Header Ads Widget

استنبول مذاکرات کی ناکامی: پاک۔افغان تعلقات نئے موڑ پر Failure of Pak Afgha Dialogue - New Turn of Relations


 


افغان طالبان کی ہٹ دھرمی یا بھارت کی پراکسی؟ — پاکستان کا صبر آخر کب تک؟

اشراق احمد ہاشمی

تاریخی پس منظر:

دنیا اب بخوبی جان چکی ہے کہ افغانستان میں کوئی خالص اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی، جسے خلافت کا نام دیا جا سکے۔ وہاں درحقیقت اسلام کے نام پر چند خاندانوں کی حکومت ہے جو اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ خواتین کے حقوق آج بھی نہایت محدود ہیں، اور طرزِ فکر اب بھی پتھروں کے دور کی یاد دلاتا ہے۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ جن افغانیوں کو پاکستان نے برسوں تک اپنے گھروں میں جگہ دی، انہیں کھانا، پناہ، روزگار اور شہریت فراہم کی — وہی لوگ واپس جاتے ہی پاکستان کے مخالف بن گئے۔ جس ملک نے روس اور نیٹو افواج کے خلاف انہیں مسلمان بھائی سمجھ کر اندھا اعتماد دیا، آج وہی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

اب "گڈ طالبان" اور "بیڈ طالبان" کا فرق بھی مٹ چکا ہے۔ یہ نمک حرامی اور احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے جس کی نظیر تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔انگلش محاورہ:

“Don’t bite the hand that feeds you.”

(یعنی "جس ہاتھ نے تمہیں کھانا دیا، اُسی کو مت کاٹو۔")

کہتے ہیں:

 “Ingratitude is treason to mankind.” — James Thomson
(ناشکری انسانیت کے خلاف بغاوت ہے۔)

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ تضادات، غلط فہمیوں اور موقع پرستی کے گرد گھومتے رہے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے دونوں ہمسایہ ممالک ہیں، مذہبی لحاظ سے ایک ہی دین کے پیروکار، اور ثقافتی طور پر ایک دوسرے کے قریبی معاشرے۔ مگر ان کے درمیان ہمیشہ ایک "اعتماد کا خلا" برقرار رہا ہے — ایسا خلا جو کبھی مکمل طور پر پُر نہیں ہو سکا۔

1947 میں پاکستان کے قیام کے فوراً بعد کابل نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں شمولیت کے خلاف ووٹ دیا۔ وہ لمحہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی پہلی دراڑ بن گیا۔ بعد ازاں 1980 کی دہائی میں سوویت افواج کے خلاف افغان جہاد میں پاکستان نے لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی، مالی و عسکری مدد فراہم کی، لیکن اسی دوران سرحد کے آر پار اسلحہ، انتہا پسندی اور مسلح گروہ بھی پھیل گئے۔
2001 
کے بعد جب طالبان حکومت گرائی گئی تو پاکستان نے عالمی برادری کے ساتھ تعاون کیا، مگر اس کے بدلے خود دہشت گردی کی زد میں آگیا۔ یہی وہ دہائی تھی جس میں "ٹی ٹی پی" جیسی تنظیموں نے جنم لیا — جن کی جڑیں سرحد کے اُس پار پائی گئیں۔

ماہرین کے مطابق یہ سب واقعات ایک مشترکہ مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں — اعتماد کی کمی۔ جیسا کہ معروف سفارتی ماہر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں:

افغانستان کے ساتھ پاکستان کا مسئلہ سیاسی نہیں، نفسیاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، اور یہی شک ہر بحران کی جڑ ہے۔

استنبول مذاکرات: ناکامی کی نئی داستان

اکتوبر 2025 میں استنبول کے پُرسکون سفارتی ماحول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان چار روزہ مذاکرات ہوئے۔ مقصد ایک ہی تھا: سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو روکنا اور امن کا کوئی پائیدار راستہ نکالنا۔ مگر چار دن کے بعد مذاکرات ختم ہوگئے — بغیر کسی نتیجے کے۔

پاکستان کے وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک تفصیلی بیان میں کہا:
افغان طالبان مسلسل الزام تراشی اور ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ ٹھوس شواہد کے باوجود انہوں نے سرحد پار دہشت گردی روکنے کی کوئی ضمانت نہیں دی۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا واحد ایجنڈا افغان سرزمین سے پاکستان پر حملوں کا خاتمہ تھا، لیکن طالبان اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔

پاکستانی وفد کے مطابق طالبان نے ہر بار “مزید مشاورت” کا بہانہ بنایا، اور اپنے مؤقف میں بار بار تبدیلیاں کیں۔ یہی رویہ مذاکرات کی ناکامی کا سبب بنا۔ تاہم ثالثی کرنے والے ممالک — ترکی، قطر اور سعودی عرب — اب بھی کوشش کر رہے ہیں کہ فریقین دوبارہ بات چیت کی میز پر آئیں۔

افغان مؤقف: خاموشی یا حکمتِ عملی؟

افغان طالبان کے سرکاری ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مذاکرات کی ناکامی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ “کچھ اختلافات باقی ہیں، لیکن بات چیت کے دروازے بند نہیں کیے جا سکتے۔
تاہم افغان ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت پاکستان کے “یکطرفہ مطالبات” سے ناخوش ہے۔ اُن کے مطابق پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کھلی کارروائی کریں — مگر کابل سمجھتا ہے کہ ایسا کرنے سے داخلی بغاوت بھڑک سکتی ہے۔

اسلامی امارت افغانستان کے قطر میں موجود سیاسی دفتر کے ایک نمائندے نے بی بی سی کو بتایا:
ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہو۔ پاکستان کو ہمارے حالات کا ادراک ہونا چاہیے۔

یہ موقف دراصل طالبان حکومت کے کمزور اقتدار کی علامت ہے۔ افغانستان میں مختلف عسکری دھڑوں کے درمیان طاقت کی کشمکش جاری ہے۔ طالبان کی حکومت اگرچہ ظاہری طور پر متحد نظر آتی ہے، لیکن اندرونی اختلافات روز بروز گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔

پاکستان کا ردِعمل: "اب مزید برداشت نہیں ہوگا"

وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا:
ہم نے ان کی دھوکہ دہی بہت عرصے تک برداشت کی ہے، لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو تورا بورا کے مناظر دہرا سکتے ہیں۔

اُنہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کو اپنی پوری فوجی طاقت استعمال کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن اگر افغان سرزمین سے دہشت گردی جاری رہی تو "جوابی اقدامات" ناگزیر ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ “افغان طالبان اپنی معیشت جنگ اور خونریزی پر قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے بیانات ان کی بدنیت سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔

وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے بھی اس مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اب کسی بھی قیمت پر اپنے شہریوں کو دہشت گردی کا شکار نہیں ہونے دے گا۔

“No nation can afford endless patience when its people are bleeding.” — (Statement by a Pakistani official)

بھارت کا کردار اور خطے کی پراکسی جنگ

پاکستان کے مطابق بھارت ایک بار پھر افغان سرزمین کو اپنی پراکسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ کابل اور دہلی کے درمیان بڑھتے سفارتی تعلقات، افغان وزیرِ خارجہ امیر متقی کا بھارت کا دورہ، اور وہاں کے انٹیلیجنس روابط — یہ سب پاکستان کے خدشات کو تقویت دیتے ہیں۔

ایک سینیئر دفاعی تجزیہ کار کے مطابق:

بھارت براہِ راست پاکستان سے نہیں لڑ سکتا، اس لیے وہ افغان سرزمین کے ذریعے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ چلا رہا ہے۔ یہ وہی حکمتِ عملی ہے جو اس نے 1970 کی دہائی میں مشرقی پاکستان کے وقت استعمال کی تھی۔

پاکستان نے یہ مؤقف اقوام متحدہ، شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اور او آئی سی کے اجلاسوں میں بھی بارہا پیش کیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گرد گروہوں کے لیے پناہ گاہ بن چکی ہے، اور اس کے تدارک کے لیے عالمی دباؤ ضروری ہے۔

افغان کمزوری اور داخلی بحران

طالبان حکومت اس وقت معاشی بحران، عالمی تنہائی، خواتین کی تعلیم پر پابندی اور اندرونی اختلافات جیسے مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ عالمی برادری ابھی تک طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم نہیں کر سکی۔
ایسے میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی افغانستان کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگی۔ دفاعی ماہرین کے مطابق افغانستان کی فوجی طاقت محدود ہے۔ وہ گوریلا جنگ تو لڑ سکتا ہے مگر کسی باقاعدہ فوج کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔

“Afghanistan can fight a guerrilla war, not a conventional one.” — (Defense Expert, Islamabad Policy Institute)

پاکستانی افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور تکنیکی برتری دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہے۔ ماضی میں جب بھی سرحدی جھڑپیں ہوئیں، پاکستان نے عسکری لحاظ سے واضح برتری دکھائی۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان کے لیے طویل تصادم کسی طور فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔

بین الاقوامی ردِعمل

استنبول مذاکرات کی ناکامی پر ترکی اور قطر نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ترک دفترِ خارجہ نے بیان دیا کہ “دونوں برادر ممالک کو بات چیت جاری رکھنی چاہیے، کیونکہ عسکری تصادم خطے کے امن کو تباہ کر دے گا۔
اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ “افغان سرزمین کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے، اور تمام ممالک کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔

امریکہ نے بھی محتاط ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ “ہم پاکستان کے سلامتی کے خدشات کو سمجھتے ہیں، لیکن ہم فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

یہ ردِعمل ظاہر کرتا ہے کہ عالمی سطح پر بھی افغانستان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے۔

پاکستان کی نئی پالیسی: فیصلہ کن اقدامات

پاکستان نے اپنی حالیہ پالیسی میں یہ طے کر لیا ہے کہ وہ دہشت گردی کو ہر قیمت پر ختم کرے گا۔ غیر قانونی افغان شہریوں کی وطن واپسی اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ حکام کے مطابق ہزاروں ایسے افراد کی نشاندہی کی گئی ہے جو دہشت گرد گروہوں کے لیے سہولت کاری میں ملوث تھے۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق اب “برداشت کی پالیسی ختم” ہو چکی ہے۔

یہ اقدامات نہ صرف پاکستان کی سلامتی بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے ضروری ہیں۔

اختتامی تجزیہ: کیا امن ممکن ہے؟

مذاکرات کی ناکامی کے باوجود دونوں ممالک کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں۔
افغانستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھارت کی پراکسی پالیسیوں سے الگ ہو کر اپنی خودمختار خارجہ پالیسی تشکیل دے۔ دوسری طرف پاکستان کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ طاقت سے زیادہ مؤثر ہتھیار اعتماد اور مسلسل سفارتکاری ہے۔

“Dialogue is not a sign of weakness; it is the foundation of lasting peace.”

اگر دونوں ممالک ایک دوسرے کے خدشات کو سمجھ کر مشترکہ اقدامات کریں تو خطہ جنوبی ایشیا جنگ نہیں، امن کا چہرہ بن سکتا ہے۔تاریخ یہی بتاتی ہے کہ آخر میں میز پر بیٹھ کر طے ہونے والے معاہدے بندوقوں سے زیادہ دیرپا ہوتے ہیں۔

ہم اس ساری بحث سے کیا اخذ کرتے ہیں؟
استنبول مذاکرات کی ناکامی محض ایک سفارتی ناکامی نہیں، بلکہ خطے کے امن کے لیے ایک خطرناک لمحہ ہے۔ تاہم ہر ناکامی میں ایک موقع بھی چھپا ہوتا ہے۔ اگر دونوں ممالک عقل و تدبر سے کام لیں تو یہ بحران مستقبل کے بہتر تعلقات کا آغاز بھی بن سکتا ہے۔پاکستان اور افغانستان دونوں کے عوام امن، تعلیم، ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں — سیاستدان نہیں تو شاید عوام ہی ایک دن یہ خواب پورا کر سکیں۔

“The people of the region deserve peace more than their leaders deserve power.”

 


Post a Comment

0 Comments