Header Ads Widget

عمران خان کے لانگ مارچ کا آغاز اور سیاسی صورتحال Start of Imran Khan's Long March and Political Situation

 

ماضی کے جھروکوں سے تین برس قبل لکھا گیا مضمون اکتوبر 28، 2022

تحریر: ممتاز ہاشمی 

 اگرچہ لانگ مارچ کا آخرکار آغاز ہو ہی گیا جس کا بہت عرصے سے شور مچا ہو تھا اور جس کو کوئی انوکھی اور منفرد تحریک کا نام دیا جاتا رہا تھا اس کے آغاز اور اس کے پہلے دن پر بات کرنے سے پہلے ان سیاسی حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو معروضی طور پر پیدا ہو چکی ہے۔

کل ہی پاکستان کی تاریخ کی ایک انتہائی اہم پریس کانفرنس ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کی گئی اور اس میں گزشتہ چند ماہ سے جاری حالات کا ذکر کیا گیا جن میں عمران خان کے مسلسل ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر الزامات کا انتہائی بھرپور طور پر جواب دیا گیا۔

اگرچہ چند لوگوں کی طرف سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اس پریس کانفرنس کرنے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح سے عمران خان نے اقتدار سے آئینی طور پر علیحدگی کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مہم جوئی شروع کئی اور اس میں کوئی کمی نہیں کی باوجود اس کے کہ وہ اس دوران بھی ان سے مذاکرات بھی کرتے رہے تھے۔ دوسری طرف سیاسی حکومت نے اپنے طور پر عمران خان کو جواب دیئے مگر انہوں نے بھی اس بات کا ادراک کرتے ہوئے کہ عمران خان کو مسلط بھی اسٹیبلشمنٹ نے کیا ہے اسلئے ان ہی کو اس کا جواب دینے کے لئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور دوسری وجہ نواز شریف کا اہم مطالبہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی اس غلطی کا اعتراف دنیا کے سامنے خود کرے اور آئندہ سیاسی معاملات سے علیحدگی اور اپنے آپ کو صرف اپنے آئینی کردار تک محدود رکھنے کا اعلان بھی خود ہی کریں۔ اس تناظر میں یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک انتہائی اہمیت کا حامل ہے 

اس پریس کانفرنس میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے واضح طور پر اس بات کا اعلان کیا کہ مارچ میں جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوی تو عمران خان نے آرمی چیف کو پیشکش کی کہ وہ اس تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے سیاسی کردار ادا کریں اور اس کے بدلے وہ ان کو تاحیات آرمی چیف کے عہدے پر رہنے کیلئے تیار ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا انکشاف تھا اور اس پر ہر ایک کو انتہائی حیرت ہوئی تھی کہ کسطرح عمران خان جھوٹ بول کو عوام کو بے وقوف بنا رہا تھا اور اندرون خانہ غیر قانونی اور غیر آئینی سازشیں کرنے میں مصروف تھا 

اس بات کو جانتے ہوئے کہ جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اتنی بڑی بات دنیا کے سامنے کئی ہے تو ضرور ان کے پاس اس کے ناقابل تردید ثبوت بھی موجود ہوں گے اسلئے عمران خان کو مجبوراً اس الزام کو تسلیم کرنا پڑا۔ یہ ایک واقعہ ہی عمران خان کے تمام بیانیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکا ہے اور اب اسے کے لیے مزید عوام کو بے وقوف بنانے میں کامیابی کا امکان بہت ہی کم ہے۔

آج جس لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا تھا اس میں شرکاء کی تعداد اندازوں سے کافی حد تک کم یا مایوسی کن تھی جس کی بناء پر اس کے آغاز میں غیر معمولی تاخیر ہوئی اور مختلف طریقوں سے اجتماع کو بڑھانے کی کوششیں کی گئیں اس سلسلے میں صوبائی حکومت اور شہری حکومت کے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور مختلف علاقوں میں روڈ کو بند کئے گئے تاکہ لانگ مارچ کے علاقے سے منسلک سڑکوں پر گاڑیوں کی زیادہ تعداد دکھائی دے۔

بہرکیف ان تمام کوششوں کے باوجود عوام کی شمولیت مایوس کن تھی اور کئی گھنٹوں کے بعد اس کا آغاز مجبوراً کرنا پڑا۔ اس مایوس کن کارکردگی اور عوام کی عدم دلچسپی کا اظہار پی ٹی آئی نے مارچ کے آغاز پر ہی دیکھنے میں آیا جب پروگرام کے برخلاف اج رات کا پڑاو شاہدرہ کے بجائے آزادی چوک پر رات گزارنے کا اعلان کیا گیا اور یہ مایوس کن صورتحال پی ٹی آئی کے لیڈروں کے درمیان آپس میں ہونے والی تلخ کلامی جو عمران خان کی موجودگی میں کنٹینر کے اوپر ہوئی اور جس کو ٹی وی چینلز نے بھی دکھایا۔

اس کے بعد لانگ مارچ لاہور کے چند علاقوں سے ہوتا ہوا جب داتا دربار پر پہنچا تو حیرت انگیز طور پر عمران خان اسی جگہ پر آج کے لانگ مارچ کے خاتمے کا اعلان کر دیا اور تمام لوگ واپس گھروں کو واپس لوٹ گئے۔ اور ان کو آج رات آزادی چوک میں پڑاو ڈالنے کا اعلان بھی منسوخ کرنا پڑا۔

اب یہ اعلان کیا گیا ہے کہ کل لانگ مارچ کا آغاز شاہدرہ سے کیا جائے گا جو کہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ لانگ مارچ تو داتا دربار پر ختم ہو چکا ہے اور اس نے اپنا سفر شاہدہ تک کیا ہی نہیں۔ اسلئے اس کو لانگ مارچ کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس کو لاہور کے کچھ علاقوں کی ریلی کہنا مناسب ہوگا۔

ماضی قریب میں ہونے والے مختلف سیاسی جماعتوں کے لانگ مارچ کا جائزہ لیں تو یہ واضح فرق نظر آتا ہے کیونکہ ماضی قریب میں پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور مسلم لیگ کے ہونے والے والے لانگ مارچ میں تسلسل تھا اور شرکاء رات مختلف شہروں میں بسر کرتے ہوئے دوسرے دن اسی جگہ سے اگلی منزل کو روانہ ہوتا تھا۔

جہاں تک عوام کی تعداد جو اس نام نہاد لانگ مارچ میں شامل ہوئی تمام تر محتاط اندازوں کے مطابق دس سے پندرہ ہزار افراد تک تھی جو کہ واقعی انتہائی مایوس کن ہے۔

دراصل اس کو شاہدرہ تک نہ جانے کی اصل وجہ عوام کی کافی حد تک کمی تھی کیونکہ اگر اس لانگ مارچ کو لاہور سے باہر نکل کر شاہدرہ جاتا تو اس کی اصل حقیقت سب کو نظر آجاتی۔ اسلئے خفت اور شرمندگی سے بچنے کے لیے اس کو لاہور کے سب سے مصروف جگہ داتا دربار پر جہاں پر جمعہ کی رات کو ہزاروں افراد کا اجتماع ہمیشہ سے ہوتا ہے وہاں پر ہی خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔

اب اگلے دنوں میں اس لانگ مارچ میں عوام کو شامل کرنے کے لئے کیا اقدامات پی ٹی آئی کرتی ہے ان کا سب کو انتظار رہے گا۔

 

 

Post a Comment

0 Comments