ریاست جموں و کشمیر میں مزاحمت اور آزادی کی تحریک کی
تاریخ بہت پرانی ہے اور اس کا آغاز انگریزوں کے قبضہ کے بعد ہی سے ہو گیا تھا جب
16مارچ 1846ء کو بدنام زمانہ معاہدہ امرتسر کے تحت 75لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض
کشمیر کو انگریزوں نے اپنے ایک وفادار گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا۔
اس غیر انسانی معاہدہ کے تحت جموں و کشمیر کا پورا علاقہ ، اس کی تمام آبادی اور
وسائل گلاب سنگھ ڈوگرہ کے حوالے کر دیے گئے۔ ڈوگرہ حکمران انگریزوں سے بڑھ کر
مسلمانوں سے تعصب برتتے تھے ۔ مسلمانوں سے ان کی نفرت اور تعصب کی انتہا یہ تھی کہ
کسی مسلمان کو دوپہر سے قبل کسی ڈوگرہ حکمران کے سامنے جانے کی اجازت نہیں تھی
کیونکہ وہ دوپہر سے پہلے کسی مسلمان کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے ڈوگرہ
حکمرانوں کی یہی دشمنی اسلام سے بھی تھی ۔ انھوں نے مساجد کو گھوڑوں کے اصطبلوں
اور بارود خانوں میں میں بدل دیا تھا ۔ مسلمانوں کو اذان دینے اور جمعہ و عیدین کا
خطبہ پڑھنے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔
مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور مظالم کے خلاف
آواز اٹھانے پر ڈوگرہ حکمرانوں نے پونچھ کے مسلمان لیڈروں سردار سبز علی خان اور
ملی خان کی زندہ کھالیں اُتروالیں ۔ ان مظالم کے خلاف اہل کشمیر میں بیداری کی لہر
پیدا ہوئی اور وہ منظم ہونا شروع ہوئے ۔ رفتہ رفتہ کئی تنظیمیں وجود میں آگئیں۔
1931ء میں بریلی میں ایک مسجد کو شہید کر دیا گیا
اور انہی دنوں پولیس کے ایک اہلکار نے جان بوجھ کر قرآن کی بے حرمتی کی جس کے بعد
مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور مسلمان مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر
احتجاج کرنا شروع کیا ۔ پولیس نے بہت سے مظاہرین کو گرفتار کر لیا ۔ 13 جولائی
1931ء کو جب ان کو عدالت میں پیش کیا گیا تو بڑی تعداد میں مسلمانوں نے جمع ہو کر
عدالتی کارروائی سننے کا مطالبہ کیا ، پولیس نے ان نہتے مسلمانوں پر بے دریغ
گولیاں چلائیں جس کے نتیجہ میں 27 افراد شہید اور بے شمار زخمی ہوئے ۔ مسلمانوں پر
بے دریغ مظالم کی خبریں جب ہندوستان میں پھیلنے لگیں تومسلمانوں میں اپنے مستقبل
کے حوالے سے تشویش پیدا ہوئی ۔ انہی حالات کے باعث کشمیر کے مسلمانوں میں اتحاد کی
فضا ابھری اور 14/اگست1931ء کو پہلی بار جموں میں کشمیر ڈے منایا گیا۔اکتوبر1931ء
میں پورے پنجاب میں ’’چلو چلو کشمیر چلو‘‘ کی صدائیں گونجنے لگیں۔ اس موقع پر
برطانوی حکومت نے مداخلت کی اور ڈوگرہ راج کے مظالم کو روکنے کا کہا گیا۔
اس زمانہ میں ایک طرف کشمیر میں ڈوگرہ حکمرانوں سے نجات
کی تحریک مسلمانوں میں پیدا ہورہی تھی اور دوسری طرف ہندوستان بھر میں تحریک آزادی
کو ایک نیا رخ اختیار کر چکی تھی۔
پاکستان کے قیام کی بنیاد دو قومی نظریہ کی
تجدید کرتے ہوئے قرآن کے عظیم مفکر علامہ اقبال نے رکھی۔ انہوں نے دسمبر 1930 میں
مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپنے خطاب میں " دو قومی نظریہ
" کا تصور پیش کیا اور مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں/ریاستوں پر مشتمل ایک الگ
وطن کا مطالبہ کیا۔
اس وقت جب کہ پوری ملت اسلامیہ پر شکست اور غلامی
میں جکڑی ہوی تھی اور زمین کے کسی بھی علاقے میں اسلام کا نظام نافذ نہ تھا جس کی
وجہ سے دین اسلام کا تصور مکمل طور پر ختم ہو گیا تھا اور مسلمانوں میں ذہنی غلامی
اور پسماندگی سرایت کر چکی تھی۔ اور پوری دنیا میں دین اسلام مکمل طور پر مغلوب ہو
چکا تھا مسلمانوں میں اسلام کا تصور صرف ایک مذہبی عبادات اور رسومات تک محدود ہو
کر رہ گیا تھا۔ اس وقت علامہ اقبال کو اللّٰہ سبحانہ و تعالٰی نے یہ صلاحیت عطا کی
کہ وہ مسلمانوں کو دوبارہ سے بھولا ہوا سبق یاد دلا کر ان میں دوبارہ سے اسلام کی
عظمت کو بحال کرنے کا عزم پیدا کریں
انہوں نے دنیا میں احیاء اسلام کے لیے پاکستان کا تصور
بطور صدر مسلم لیگ پیش کیا۔ جس کے مطابق اس نئی مسلم مملکت پاکستان جو کہ ہندوستان
کے اکثریتی مسلم آبادی والے صوبوں و ریاستوں پر مشتمل ہو گی اس میں اسلام کا مکمل
طور پر نفاذ کرنے کا موقع ملے گا اور اس طرح اسلام کے حقیقی تصور جو کہ خلافت
راشدہ کا ماڈل ہو گا وہ پوری دنیا کے لیے ایک واضح پیغام ہو گا کہ تمام دنیا اس
نظام کے ثمرات کو دیکھے اور اس طرح سے دنیا اسلام کی طرف مائل ہو جائے گی۔اور
آہستہ آہستہ دین اسلام دنیا بھر میں نافذ ہونے کا ذریعہ بنے گا۔ اقبال نے اس کام
کی تکمیل کے لیے قائداعظم کو قائل کیا۔ اور قائداعظم جو کہ مسلم لیگ کے رہنماؤں کے
رویے سے مایوس ہو کر لندن جا چکے تھے۔ ان کو علامہ اقبال نے قائل کیا کہ وہ
ہندوستان واپس جا کر پاکستان کے قیام کی جدوجہد کریں اسطرح سے اللہ سبحانہ و
تعالٰی کی حکمت عملی سے وہ واپس ہندوستان آئے اور پاکستان کی تخلیق کے لیے انتہائی
محنت کی اور قیام پاکستان کو مکمل اور صرف اور صرف دین اسلام کے بنیادی مقاصد سے
منسلک کر دیا۔ اس تحریک نے بہت جلد اپنی اہمیت کو اجاگر کر دیا اور اب پاکستان کے
قیام اوردین اسلام کے نفاذ کا نعرہ ایک مکمل تصور بن کر ہر جگہ پر اس طرح سے چھا
گیا۔
1930ء سے 1932ء تک لندن میں گول میز کانفرنسیں ہوئیں جن
میں متحدہ ہندوستان کے آئین پر اتفاق رائے ہوا مگر چوہدری رحمت علیؒ نے متحدہ
ہندوستان کے فارمولے کو مسلمانان ِ ہند کے لیے Death
warrantقرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا۔
اور اس کے مقابلے میں "پاکستان" کے نام
سے ایک مسلم ریاست کا مطالبہ 28جنوری 1933ء کو اپنے تاریخی ڈکلیریشن Now
or Neverکے ذریعے پیش کر دیا ۔ چوہدری رحمت علیؒ کے
مطابق لفظ پاکستان میں "ک " کشمیر کی نمائندگی کرتا تھا ۔
اس کے بعد برصغیر میں جوں جوں مطالبہ ٔپاکستان
زور پکڑتا گیا کشمیر میں بھی آزادی اور پاکستان میں شمولیت کی تحریک مقبول ہونے
لگی ۔ انھی دنوں 1933ء میں سرینگر پتھر مسجد میں جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی
بنیاد رکھی گئی۔ ان تحریکوں کے باعث مسلمانوں میں تحریک آزادی کا جوش و ولولہ بڑھ
رہا تھا اور وہ اس کے لیے منظم ہو رہے تھے ۔ دوسری طرف اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے
والا ہندو طبقہ پورے ہندوستان کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا تھا ۔ کشمیر میں بدلتے
ہوئے حالات دیکھ کر انھوں نے بھی ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ
کو کشمیر میں دعوت دی کہ وہ یہاں اپنے اڈے قائم کرے۔ چنانچہ 1934ء میں آر ایس ایس
نے اپنا کام شروع کر دیا اور جابجا اس تنظیم کے مراکز کھل گئے۔ یہ مراکز بظاہر
ورزش گاہ اور اکھاڑے کی مانند تھے کہ جہاں ہندو نوجوان جسمانی ورزشیں کرتے تھے
لیکن درحقیقت یہ ریاست کی ہندو اقلیت کو مسلمانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے جنگی
تربیت فراہم کرنے کے مراکز تھے۔ یہی مراکز بعد ازاں مسلمانوں کے خلاف منظم مظالم
اور قتل عام کے لیے استعمال کیے گئے۔
ریاست جموں و کشمیر کی 80 فیصد آبادی مسلمانوں
پر مشتمل تھی۔اس کی 600میل لمبی سرحدپاکستان سے ملتی تھی۔ ریاست کی واحد ریلوے
لائن سیالکوٹ سے گزرتی تھی اور بیرونی دنیا کے ساتھ ڈاک اور تار کا نظام بھی
پاکستان سے جڑا تھا۔ ریاست کی دونوں پختہ سڑکیں راولپنڈی اور سیالکوٹ سے گزرتی
تھیں۔پھر یہ کہ پاکستان ڈکلیریشن 1933ء میں کشمیر کو پاکستان کا لازمی حصہ ظاہر
کیا گیاتھا جس کے بغیر پاکستان نامکمل تھا اور کشمیری مسلمانوں نے بھی نظریہ
پاکستان کو دل سے قبول کر لیا تھا ۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر اہل کشمیر کی اکثریت
پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتی تھی۔ لیکن انگریزوں اور کانگریس کی ملی بھگت سے
کشمیر کو اس کے عوام کی اکثریت کی خواہش کے برعکس بھارت میں شامل کر دیا گیا۔ اس
ناانصافی پر کشمیر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور بھارت سے آزادی اور پاکستان سے
الحاق کی تحریکوں نے زور پکڑا شروع کر دیا۔
19 جولائی 1947 کو سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ
پر کشمیریوں نے پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کی، قرارداد میں ریاست جموں و
کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کیا گیا تھا، قرارداد میں کشمیر کی
پاکستان سے مذہبی، جغرافیائی، ثقافتی اور اقتصادی قربت کو مدنظر رکھا گیا تھا۔
کشمیری عوام کی امنگوں کے برعکس مہاراجہ ہری سنگھ نے
عوامی مطالبات نظر انداز کئے، کشمیریوں کو خدشہ تھا کہ مہاراجہ ہندوستان سے الحاق
کر رہا ہے، اسی تناظر میں پشتون قبائلی 22 اکتوبر 1947 کو کشمیری بھائیوں کی مدد
کے لئے کشمیر میں داخل ہوئے اور آزاد کشمیر کے بڑے علاقے کو آزاد کروانے میں
کامیاب ہوئے۔
27 اکتوبر 1947 کو ہندوستان نے سری نگر میں
اپنی فوج اتاری، اس دن کو کشمیر میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے، یہ دن
بھارتی افواج کے جبر کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔
پاکستانی فوج نے آزاد جموں و کشمیر کو بھارت سے محفوظ
بنایا، اسی دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہوئی، دسمبر 1947 میں نہرو
نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رابطہ کیا اور اقوام متحدہ نے 1948 میں جنگ
بندی اور رائے شماری کی قراردادیں منظور کیں تاکہ کشمیری عوام اپنے ووٹ سے فیصلہ
کر سکیں لیکن بھارت نے آج تک رائے شماری نہیں کروائی۔
کشمیر کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان متعدد
جنگیں ہوتی رہی ہیں اور اس کے مسئلے کا حل ہی خطے میں امن و امان کی ضمانت ہو سکتا
ہے اور حالیہ بھارتی جارحیت کا پاکستان نے منہ توڑ جواب دیتا ہوئے بھارت کو تاریخی
شکست سے دوچار کیا ہے۔
اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے اقوام متحدہ کی 21
اہریل 1948 کی قرارداد دونوں فریقین نے تسلیم کی ہے جس کی رو سے کشمیر کے مستقبل
کا فیصلہ کشمیر کے عوام کی مرضی سے کیا جانا ہے اور اس کے لیے اقوام متحدہ کے
کمیشن کے زیر انتظام استصواب رائے کا بندوبست ہونا ہے۔ لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اور
توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے کشمیر میں استصواب رائے کی قرارداد پر عملدرآمد
نہیں ہو سکا بلکہ اس کے برعکس بھارت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کا غیر قانونی
اقدام کا ارتکاب بھی کیا ہے۔
ان حالات میں کشمیر میں شروع دن سے بھارت کی آزادی کی
تحریک چل رہی ہے اور اس میں عظیم قربانیاں دی گئی ہیں اس جدوجہد میں آزادی کے عظیم
رہنماؤں میں سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ مولوی محمد فاروق، خواجہ عبدالغنی لون،
سردار ابراہیم، سردار قیوم، کے ایچ خورشید، محمد افضل گورو، چوہدری غلام عباس، حیب
اللہ شاہ ضیاء شورش جبالی،شبیر احمد شاہ، مقبول بٹ، برہان وانی، یاسین ملک و دیگر
سینکڑوں رہنماؤں اور لاکھوں لوگوں شامل ہیں۔ ہزاروں نوجوانوں، بزرگوں، عورتوں اور
بچوں نے اس عظیم جدوجہد میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا ہے۔
بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کیا
اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو چھین لیا، کشمیریوں پر جبر اور بربریت کی انتہا
کردی، بھارتی مظالم نے کشمیری نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا اور 1989
میں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کا آغاز ہوا۔
5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کیا،یہ آرٹیکلز کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتے تھے،تین سال
گزرنے کے بعد بھی بھارت نتائج سنبھالنے میں ناکام رہا ہے،کشمیری آزادی کے حصول کے
لئے بے تاب ہیں اور اسی جدوجہد کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے بھارتی فوج نے کشمیریوں
پر مظالم مزید تیز کر دیئے ہیں۔
بھارتی فو ج نے کشمیریوں کی زندگیوں کو اذیت ناک بنا
رکھا ہے، بھارت نے کشمیر میں تقریباً ایک ملین فوجی تعینات کئے.بھارت کا 27 اکتوبر 1947 کا خواب ابھی
ختم نہیں ہوا،مقبوضہ کشمیر میں انتخابات 2024 بھارتی حکومت کے غیر قانونی اقدامات
کا حصہ ہیں، حالیہ انتخابی عمل اسی مکروہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔
مسئلہ کشمیر کا واحد قابل قبول حل اقوام متحدہ کی زیر
نگرانی رائے شماری ہے لیکن ہندو کشمیر کی قانونی حیثیت کو ختم کے درپے ہیں،
تقریباً ایک ملین سکیورٹی فورسز کے زیر سایہ انتخابات دراصل فوجی مشق کا تاثر دے
رہے ہیں۔
آج اس موقع پر پوری دنیا کے جمہوریت، مساوات اور آزادی
پر یقین رکھنے والے ممالک، تنظیمیں اورعوام کشمیری عوام سے مکمل یکجہتی کا اظہار
کرتے ہیں اور ان کی بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی پر یقین ہے کی جلد ہی کشمیری عوام
اپنے بنیادی حقوق کی جدوجہد میں کامیاب ہوں گے اور بھارت کے تسلط سے آزادی حاصل کے
کے پاکستان کا حصہ بنیں گے اور اسطرح تکمیل پاکستان کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک
پہنچایا جا سکے گا۔ ان شاءاللہ

0 Comments