قائداعظم نے ان کو خاص اہمیت دیتے تھے اور ان کو اہم ذمہ داریاں سونپی تھیں انہوں نے بلوچستان اور سرحد کے پاکستان میں شمولیت اور وہاں پر مسلم لیگ کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اور اس سلسلے میں اپنے ذاتی وسائل کو مسلم لیگ کی تحریک پاکستان کے کے مقاصد کے لیے قربان کیا تھا۔
قاضی فائز عیسٰی بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہے ہیں اور اس کی گواہی ان کا بے مثال اور جرات مندانہ کردار ہے جو انہوں نے اپنی تمام زندگی میں ادا کیا ہے
آج
میرے ذہین میں 90 کی دہائی کی یادیں تازہ ہو گئی اسوقت میں کراچی بلڈنگ کنٹرول
اتھارٹی میں ڈپٹی کنٹرول کے حیثیت سے کام کر رہا تھا اور اس وقت جب شہر میں بلڈر
مافیاز غیر قانونی تعمیرات میں انتہائی سرگرم عمل تھا تو عوامی دباؤ پر حکومت نے
کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی کارکردگی پر نگرانی کے لیے اورسیز کمیٹی قائم کی
گئی تھی۔ اس میں شہر کے نامور شخصیات، پروفیشنلز وغیرہ شامل تھے اس وقت قاضی فائز
عیسیٰ ایک نامور وکیل میں شمار ہوتے تھے وہ انتہائی ایماندار، پرعزم اورجوان تھے
جو ان مافیاز کے خلاف ڈٹ کر کھڑے تھے اور رضاکارانہ طور پر ان غیر قانونی تعمیرات
کے خلاف عدالتوں میں مقدمات لڑتے تھے ان کو بھی اس کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا
تھا۔ وہ اس کمیٹی کے سب سے زیادہ فعال اور متحرک اراکین میں شامل تھے میں اورسیز
کمیٹی کے کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کرتا تھا
قاضی فائز عیسٰی اور دیگر اراکین کی کاوشوں سے شہر میں غیر قانونی تعمیرات کو کنٹرول کرنے میں کافی حد تک کامیاب حاصل ہوئی۔
وہ جب کمیٹی میں بولتے تھے تو ان کی باتیں انتہائی مدلل، قانونی حوالے اور دلکش ہوتی تھی اور تمام اراکین بڑی توجہ سے ان کو سنتے اور سراتے تھے۔ میں بحیثیت کوآرڈینیٹر اس تمام کاروائی کے منٹس تیار کرنے اور ان پر عملدرآمد کرنے کی رپورٹ پیش کرنے کا ذمہ دار بھی تھا۔ مجھے یاد ہے کہ قاضی فائز عیسٰی میٹنگ میں نوٹس لکھتے رہتے تھے اور جب منٹس کو کنفرم کرنے کے لیے پیش کیا جاتا تھا اکثر قاضی فائز عیسٰی اور دوسرے اہم رکن رولنڈ ڈی سوزا اس میں ترمیم اور اس کی تصحیح کراتے تھے۔
اس
کے علاوہ اس عرصے میں جب گورنر سندھ نے کراچی کے بلڈنگز اور ٹاون پلاننگ ریگولیشنز
کی تشکیل نو کے لیے مختلف پروفیشنلز کی کمیٹی تشکیل دی تھی تو میں نے اس میں بطور
سیکرٹری بھی کام کیا تھا اس وقت بھی میں اور کمیٹی کے اراکین ان قوانین کے قانونی
پہلوؤں پر ان سے رابطے کرتے تھے اور وہ ان معاملات کے قانونی پہلوؤں پر انتہائی
اہم مشورے دیتے تھے اس کے لیے میں اکثر دیگر کمیٹی ممبران کے ہمراہ ان کی لا فرم
کے دفتر جاتے تھے اور وہ شہر کی بہتری کے لیے کمیٹی کو اہم قانونی مشورے دیتے تھے
جو اس کام میں بہت مددگار ثابت ہوتے تھے ۔
اس
دوران انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں اہم عوامی آہینی اور ماحولیاتی مسائل پر مبنی
کیسز میں اہم کردار ادا کیا تھا اور آئین و قانون کی عملداری خو یقینی بنانے کیلئے
انتھک محنت کی جو ہماری عدالتی تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔
2009
میں ان کو بلوچستان ہائی کورٹ کا جج/ چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا اس تعیناتی کے
دوران انہوں نے تاریخ ساز فیصلے کئے جن میں حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں
کے کرداروں کو بے نقاب کیا گیا
بلوچستان
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے انہوں نے بہت سے تاریخی فیصلے دیے جن میں
حکومتوں اور ایجنسیوں کی نااہلی اور غیر قانونی اقدامات کی نشاندہی کی گئی تھی اور
ان کے خلاف اقدامات کی سفارشات کی گئی تھیں اور ان کو آئین و قانون پر عملدرآمد
یقینی بنانے کے احکامات جاری کئے گئے تھے۔
اس کے بعد 2014 میں ان کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا اور اس دوران حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹ ان سے خوفزدہ رہتی تھیں اور ان کو اکثر اہم آئینی و قانونی کیسز سے الگ رکھا جاتا تھا ان حالات میں انہوں نے ہر مرحلے پر اپنے فیصلوں میں آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کا طریقہ کار اپنایا۔
سپریم کورٹ کے مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریب سے ان کا خطاب تاریخ کا ایک یادگار حصہ رہے گستو ان کے مدہل، پرعزم اور پراعتماد لہجے اور آئین کی بالادستی قائم کرنے کا عہد پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید سنائی رہا تھا۔ انہوں نے ملک اور عوام کے لیے آئین کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی اہمیت کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا اور تجویز پیش کی کی آئین کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو شروع سے ہی آئین کی اہمیت اور اس کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل ہو اور پھر وہ اس کی حفاظت کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار رکھیں۔ حکومت نے یہ تجویز تسلیم کرتے ہوئے آئین کو نصاب کا حصہ بنانے کی قرارداد بھی منظور کی جو کی ایک خوشی آئند بات تھی۔
جب
وہ سپریم کورٹ کے جسٹس بنے تو انہوں نے مشہور اسلام آباد دھرنا کیس سمیت کئی مشہور
اور تاریخی فیصلے دیے۔ یہ ہماری عدلیہ کی تاریخ کا سب سے بڑا تاریخی فیصلہ ہے۔ اس
فیصلے میں سرکاری افسران ، سیاسی جماعتوں اور ایجنسیوں کے غیر قانونی کردار بے
نقاب ہیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔
لیکن عمران خان کی کٹھ پتلی حکومت نے عدالتی احکامات پر عمل کرنے کے بجائے اسی وکیل فروغ نسیم کے ذریعے ریفرنس دائر کرکے ان کے خلاف غیر قانونی سازش شروع کی۔
قاضی فائز عیسٰی نے چیف جسٹس بننے سے پہلے ایک انتہائی اہمیت کے موضوع پر نہ صرف خطاب کیا بلکہ حاضرین کے سوالات کے جوابات بھی دئے ہیں یہ پاکستان کی تاریخ کا اہم اور منفرد واقعہ تھا جب ایک ایسا شخص جو عنقریب پاکستان کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے والا تھا اس نے پاکستان کی تاریخ کے ان تمام سیاہ فیصلوں کی نشاندہی کی ہے جو پاکستان کی عدلیہ پر سیاہ داغ ہیں اور وہ تمام فیصلے نہ صرف پاکستان کے ٹوٹنے کی بنیاد بنا بلکہ اس کے بعد آج تک پاکستان کو جمہوریت کی پٹری سے اتارنے اور آمریت کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ بنے۔
قاضی فائز عیسٰی نے یہ بات اسوقت کہی جب عدلیہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے دوبارہ سے ملک میں عدم استحکام اور افراتفری پیدا کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہی تھی تاکہ ملک میں دوبارہ سے ملٹری ڈکٹیٹروں کی راہ ہموار کی جائے اور عوام کو ان کے جمہوری اور آئینی حقوق سے محروم کر دیا جائے۔
قاضی فائز عیسٰی کے خطاب کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
"جب آئین وجود میں آنیوالا تھا تو ایک سرکاری ملازم غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی کو ٹھوکر مار دی تو اسوقت کے جج کونسٹنٹائن اور دوسرے ججز نے اس اقدام کو غیر قانونی قرارد دے دیا اور جتنے وزیر اکٹھے کیے تھے جن میں ایوب خان اسکندر مرزا شامل تھے انکے خلاف فیصہ دیا لیکن انہوں نے اسکو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور جو فیصلہ دیا گیا اس پر ہنسی آتی ہے جس میں کہا گیا کہ ہم ابھی بھی برطانوی ملکہ کے ماتحت ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ دسمبر 1971 میں پاکستان اچانک نہیں ٹوٹا بلکہ اس کے بیج بوئےگئے تھے، میری رائے میں فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر نے پاکستان توڑنےکا بیج بویا، پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، جو زہریلا بیج بویا گیا وہ پروان چڑھا اور 1971 میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔
جسٹس
قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم جو کام آج کرتے ہیں اس کے اثرات صدیوں بعد تک
ہوتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ووٹ سے سزائے موت دی گئی، اگر آپ کو تاریخ
نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ نے ہمیں سکھانے کے لیے کئی مرتبہ اپنے آپ
کو دہرایا، 1958، 1977، 1993، 1999 میں بھی تاریخ پکارتی رہی کہ سیکھو، تاریخ ہمیں
سات سبق دے چکی ہے اور کتنی بار سکھائےگی، آئین پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملےگا۔
ان
کا کہنا تھا کہ ڈکٹیٹر آنے کے کچھ عرصے بعد سمجھتا ہےکہ وہ تو اصل میں جمہوریت
پسند ہے، ڈکٹیٹر ریفرنڈم کراتا ہے اور نتائج 98 فیصد تک پہنچ جاتے ہیں، ریفرنڈم
کےبرعکس پاکستان میں زور وشور سے ہونے والے الیکشن کے نتائج کبھی 60 فیصد سے زیادہ
نہیں آتے۔
سوموٹو کا اختیار چیف جسٹس کا نہیں سپریم کورٹ کا ہے، اور سپریم کورٹ کی تعریف آئین کے مطابق اس کے تمام ججز ہیں آئین صرف ایک شخص ( چیف جسٹس) کو یہ اختیار استعمال کرنے کا نہیں کہتا۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں 184 تین کا لفظ استعمال ہوا ہے سوموٹو کا نہیں، آرٹیکل 184 تین سپریم کورٹ کو شرائط کے ساتھ اختیار دیتا ہےکہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیےکوئی کام کیا جائے، 184 تین کی شق ان مظلوموں کے لیے رکھی گئی تھی جو عدالت تو دور وکیل تک نہیں پہنچ سکتے تھے،اس شق کا پاکستان میں بھرپور استعمال ہوا، کئی مرتبہ اچھی طرح اور کئی مرتبہ بہت بری طرح۔
قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ 184 تین کو کسی فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، اگر اس شق کا استعمال مفاد عامہ میں نہ ہو تو اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا، لازم ہے کہ اس شق کو استعمال میں لاتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھایا جائے، میری رائے کے مطابق 184 تین کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے، میرے دوستوں کی رائے ہےکہ سوموٹو کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، ایک رائے یہ بھی ہےکہ 184 تین کا استعمال ہو تو سپریم کورٹ کے تمام ججز اسے سنیں، شق بتادیں ، میری اصلاح ہوجائےگی میں آپ کےنظریہ پر چل سکوں گا۔
قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ مستقبل کی طرف دیکھتا ہوں، آئین کا بڑا حوصلہ ہے جس پر کئی بار وار کیےگئے لیکن وہ آج بھی ویسے ہی کھڑا ہے, بڑے وکیلوں کے دلوں میں آئین کی اتنی محبت نہیں کیونکہ ان کی جیبوں میں فیسیں جاتی ہیں، اگر فیصلہ غلط ہے تو غلط رہےگا، چاہے اکثریت کا فیصلہ ہو، نمبرگیم سے جھوٹ سچ میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔
ان
کا کہنا تھا کہ ہم پر آئین کا زیادہ بوجھ ہے، ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ آئین کا دفاع
اور حفاظت کریں گے، جب تک لوگ آئین کو نہیں سمجھیں گے اس کی قدر نہیں ہوگی، ظالم
کہتا ہے میری مرضی، آئین کہتا ہے لوگوں کی مرضی، زندہ معاشرے میں اختلاف رائے ہوتا
ہے، سب تائید میں سر ہلانا شروع کردیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہوجائےگی، طرح
طرح کے آرڈر جاری ہوتے ہیں، پتہ نہیں کسے بیوقوف بنا رہے ہیں۔
اس
کے بعد انا ہے، آپ کسی عہدے پر بیٹھے ہیں تو انا نہیں ہونی چاہیے، جس دن مجھ میں
انا آگئی میں جج نہیں رہوں گا، اختلاف سے انا کا تعلق نہیں ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آئین میں آرٹیکل 58 ٹوبی کی شق ڈالی کہ جب دل کرے منتخب حکومت کوبرطرف کرسکیں، 58 ٹوبی کا استعمال بھی کیا اور خود ہی کی منتخب جونیجو حکومت ختم کردی، 18 ویں ترمیم میں 58 ٹو بی کو ہٹایا، صوبوں کو اختیارات دیے گئے، اور 18 ویں ترمیم کے ذریعے آمرانہ ادوار کے تمام آئین شکن اقدامات کو ختم کر دیا اور اسطرح سے آئین کی اصل روح کو بحال کر دیا گیا۔"
ان تمام تاریخی حقائق کو عوام کے سامنے پیش کرنے پر قاضی فائز عیسٰی ہمیشہ مبارکباد کے مستحق رہیں گے۔
آخرکار تمام ریاستی اور استحصالی طبقات کی سازشوں کو اللہ سبحانہ و تعالٰی نے ناکام بنا دیا اور قاضی فائز عیسٰی نے17 ستمبر 2023 کو پاکستان کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ یہ ایک تاریخ ساز دن تھا کیونکہ ان سے پاکستان کے عوام اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والی قوتوں کو بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔
اگرچہ قاضی فائز عیسٰی کے چیف جسٹس بننے کے بعد انہوں نے عدلیہ میں اصلاحات کی ہیں مگر اس کو ناکام بنانے کیلئے عدلیہ میں موجود " کالے بھونڈوں " نے ان کا ناکام کرنے کے لئے سرگرم عمل رہے ہیں۔
اس
دوران انہوں نے سپریم کورٹ کی کارکردگی میں شفافیت لانے کے لیے متعدد اقدامات
آتھاے جن میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی بحالی کے ذریعے بنچوں کی تشکیل میں
سینئرترین ججز کی مشاورت اور پرانے زیر التوا کیسز کو میرٹ پر لگانے کے اقدامات
شامل تھے انہوں نے کورٹ روم 1 میں زیر سماعت عوامی اہمیت کے حامل کیسز کی براہ
راست کوریج شروع کی جس سے عوام کو ان کیسز کی نوعیت، اہمیت اور قانون کو سمجھنے
میں بہت مدد ملی اور اس کے دوران نام نہاد وکلاء چمبرز کے اہم نمائندوں کی قابلیت
اور قانون سے واقفیت کا بھی عوام کو علم ہوا۔
اس
دوران انہوں نے انتہائی اہم اور عرصہ دراز سے زیر التوا کیسز کو سماعت کے لیے مقرر
کر کے ان پر فیصلے سنائے۔ جن میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کے عدالتی قتل کا ریفرنس
اور ڈکٹیٹر مشرف کے خلاف بغاوت کا کیس انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
اس
دوران انہوں نے وکلاء چیمبرز مافیا اور عدالتی گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لئے مسلسل
سرگرم عمل رہے۔
انہوں
نے ہمیشہ وکلاء کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ کیس کی میرٹ پر بات کریں اور اپنے دلائل
کو آئین و قانون سے ثابت کریں ناکہ کورٹس کے پرانے فیصلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے۔
انہوں نے واضح کیا کہ کورٹس نے تو بہت سے فیصلے آئین اور قانون کے خلاف بھی کئے
ہیں اسلئے دلائل کا انحصار آئین و قانون کے تابع یقینی بنایا جائے ناکہ تاریخی
حوالہ جات سے۔
انہوں
نے بحیثیت جج حکومت سے پلاٹ لینے سے انکار کر دیا جبکہ عدلیہ کے ججز کی اکثریت نے
اسلام آباد اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں انتہائی قیمتی پلاٹس حاصل کئے ہیں اور
اکثر نے ایک سے زائد پلاٹ حاصل کر چکے ہیں جن کی مالیت اربوں روپے ہے اسطرح عوام
کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا ہے قاضی فائز عیسٰی نے واضح کیا کہ وہ حکومت سے
پلاٹ لینے کو ناجائز سمجھتے ہیں کیونکہ اس عہدے پر کام کرنے کے لیے ان کو عوام
تنخواہ اور دیگر مراعات فراہم کرتے ہیں۔
یہ
پلاٹ صرف ججز تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ اکثر سرکاری و نیم سرکاری اداروں اور
کارپوریشنز کے ملازمین حکومت سے قیمتی پلاٹ حاصل کرتے ہیں جو کہ عوام کے وسائل پر
کھلا ڈاکہ ہے اور اس سے عوام کے فلاح و بہبود پر خرچ کرنے والے اربوں روپے کے
وسائل چند لوگوں ہضم کر جاتے ہیں اس لئے پارلیمنٹ کو اس کو روکنے کے لیے قانون
سازی کرنا چاہیے۔
انہوں
نے سپریم کورٹ میں ایک تاریخی روایت کو قائم کیا اور اپنے اور اپنی فیملی کے اثاثہ
جات اور ذرائع کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کئے۔ معلوم نہیں کہ کسی اور نے
بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اور فیملی کے اثاثے پبلک کئے ہوں۔
اس
سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ مناسب قانون سازی کرے اور نہ صرف ججز بلکہ سرکاری
اور نیم سرکاری اداروں میں تعینات تمام افراد کے اثاثہ جات کو پبلک کرنے کا اہتمام
کیا جا سکے اور اسطرح سے کرپشن کو روکنے کا اہتمام کیا جا سکے۔
یہ ہمارے نظام انصاف میں انتہائی انقلابی تبدیلی کی طرف اشارہ تھا جس سے خوفزدہ ہو کر وکلاء چمبرز مافیا اور عدلیہ کے " کالے بھونڈوں " کے گٹھ جوڑ نے ان کو ناکام بنانے کیلئے دوبارہ سے سرگرم ہو گئے۔
اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ "کالے بھونڈوں" کی اکثریت عدلیہ میں تعیناتی کا عمل کیسے ہوتا ہے تو اس کے لیے پاکستان کے عدالتی نظام کو دیکھنے کی ضرورت ہے جہاں پر اعلی عدلیہ میں تعیناتی کا کوئی خاطر خواہ معیار نہیں ہے اور مختلف وکلاء کے چمبرز اس نظام میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں جن کے افراد ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں تعینات ہوتے آ رہے ہیں اور اس میں کلیدی کردار ججز کا ہی ہے اسطرح سے عدلیہ میں ججز ہی خود کو تعینات کرتے چلے آ رہے ہیں اور اس میں پارلیمنٹ کی کوئی ہمیت نہیں ہے اور نہ ہی اس تعیناتی میں کوئی شفافیت ہوتی ہے۔
بلکہ مختلف چیمبز ملکر اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مستقبل میں ہمیشہ ہی ان کے لوگ چیف جسٹس کے عہدوں پر براجمان رہیں تاکہ وہ عدلیہ میں اپنی من مانی کرتے رہیں۔
ان وکلاء چیمبز کی اکثریت نے ہمیشہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر کام کرنے کو ترجیح دی ہے اور انہوں نے عوام کو انصاف کے حصول سے محروم رکھا ہے۔
آج چالیس لاکھ سے زائد کیسز کے زیر التوا اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ عدلیہ اپنے بنیادی مقصد میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
اگر ان وکلاء چیمبز کا جائزہ لیا جائے تو ان کی آمدن کروڑوں میں ہے جو کہ ڈکلیر ہے ورنہ یہ اربوں میں ہے۔
یہ حکومت کو مالی نقصان پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے کھربوں روپے کے ٹیکس کیسز عدالتوں میں زیر التوا رکھنے میں اب وکلاء چیمبرز اور عدلیہ میں موجود " کالے بھونڈوں " کا گٹھ جوڑ مکمل طور پر عیاں ہے۔
اس
کا اندازہ ماضی قریب میں جو آڈیوز سامنے آئی تھیں ان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس
میں بیرسٹر عابد زبیری سیاسی کیس کو ایک مخصوص جج کے پاس لگانے کا کہہ رہے تھے اور
دوسری میں چوہدری پرویز الٰہی جسٹس مظاہر علی نقوی کو ٹرک ( ایک ارب روپے) پہنچانے
کا کہہ رہے تھے۔
بہرکیف
ان تمام نامساعد حالات میں قاضی فائز عیسٰی نے عدلیہ میں موجود ایماندار ججز کی
مدد سے سپریم کورٹ میں اصلاحات کو آگے بڑھانے کا کام سرانجام دیتے رہے اور آج جب
وہ اپنی اننگز ختم کر کے ریٹائرڈ ہو رہے ہیں تو عوام ان کی رخصتی پر دل افسردہ ہیں
کیونکہ اس قسم کے ایماندار، نڈر اور آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے
لوگ بہت کم ہی نظر آتے ہیں۔
بہرکیف
حالیہ دنوں میں 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی اصلاحات کا آغاز بھی ہو چکا ہے
اور اب نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو اس سمت میں آگے بڑھنے میں آسانی ہو گی اور
یوں قاضی فائز عیسٰی نے عدلیہ میں شفافیت لانے کا جو کام شروع کیا تھا وہ وقت کے
ساتھ ساتھ مزید تقویت حاصل کرے گا اور عوام کو انصاف کی جلد فراہمی کے ایجنڈے کو
کامیابی سے ہمکنار کرنے کا ذریعہ بنےگا۔۔
آخر
میں عوامی حلقوں سے اپیل ہے کہ وہ حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ قاضی فائز عیسٰی سے
درخکرے اور ان کی خدمات کو ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے لیے استعمال کرنے
کا اہتمام کرے۔

0 Comments